پاکستان میں پُر امن انتخابات کے انعقاد کا ٹاسک سیکورٹی
اداروں کے لئے بہت بڑا چیلنج کاختیار کرچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں پر دہشت
گردوں کے پے در پے حملوں نے ملک بھر میں تشویش کی لہر میں اضافہ کردیا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران اب تک شدت پسندچار پرتشددحملے کرچکے ہیں۔رواں ہفتے
متحدہ مجلس عمل کے انتخابی امیدوار کی انتخابی ریلی پر بارودی مواد سے حملہ
کیا گیا ۔ ملک شیرین محفوظ رہے ، انہوں خود پر حملے کا مقدمہ تحریک انصاف
پر درج کروایا ۔ملک شیرین نے کہا کہ’’ملک شاہ محمد خان اور اسکے بھائی نے
ہماری انتخابی ریلی پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کرایا جس کی ایف آئی آر بھی
درج کی جاچکی ہے تاہم اس کے باوجود ملزمان آذاد گھوم پھر رہے ہیں‘‘۔انھوں
نے کہا کہ دھماکے میں نہ صرف آٹھ افراد زخمی ہوئے بلکہ علاقے میں شدید
اشتعال بھی پھیلا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ملزمان کے
خلاف تا حال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔دوسرا دل خراش واقعہ میں عوامی
نیشنل پارٹی کے انتخابی امیدوار ہارون بلور پر خود کش حملہ نے کیا ، جس میں
22افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ ابھی عوامی نیشنل پارٹی سوگ منا رہی تھی
کہ بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے انتخابی امیدوار اکرم درانی کے انتخابی
قافلے پر حملہ ہوا خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں جمعیت علمائے اسلام
ف کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر حملے میں تین افراد ہلاک اور 39
زخمی ہوئے ہیں، البتہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی اس حملے میں محفوظ رہے
ہیں۔انتخابات کے اعلان کے بعد بنوں میں یہ امیدواروں پر یہ دوسرا حملہ ہے ۔رپورٹ
کے مطابق ضلع بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی شہر سے کوئی 15 کلومیٹر
دور علاقہ ہوید میں جلسے سے خطاب کر کے واپس بنوں جا رہے تھے۔ بنوں سے
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ راستے میں موٹر سائیکل میں نصب باوردی مواد سے
دھماکہ ہوا۔۔ اس حملے میں خوش قسمتی سے اکرم درانی بچ گئے لیکن بد قسمتی سے
ان کی گاڑی میں سوار تین افراد شہید ہوگئے۔ ان کی گاڑی مکمل تباہ ہوگئی ۔
اسی شام بلوچستان میں مستونگ میں انتہائی درد ناک سانحہ رونما ہوا اور
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نواب زادہ سراج رئیسانی دہشت گردوں کا نشانہ
بن گئے ، رینگڑھ کے علاقے کے خود کش حملے میں اب تک 128افراد شہید اور
150سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔ نواب زادہ سراج رئیسانی کی تدفین کانک میں کی
گئی ۔
نوابزادہ سراج رئیسانی 4 اپریل1963 کو ضلع بولان کے علاقے مہر گڈھ میں پیدا
ہوئے اور ان کا تعلق بلوچستان کے رئیسانی قبیلے سے تھا۔نوابزاد سراج
رئیسانی نے ابتدائی تعلیم بولان سے حاصل کی اور بعد ازاں زرعی یونیورسٹی
ٹنڈو جام سے ایگر و نومی میں بی ایس سی کیا، جس کے بعد نیدرلینڈ سے فلوری
کلچر کا کورس کیا۔سراج رئیسانی کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی سابق
گورنر بلوچستان اور سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔ انہوں نے 1970
میں بلوچستان متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی۔سراج رئیسانی سابق وزیر اعلی
بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور سابق سینیٹر و بلوچستان نیشنل پارٹی کے
رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔سراج رئیسانی نے چند سال
قبل بلوچستان متحدہ محاذ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے رواں سال تین
جون کو اپنی جماعت کو صوبہ میں بننے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی
پارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور بی اے پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی
نشست حلقہ پی بی35 مستونگ سے الیکشن لڑرہے تھے۔اس سے قبل مستونگ میں
