ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ مسلم لیگ ن نے اسی
الیکشن میں کیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں یہ بیانیہ اُن کی انتخابی مہم کا
سلوگن قرار پا گیا، اب ہر جلسہ میں’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے اس نعرے کے مخاطب پاکستان کے دو مقتدر ادارے ہیں، جن سے آجکل مسلم
لیگ ن نالاں ہے۔ مگر ووٹ کی عزت کے تقاضے تو بہت مختلف ہیں، جتنے فریق ووٹ
اور الیکشن کے قصے کے کردار ہیں، ان تمام کا فرض ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دیں۔
صرف فوج اور عدلیہ تو ووٹ کو عزت دیں، دیگرتمام فریق من مرضی کریں، یہ بھی
انصاف نہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور دیگر متعلقہ اداروں کا فرض تھا کہ
عوام کو پہلے ووٹ کی اہمیت سے آشنا کرتے۔ ووٹ کے بارے میں چند جملے تو
ہمیشہ سے سننے میں آر ہے ہیں، مگر یہ وہ الفاظ ہیں، جو زبان کی نوک سے ادا
ہوتے ہیں اور نتیجتاً سننے والے انہیں ایک کان سے داخل کرکے دوسرے کان سے
نکال دیتے ہیں۔ ’’ووٹ ایک قومی فریضہ ہے، ضرور کاسٹ کیا جائے ․․․ ووٹ ایک
امانت ہے ، جو کہ اس کے حقداروں کو ملنی چاہیے ․․․ ووٹ سے قوموں کا مستقبل
وابستہ ہے․․․ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ مگر یہ نعرے دینے والے، یا یہ نعرے لگانے والے
قطعاً ووٹ کی اہمیت اور اس کی حقیقی روح سے بے خبر ہیں۔
ہر سیاسی جماعت کے کارکن یا ووٹر اس بات پر صدقِ دل سے یقین رکھتے ہیں کہ
ملک کی بہتری کے لئے ہماری پارٹی کا اقتدار میں آنا ہی ضروری ہے، اگر دوسری
کوئی جماعت کامیاب ہوگئی تو ملک کی چولیں ہل جائیں گی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے
تو ووٹر نے اپنی پارٹی اور اس کے قائدین کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
عدم برداشت نے انتخابی فضا کو آلودہ کر رکھا ہے، گالی گلوچ اور الزامات نے
سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ووٹر اچھے
برے کی پہچان سے بے بہرہ ہو چکا ہے، اپنی پارٹی میں قیادت سے کارکن تک جو
بھی ہے وہ بہت اچھا ہے اور مخالف پارٹی میں کارکن سے قیادت تک جو بھی ہے
بہت برا ، غلط اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت ہی کم ووٹر ایسے
ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ ووٹ اُن کے مستقبل پر کس طرح اثر انداز ہو
سکتا ہے؟ اس کے ووٹ سے کامیاب ہونے والا امیدوار اس کے لئے کیا کچھ کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہے؟ اس کے لئے کتنا مفید یا نقصان دہ ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ
عوام جمہوریت کی روح سے حقیقی معانوں میں آگاہی نہیں رکھتے، تو عوام کو
اکسایا جاتا ہے ، ثابت کیا جاتا ہے کہ فلاں نے عوام کی توہین کردی، خود
خواہ عملی طور پر اس سے بھی زیادہ توہین کے مرتکب ہورہے ہوں۔
ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں شرح خواندگی بھی (سرکاری اعدادوشمار کے مطابق)
پچاس فیصد سے کچھ زیادہ ہے، جبکہ حقیقت میں یہ اس سے بھی کم ہے، کیونکہ
اپنانام لکھ اور پڑھ لینے والے کو یہاں ’خواندہ‘ شمار کیا جاتا ہے۔ بہت ہی
غریب طبقہ جو بے روز گاری اور غربت کے مسائل سے دو چار ہے، جسے اپنا پیٹ
پالنے سے بھی فرصت نہیں، اوپر سے تعلیم اور تہذیب وغیرہ کا ان کے ہاں سے
گزر بھی نہیں ہوتا، گھروں میں اور گھروں سے باہر غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے
ڈھیر ہیں، ہر طرف نشیؤں کے ڈیرے ہیں، چھوٹے بڑے جرائم عام پائے جاتے ہیں،
وہ کیا جانیں کہ ووٹ کی اہمیت کیا ہے، ووٹ کا صحیح حقدار کون ہے؟ یوں اپنے
