بالآخر نواز شریف کی واپسی ہو ہی گئی۔یاد رہے کہ 6
جولائی کو سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا ۔اور میاں
محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو باالترتیب 10 سال اور 7
سال قید کی سزا سنائی۔یہ مشکلات نواز شریف کی اپنی پید اکردہ ہیں۔سوال یہ
ہے کہ نواز شریف کس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ اداروں سے بھڑ گئے۔
پاناما اسکنڈل کے سامنے آنے کے بعد فوج، عدلیہ ،اور اداروں سے پنجہ آزمائی
کرنا کن نادیدہ قوتوں کے کہنے پہ کی گئی۔اور آج جب باپ بیٹی اور داما د جیل
کی دال کھانے کو ہیں، تو قوم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اب بھی نواز شریف کا
ساتھ دیں گے ،دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ پھر ایک کروڑ کی آبادی والے
شہر لاہور سے اور پنجاب جو لیگیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ،اور جس کی آبادی
11 کروڑ ہے ، وہاں سے 20 ، 30 لاکھ کارکنوں کا جمع کرنا کون سی بڑی بات
تھی۔نواز شریف کے استقبال کی کال تو پورے ملک میں دی گئی تھی پھرکیوں چند
ہزار لوگ بھی اکٹھے نا ہو سکے۔ع
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
کبھی کبھی بہت زیادہ احتیاط بندے کو گٹھنوں پہ بیٹھا دیتی ہے۔میاں صاحب کو
یہی احتیاطی تدابیریں لے ڈوبیں۔پارٹی کے سینئر افراد چیخ چیخ کر سمجھاتے
رہے ۔وہ اس راستے جس پر نواز شریف چل رہے تھے ،پتھروں کی بارش کے آثار دیکھ
رہے رتھے۔وہ جانتے تھے کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔انہوں نے
وفاداریاں نبھائیں۔ مگر میاں صاحب نے کان نہ دھرے ۔ آخر ایسی بے باک قیادت
کب تک منوں بے عزتیں سہتی۔اور نہ وہ ’’ جیپ ‘‘ کی سواری کرتے۔اس میں قصور
وار شریف فیملی کے وہ مخلصین ہیں جن کی منشا پہ چلتے ہوئے شریف خاندان آج
دو ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔نواز شریف کی آمد و گرفتاری کے بعد لیگی کارکنوں ،اور
قیادت کی جانب دار روش سے بڑے میاں صاحب ضرور نالاں ہوں گے۔ایئرپورٹ کے
اطراف سکیورٹی رسک نہ ہونے کے باوجود شہباز شریف ،اور حمزہ شہباز کے قافلے
کا وقت پر نا پہنچنا منافقت کی غمازی تو نہیں کرتا ۔؟ ملک میں سکیورٹی کے
مسائل ،رکاوٹیں ہوتی ہیں ۔لیکن پر ہجوم ، پرجوش ریلیوں کو کوئی رکاوٹ روک
نہیں سکتی ۔آخر کیا وجہ ہے کہ لیگی قیادت سے وہ کام نہ ہو سکا جس کی نواز
شریف توقع کررہے تھے۔ملک کے کونے کونے قافلوں کا آنا درکنار صرف صوبہ پنجاب
کے لیگی ٹکٹ ہولڈرز بھی جمع ہو جاتے تو نواز شریف کا دل بڑا ہو جاتا ۔مولانا
ابو لکلام آزاد ؒ فرماتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل میں نہیں ہوتا۔یہاں
تو انسانوں کے سینے قلب متحرک سے عاری ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس کیس کو ملکی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں امتیازی حیثیت
حاصل رہے گی۔ملک کو جس قانونی حکمرانی کی آج ضرورت ہے اس پر تمام اہل وطن
متفق ہیں ۔تاہم قوم شفاف و آزادانہ الیکشن کے انعقاد کو تمام قومی ایشوز پر
فوقیت دینے کے حق میں ہیں۔اور قوم یہ جانتی ہے کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں
ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں ۔ملکی تاریخ کا شاید ہی پہلا الیکشن ہو جس میں
خون کی ہولیاں کھیلی جا رہی ہیں۔عوامی اختیارات اور قومی حق رائے دہی کو
دہشت گردی سے روکنے کی کوشش اس قوم کے حوصلوں کا امتحان ہے۔ لیکن دہشت گردی
سے اس قوم کو گزرے پندرہ سالوں سے شکست نہیں دی جا سکی، دشمن آگے بھی مایوس
ہوگا۔اور یہ قوم بیلٹ سے بُلٹ کو شکست دے کر اپنے وطن کی حفاظت کرے گی ۔ووٹ
کا صحیح حق دار چن کر قوم کی لوٹی دولت واپس لانے والا زندہ ضمیر انسان ہی
اس بار ٹھپے کا مستحق ہونا چاہئے۔کیوں کہ اب کی بار اگر قوم نے پھر سے انہی
الیکٹ ایبلز کو منتخب کیا تو یاد رکھیں ملک میں پھر گدھے گھوڑے کا فرق باقی
نہیں رہے گا۔ملک کو پیسے بچانے والوں کی ضرور ت ہے ناکہ قوم کے پیسے سے
ہزاروں ایکڑ کی اراضی پر اربوں کے رہائش گاہیں بنانے والوں کی۔25 جولائی
جیسے دن پانچ سال بعد آتے ہیں ۔اور یہ وہ دن ہوتا ہے جب عوام آنے والے پانچ
سالوں میں ملک میں کیا کچھ ہو، اس کا انتظام و انصرام کسی امانت دار کو
سپرد کرتی ہے۔پہلے جو ہوچکا سو ہو چکا ۔اب کی بار کرپٹ سیاست دانوں کو
منتخب کرکے اپنی نسلوں کو زہر نہ دیں ۔
ملک میں غلطی کی گنجائش اب باقی نہیں رہی۔حالات و وقعات کو سامنے رکھتے
ہوئے اس بات کا فیصلہ اپنے ضمیر سے کریں کہ ملکی دولت سے کھربوں کی
جائدادیں بنانے کے باوجود اس بہادری سے واپس آجانا ،اس قوم کے لئے کئی سوال
چھوڑ گیا ہے۔آج قوم وملک جس ناز ک موڑ پر کھڑے ہیں ،انتخابِ راستہ درست نہ
ہوا تو بعید نہیں کہ ملک میں 1965 والے حالات پیداہو جائیں ۔نواز شریف کی
سزا سے نون لیگ کو سیاسی فائدہ ہوگا یا نہیں اس بارے ابھی کچھ کہا نہیں جا
سکتا ۔لیکن ملک کواس سزا کی بہت زیادہ ضرورت تھی ۔جو غلطیاں ہوچکیں انہیں
دھرایا نہیں جا سکتا ۔اس لیے کہ لمحوں کی خطا ء صدیوں کو دینا ہمارے لیے،
ہماری نسل کے لیے ،اور اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے۔
|