جولائی2011 میں ایک بم دھماکے میں نوابزادہ سراج رئیسانی کا بیٹا اکمل
رئیسانی شہید ہو گیا تھا۔ بلوچستان میں مستونگ سانحے کے علاوہ بھی شدت
پسندوں نے مختلف انتخابی امیدواروں کی ریلیوں و دفاتر کو نشانہ بنانے کی
کوشش کی ۔ جس میں جنوبی شہر خضدار کے آزادی چوک پر بلوچستان عوامی پارٹی کے
دفتر کے قریب نا معلوم افراد نے پلاسٹک کے تھیلے میں دھماکہ خیز مواد نصب
کر رکھا تھا جس میں ٹائم ڈیوائس کے ذریعے جمعرات کو رات گئے دھماکہ کیا
گیا۔دھماکے سے دو راہ گیر سنجے کمار اور اﷲ بخش زخمی ہو گئے جبکہ بلوچستان
عوامی پارٹی (باپ) کے دفتر کو بھی نقصان پہنچا۔ دھماکے کی ذمہ داری تاحال
کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔پاکستان کے اس جنوب مغر بی صوبے میں
انتخابی مہم کے آغاز کے بعد تشدد کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔ اس سے پہلے مسلم
لیگ نواز کے قومی اسمبلی کے اُمیدوار سابق وفاقی وزیر جنر ل ریٹائرڈ عبد
القادر کے انتخابی دفتر پر بھی دستی بم پھینکا گیا۔اس سے قبل تر بت کے
علاقے میں بی این پی مینگل کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی 47
حمل بلوچ، پی بی 44سے نیشنل پارٹی کے امیدوار خیر جان بلوچ اور منگوچر میں
بلوچستان عوامی پارٹی کے راہنماؤں کی گاڑیوں پر مشتمل قافلوں پر نامعلوم
مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی تاہم خوش قسمتی سے ان حملوں میں کوئی جانی
نقصان نہیں ہوا ۔
پاکستان میں انتخابات کو سبوتاژ کرانے کے لئے عالمی اسٹیبلشمنٹ میدان دہشت
میں اتر چکی ہے۔نواب زادہ سراج رئیسانی کے لئے شدت غم سے لکھے جانے والے
لفظوں کی کمی ہے ۔ بلوچستان پہلے ہی عالمی استعمار کی سازشوں کا اہم گڑھ بن
چکا ہے۔ سید کامران جعفری نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچستان
کا شیر پاکستان کے دشمنوں کے لئے خوف کی علامت تھا۔ان کی گراں قدر خدمات
ہیں۔خاموشی سے بڑے بڑے کام کئے۔آخری دم تک پاکستان کے دشمنوں کے سامنے جھکا
نہیں۔بلوچستان پاکستان کا عظیم شیر اور متحدہ محاذ کے رہنما نواب سراج
رئیسانی اس دنیا میں نہیں رہے ان جیسا عظیم شیر ہم نے پاکستان میں کبھی
نہیں دیکھا آج کے دور میں جنہوں نے اپنا14برس کا بیٹا اور خود کی جان
نچھاور کر دی۔لیکن پاکستان کے پرچم پورے بلوچستان میں لہرے۔اﷲ پاک انکے کے
جنت میں اعلی مقام عطا فرماے۔ان کے درجات بلند کرے ۔ قیمتی جانوں کے ضیاع
پرآرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے دکھ کا اظہار ہوئے کہا کہ’’ پاکستان انتہائی
مخلص اورقابل سیاستدان سراج رئیسانی سے محروم ہوگیا۔ جمہوریت کوپٹری سے
اتارنے کی دشمن قوتوں کی کوششیں کامیاب نہیں پاکستانی متحد ہوکردشمن قوتوں
کوشکست دیں گے۔‘‘ صوبہ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ عمر جان بنگلزئی کا
کہنا ہے کہ ضلع مستونگ میں ایک انتخابی جلسے پر ہونے والے خود کش حملے میں
صوبائی اسمبلی کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد ہلاک اور
128 سے زیادہ زخمی ہو ئے۔ضلع مستونگ میں جمعہ کو ہونے والا خود کش حملہ
ہلاکتوں کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس سے پہلے جنوری سنہ
2013 میں علمدار روڈ پر ہونے والے ان دو خود کش حملوں میں 106 افراد ہلاک
اور 169 زخمی ہوئے تھے۔اس حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے۔
داعش کا وجود تنظیمی سیٹ اپ پاکستان میں موجود ہونے کی کوئی مصدقہ اطلاعات
ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں ۔ لیکن افغانستان میں داعش کی موجودگی ثابت بھی
ہے اور عالمی قوتوں کی افغانستان میں موجودگی اور ان کی سرپرستی کے ٹھوس
ثبوت مہیا ہونے کے سبب ایران ، چین روس اور پاکستان نے مشترکہ لائحہ عمل
اختیار کرنے کے لئے اہم چار ملکی انٹیلی جنس سربراہ اجلاس بھی کیا ہے ۔ جس
پر امریکا اور افغانستان کی حکومت جانب سے تشویش کا اظہار حیران کن نہیں ہے
کیونکہ جس طرح افغانستان کی صورتحال روز بروز دگرگوں ہو رہی ہے ۔ یہ بات