ہاں لاکھوں ووٹر اپنا ووٹ تو کاسٹ کر رہا ہوتا ہے، مگر اس کے اثرات اور
لوازمات سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ ان کی اکثریت کسی کے کہنے یا قائل کرلینے سے
ووٹ دیتی ہے، یہاں پیسہ بھی کام دکھا جاتا ہے۔ عام درمیانی آبادیوں تک میں
ووٹ چھوٹے موٹے گلی محلے کے کام کر دینے کے وعدے پر دیئے جاتے ہیں، جبکہ یہ
کام بلدیاتی اداروں کا ہوتا ہے۔
پاکستان میں ووٹرز کی اکثریت کسی نہ کسی جبر کے تحت اپنا فریضہ نبھاتی ہے۔
غریب آبادیوں کو قائل کرنے کے لئے امیدوار اور طریقے استعمال کرتے ہیں۔
سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقے جاگیرداری نظام میں جکڑے
ہوئے ہیں۔ وہاں کے دیہات میں رہنے والوں کی اکثریت جاگیر داروں کے ہاتھوں
مجبور ہوتے ہیں، مزارعین کی مجال نہیں کہ وہ اپنے مالک کی مرضی کے بغیر ایک
ووٹ بھی کسی اور کو دے سکے، غلامی کے حقیقی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نہ
وہاں ترقی کا کوئی مطالبہ کرتا ہے، نہ جرات رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عشروں
سے اسمبلیوں اور وزارتوں کے مزے لینے والے معزز ارکان کے علاقوں میں ترقی
کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیتا، اگر ترقی ہوئی تو تعلیم آجائے گی اور تعلیم
کے آجانے کی صورت میں غلامی کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا ۔ برادری ازم بھی
ایک جبر ہی ہے، جس کے تحت بہت سے لوگ ووٹ دیتے ہیں، اُن کا امیدوار جیسا
بھی ہو، وہ دوسروں سے بہتر ہے، کیونکہ وہ ان کی برادری سے تعلق رکھتا ہے ۔
زبان کا تعصب بھی اپنا کام دکھاتا ہے، کراچی میں گزشتہ کئی عشرے لسانی تعصب
کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یوں ووٹر کی اپنی اپنی ترجیح ہے۔ اب مقامِ شکر ہے کہ
اپنے ٹی وی چینلز نے بھی ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کچھ (اشتہار کی حد
تک ہی سہی) کردار ادا کرنا شروع کیا ہے، کہ ووٹ اُن کو دیں تو آپ کی تعلیم،
صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں۔
کبھی ہم نے سوچا کہ ہم ووٹ جیسی قیمتی امانت جن لوگوں کے سپرد کرتے ہیں، وہ
بھی ووٹ کو عزت دیتے ہیں یا نہیں؟ کیا وہ کامیاب ہونے کے بعد باقاعدگی سے
اسمبلی کے اجلاس میں بھی جاتے ہیں؟ کیا وہ اپنے علاقے کی ترقی اور وہاں کے
مسائل حل کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں؟ کیا ان پر کمیشن یا کرپشن کے
الزامات تو نہیں لگائے جاتے؟ کیا وہ اپنے ووٹرز کو بھی عزت واحترام دیتے
اور ان سے مناسب اور ضروری رابطہ رکھتے ہیں؟ یا اسمبلی اجلاس میں بھی کبھی
کبھار جاتے ہیں، وہاں جاکر بھی انہوں نے چُپ کا روزہ کبھی افطار نہیں کیا،
اسمبلی میں نہ جانے کے باوجود تنخواہ اور مراعات وصول کرلیتے ہیں، علاقے کی
خدمت میں بھی کوئی کارِ نمایاں سرانجام نہیں دیا، کمیشن وغیرہ میں بھی اس
کا ذکر آتا ہے، اور اثاثوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا ایسے
امیدوار سے بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے؟ کیا یہی عالم
ہمارے پارٹی قائدین کا بھی نہیں، کہ ووٹ کی عزت مانگنے والے سالہا سال
اسمبلیوں کے اجلاس میں تشریف نہیں لے جاتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ خود ووٹر
بھی کسی نامناسب امیدوار کو ووٹ دے کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی عملی طور پر
نفی کر رہا ہوتا ہے۔ جب اچھے لوگوں کو ووٹ دے کر آگے لایا جائے گا، جو ملک
، قوم اور علاقے کے لئے بہتر خدمات سرانجام دیں گے، قوم کے ایک ایک پیسے کو
امانت تصور کریں گے،تو ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں رہے
گی۔ |