بعد از قیاس نہیں ہے کہ امارات اسلامیہ کی مسلح مزاحمت ، ایران کی موجودگی
اور بھارت سے خطے میں من پسند مفادات کے حصول کے لئے امریکا کسی بھی حد تک
جا سکتا ہے۔ افغانستان میں بھی پارلیمانی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے
داعش کی جانب سے عوامی مقامات پر کئی متشدد خود کش حملے کئے جا چکے ہیں۔ جس
میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ۔ اب افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں اور
عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کی موجودگی کے سبب پاکستان پر بھی دہشت گردی کے
سائے و خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان کے سلامتی تحفظ کے اداروں نے
متعدد آپریشن کرکے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نقصان ضرور
پہنچایالیکن افغانستان میں ان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی موجودگی کے سبب
پاکستان میں امن کی صورتحال قابل اطمینان نہیں ہے۔سیکورٹی اداروں کے سامنے
عام انتخابات میں دہشت گردوں کے سب سے خطرناک ہتھیار ’’ خود کش بمبار‘‘ کو
روکنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس خطرناک ہتھیار کو روکنے کے لئے پاک ۔ افغان
سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنائے بغیر امن کا مکمل قیام محض ایک سیراب لگتا
ہے۔پاکستان بارڈر منجمنٹ کے تحت اپنے حصے کا کام بڑی تیزی اور مشکلات کے
ساتھ کررہا ہے۔لیکن امریکا ، نیٹو اور افغانستان کی جانب سے تعاوننہ ملنے
کے سبب پاک ۔ افغان بارڈر کو محفوظ بنانے میں سیکورٹی اہلکاروں کی قیمتی
جانوں سے نقصان کے علاوہ مشکلات میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ داعش کا
فتنہ ملکی سرحد پر موجود ہے اور افغانستان ، امریکی آشیر باد کے ساتھ چین ،
ایران اور روس کو خطے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکنے کے لئے کسی بھی حد
تک جانے کو تیار ہے۔
بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو
بذریعہ ویڈیو پیغام میں کھلی دہمکیاں دی جا چکی ہیں۔ عسکریت پسند گروپ
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے 2018 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتے
ہوئے دہمکی دی تھی کہ انتخابات کا حصہ نہ بنیں ۔نام نہاد بلوچ قوم پرست
تنظیم کمزور ہو کر پسپائی کی جانب بڑھ چکی ہے ۔ بیرونی ایجنڈے و فنڈنگ کی
وجہ سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی کوششوں کو ریاستی ادارے ناکام بنا
چکے ہیں ۔یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ ان عسکریت پسند دہشت گرد
تنظیموں نے عالمی دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی ہو ، کیونکہ ابھی
تک جتنے شواہد سامنے آرہے ہیں وہ واضح کررہے ہیں کہ جس طرح بے گناہ انسانوں
کا قتل عام کیا جاتا ہے اور محنت کشوں کو مارا جاتا ہے ، نسلی و فرقہ
وارانہ بنیادوں پر بم، دہماکے کئے جاتے ہیں ۔ وہ طریقہ داعش کا ہے اور نام
نہاد بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں بھی داعش کی طرح شدت پسندی کی راہ میں گامزن
ہیں۔ افغانستان میں بھی داعش انتخابات کو ملتوی کروانے کے لئے عوامی مقامات
پر بے گناہوں کے کون سے ہاتھ رنگ چکی ہے اور اب پاکستان میں انتخابات کے
دوران پے در پے دہشت گردی کی نئی لہر خدشات میں اضافہ کررہے ہیں کہ یہ
سلسلہ دراز ہوسکتا ہے ۔ آرمی چیف نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ کچھ جمہوری
عمل کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ شدت پسند ڈاکٹر اﷲ نذر نے بلوچستان کے سابق
وزیرِداخلہ سرفراز بگٹی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو پر بھی سخت
تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ بلوچ قوم کو یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں
بیرونی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔عسکریت پسند چین کو بھی دہمکی دی ہے کہ وہ
بلوچستان میں سرمایہ کاری نہ کرے ۔'' آپ (چین) ایک غلط راستے کا انتخاب کر
چکے ہیں‘‘۔بلوچستان کی حکومت نام نہاد علیحدگی پسند کمانڈر سمیت کالعدم
تنظیموں کے 66 عسکریت پسندوں کے سر کی قیمت مقرر کرچکی ہے۔صوبائی وزارت
داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک مراسلے کے مطابق کالعدم جماعتوں کے کئی
سربراہوں کی سر قیمت لاکھوں میں رکھی گئی ہے۔جن دیگر کالعدم تنظیموں کے
عسکریت پسندوں کے سر کی قیمت متعین کی گئی ہے ان میں شیر محمد بگٹی کے سر
قیمت پچاس لاکھ، شیر دل بگٹی دس لاکھ، دوست محمد دس لاکھ اور نبی بخش کے سر
کی قیمت پانچ لاکھ ہے۔سرکاری مراسلے کے مطابق ان 66 افراد کے سروں کی
قیمتیں پانچ لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک ہیں اور ان کا تعلق پانچ مختلف
کالعدم تنظیموں سے ہے جن میں بی ایل ایف کے علاوہ، بلوچ لبریشن آرمی (بی
ایل اے)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) لشکر بلوچستان اور بلوچستان ری
پبلکن گارڈز شامل ہیں۔
پاکستان میں انتخابی پروگراموں کو مخصوص جماعت کے علاوہ سب کو خطرات لاحق
ہیں ۔ اس بات کا اندازہ معروف اینکر کے اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ
۔’’معروف صحافی اور اینکر طلعت حسین کا کہنا تھا کہ لاہور کے جس علاقے میں
وہ موجود تھے وہاں لاکھوں کا مجمع تو نہیں تھا لیکن پچاس ہزار تک لوگ موجود
تھے۔ انہوں نے بتایا کہ،’’لاہور کی سٹرکوں سے گھوم کر آیا ہوں جہاں ہزاروں
کی تعداد میں مسلم لیگ نون کے پر جوش کارکنان موجود ہیں اور یہ مناظرمیڈیا
نہیں دکھا رہا کیوں کہ یہ مناظر دکھانے سے الیکشن کے ماحول پر اس کا اثر
پڑتا ہے اور جو الیکشن کے خاص نتائج چاہتے ہیں وہ سیاسی ماحول کو تبدیل
نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ تمام
انتخابی ماحول متنازع ہوتا جارہا ہے ، سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک ہیجانی
اور پریشانی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے ۔ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے
افراد کا انتخابی ماحول کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں جہاں پریشان کن صورتحال
ہے تو اس سے یہ تاثر بھی جا رہا ہے کہ غیر ریاستی عناصر ملک میں انتخابی
ماحول کو مکمل طور پر سبوتاژ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ پاکستان کی آرمی چیف
کا بیان توجہ طلب ہے کہ ’’ جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی دشمن قوتوں کی
کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘ بلاشبہ پاکستان میں جمہوریت
کبھی پائددار اور مستحکم نہیں رہی ۔ لیکن اس بار پاکستانی آرمی چیف نے خود
اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ملک دشمن قوتوں کی تمام توجہ اس بات پر مرکوز
ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل نہ رہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور ان
عناصر کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اہم اقدامات کرنے کی اشد ضرورت روز
اول سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ملک دشمن
قوتیں اس بات کا پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ ان عناصر کو پاکستان کی درپردہ
حمایت ہے ، اس پروپیگنڈے کو موثر جواب دینے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور
ریاستی اداروں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا ۔ پاکستان کو عالمی طور پر تنہا کی
کوششوں واحد مقصد دراصل سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرکے عالمی اسٹیلبشمنٹ
کو اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا ہے ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی اخلاقی و
سیاسی حمایت کرتا ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ بھارت امریکا گٹھ
جوڑ کشمیری عوام کو آزادی دینے کے بجائے ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے
پاکستان کا امیج دنیا میں بہتر نہیں جائے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر
توجہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اگر جمہوریت کی مروجہ تعریف کی جائے
تو جمہوری اقدار اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی بھی عوام کے پاس ووٹ
لینے جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ جانے کا واحد راستہ جمہوریت میں عوام سے ووٹ حاصل
کرنا ہے ۔ لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ مذہبی جماعتوں اور نئے سیاسی فرنٹ ، خاص
طور پر مسلم لیگ ، تحریک اﷲ اکبر اور متحدہ دینی محاذ کے علاوہ متحدہ مجلس
عمل کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتے ہوئے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے کہ
کسی طرح بھی ان جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھا جائے۔
بلوچستان سے ایک قوم پرست سیاسی رہنماء نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بات
کرتے ہوئے کہا کہ‘‘اس طرح کے مذہبی شدت پسند اور کا لعدم تنظیموں کو خیبر
پختونخوا اور بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں انتخابی سیاست میں لانے کا
مقصد ان علاقوں میں قوم پرست غیر رضامند سیاسی جماعتوں کو پسپا کرنا
ہے’’۔نام نہاد بلوچ قوم پرست ریاست پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ
اپنے پسندیدہ افراد کو شیروانی پہنا کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ جبکہ یہ
حقیقت سامنے آچکی ہے کہ ان نام نہاد قوم پرستوں کو پڑوسی ممالک کی مکمل
سرپرستی حاصل ہے ، انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے
اپنے مخالفین کو اغوا اور تاوان وصول کرتے ہیں۔ نام نہاد قوم پرست تنظیمیں
بنا لسانی بنیادوں پر لسانی اکائیوں کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی
کوشش کرتے ہیں۔ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا استعمال کرکے ناپختہ اذہان
میں غلط فہمی پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچستان متحدہ محاذ کے
رہنماء شہید سراج رئیسانی کے انتخابات میں شمولیت نے نام نہاد قوم پرستوں
کو پریشان کردیا تھا اور بلوچستان کے عوام کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی
دہمکیاں دی جار ہی تھی ۔
انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کے لئے تحفظات کا اظہارکیا جاتا ہے کہ ’’
انتخابی سیاست میں متنازع افراد کا حصہ لینا وقتی طور پر سیاسی فائدہ حاصل
کرنے کی کوشش تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن اس سے معاشرے کو بہت نقصان ہوگا۔
نفرت پر مبنی سیاست کو فروغ ملے گا اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔ پہلے
انتخابات میں ایک علاقے میں فرقہ وارانہ نعر ے لگے تھے۔ اب ایسے نعروں کی
گونج پورے پاکستان میں پھیل جائے گی۔‘‘لیکن منفی پروپیگنڈا کرنے والے اس
حقبقت کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان می نام نہاد قوم پرست
کالعدم تنظیمیں ہی دراصل مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہوں یا پر امن جمہوری
جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے سب نے مکمل طور پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا
ہوا۔ ایسے وقت میں روشن خیال سیکیولر بلوچ قوم پرست قوتوں کی جا نب سے قومی
دھارے میں شمولیت کی کوششوں کو نام نہاد قوم پرست بزور قوت بیرونی عناصر و
ملک دشمن دشمن طاقتوں کی نگرانی میں، شدت پسند اور جرائم پیشہ افراد و
گروہوں سے ناکام بنانے کی سعی کررہے ہیں، یقیناً ایسا عمل بلوچستان میں
مزید سیاسی و سماجی ابتری کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔پڑوسی ملک افغانستان میں
کالعدم تنظیموں و نام نہاد قوم پرست جماعتوں کے شدت پسندوں کی موجودگی اور
داعش کے ساتھ روابط جہاں بلوچستان میں مستحکم امن کے قیام میں رکاؤٹ کا سبب
بن رہا ہے تو دوسری جانب ملک میں سیاسی انتشار و استحکام پیدا کرنے کے لئے
مخصوص جماعتیں اقتدار کے حصول کے لئے ملکی تشویش ناک حالات سے بے پرواہ صرف
اقتدار کے حصول کے لئے مملکت استحکام اور بقا کے دشمن بنے ہوئے ہیں |