ذات کی تکمیل ، کائنات کے رنگ،
گھر کے لوگ، رنگ، خوشبو، تتلیاں سب میرے وجود کے گرد رہتی ہیں. میری ذات
میں میرا ہمزاد بستا ہے . میرے آس پاس کے لوگ اور ان لوگوں کی زندگیوں سے
میں اثر لیتا ہوں . کہانی نویس ہوتا ہی ایسا ہے . دنیا میں ہر طرف ایک
کہانی ہر روز جنم لیتی ہے, کچھ زندہ رہتی ہیں اور کچھ شروح ہونے سے پہلے
ختم ہو جاتی ہیں- کچھ بڑے لوگوں کی بڑی اور طویل کہانیاں ہوتی ہیں اور پھر
یہ کہانیاں مدت گزرنے کے بعد ہمارا ماضی اور حوالہ بن جاتی ہیں.
میں اور روشن آج بڑے عرصے بعد ملے ، کھانا کھایا اور پھر فلم دیکھنے سینما
چلے گئے. کسی دور میں جب میں اور روشن لاہور میں ملے تھے تو اس وقت میری
اور روشن کی کوئی کہانی نہیں تھی مگر آج روشن کی ایک کہانی تھی. وہ بھی کسی
دور میں تتلیوں کے رنگوں اور خوشبوؤں کے کمال کی بات کرتی تھی -----
آج دس سال بعد سب کچھ بدل گیا تھا . میں آج بھی وہیں کھڑا تھا جہاں دس سال
پہلے تھا تب بھی کہانیاں لکھتا تھا اور آج بھی کہانیاں لکھتا ہوں جبکہ روشن
نے آٹھ سال پہلے کسی جاگیردار کے بیٹے سے شادی کر لی اور امریکہ چلی گئی.
زندگی انسان کو ہر طرح کے مشاہدات اور تجربات سے گزارتی ہے روشن بھی ایسے
تجربات سے گزری-------- ہم اس کے امریکہ سے لوٹنے کے بعد تقریباً دس بار
ملے مگر وہ مجھے ہر روز فون ضرور کرتی.
بارش آج بھی بڑی تیز ہے فون کی گھنٹی بجی اور روشن جسے میں کچھ دیر پہلے
گھر چھوڑ کے آیا تھا نے بڑے سخت لہجے میں مجھ سے پوچھا کے کیا میں ایک عام
انسان سی خواہشات نہیں رکھتا ؟ میرا جواب کیا ہونا چاہیے تھا میں یہی سوچ
رہا تھا کہ اس نے مجھ پہ ایک اور وار کیا. بولی مجھے تمہاری عادت ہوتی جا
رہی ہے جو اچھی بات نہیں . وہ بولی تم کیا کالا علم پڑھتے ہو کہ میں تمھارے
سامنے اپنے دل کے سب راز فاش کر دیتی ہوں.؟ ------ پھر روشن نے رونا شروع
کر دیا. وہ نا جانے آج کیوں اداس تھی بس ایسے لگتا تھا کہ لاوا اس کے جذبات
کے آتش فشاں سے امنڈ رہا ہے. روشن بولی " تم بہت خود شناس ہو دس سال پہلے
بھی تم اپنی کہانیوں کے عشق میں مبتلا تھے اور آج بھی، تمہیں یاد ہے میں نے
تم سے کہا تھا کہ تم مجھے اپنا لو میں تمہاری کہانیوں کو زندگی دوں گی مگر
تم تب بھی ایک جھوٹے تنہا کہانی نویس تھے اور آج بھی" میں سن رہا تھا اور
روشن بول رہی تھی.
تھوڑی دیر خاموشی رہی اور جیسے ہی حصار ٹوٹا وہ پھر مجھ پے برس پڑی. " تم
کیوں اس غلام گردش میں جینا چاہتے ہو ، میرے باپ کے پاس بہت پیسہ ہے ، تم
اس ویرانے سے نکلو اور میرے آباد جہاں میں چلو میں تہماری کہانیوں کو زندگی
اور کردار دوں گی تہمارا نام ہو گا لوگ تمھارے کام کو چاہیں گے اور میں
تمہیں. یہاں کون پڑھتا ہے تمھارے اس خبط کو ، اب وہ دور چلے گئے کہ لوگ داد
دیں گے تو تم خوش ہو کے ایک اور کہانی لکھ ڈالو گے . یہ مادیت کہ دور ہے ہر
شے بکتی ہے اور پیسہ ہونا ضروری ہے . میرے ساتھ چلو میں تمہیں ایک اخبار
نکال کے دوں گی." اس نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا " تمہیں تو یاد ہے نہ جب
میرے بابا نے خود کی فلم بنائی تھی تو تمھارے جیسے لکھاریوں کی ایک فوج
ہمارے دفتر کے چکر کاٹتی تھی. اور آج میں پھر تمہیں اس بات پہ آمادہ کرنے
آئی ہوں کہ میری بات مان لو -------!"
فون کٹ گیا میں اپنے فرسودہ سے کمرے کے ایک کونے سے اٹھا اور کھڑکی کے پاس
چلا گیا ، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ روشن کیا کرنا چاہتی ہے . میں نے اسے دس
سال پہلے بھی یہی کہا تھا جو آج سمجھانا تو چاہتا تھا مگر وہ میری بات سن
ہی نہ پائی اسے اس بات کا علم ہے کہ ایک کہانی نویس جھوٹی کہانیوں میں سچے
کردار ہی کی تلاش میں رہتا ہے اور وہ تو جھوٹی کہانی میں جھوٹا کردار ڈالنے
کی کوشش کر رہی تھی. میں نے پردہ پیچھے کیا اب بارش اور تیز ہو رہی تھی -
روشن کے لفظوں کی طرح بارش بھی بڑی تیز کڑاکے کی تھی - میں نے پانی پینے کے
لئے جگ سے پانی گلاس میں ڈالا - ابھی گلاس ہونٹوں کے پاس ہی لیا تھا تو
مجھے پانی کے اوپر میری ہی کہانیوں کے کردار تیرتے نظر آئے - ایسے لگا جیسے
وہ کہہ رہے ہوں کہ " ہم پیاسے ہیں ہمیں سراب کر دو روشن کی بات مان لو ،
چلے جاؤ اس آباد جہان میں تاکہ لوگ ہمیں جان پائیں"-
کچھ روز پہلے جب روشن مجھے ملنے آئی تو وہ بولی تھی کہ وہ میرے طریقہ زندگی
سے تنگ ہے, بورنگ لائف سٹائل شاید اس نے کہا تھا. اب میں کیسے اس بورنگ
لائف سٹائل کو چھوڑ دوں جو مدت سے میرا اپنا ہے - روشن تو کچھ سال پہلے
میری دوست بنی مگر میری غلام گردش تو پرانی ہے میرے قلم کی طرح میرے ساتھ
ہے - میں اسے کیسے چھوڑوں. ہاں میں وقت کا بڑا لکھاری نہیں مگر میں جو ہوں
اس سے کیوں انکار کروں . میری کہانیوں کی رفاقت ہی اتنی اہم ہے کہ میرے
لفظوں کی مانگ اور روشن کی ترغیب ان کی نسبت کچھ مطلب نہیں رکھتی .
اور پھر ایک بار فون کی گھنٹی بجی روشن ایک بار پھر مجھے یہ احساس دلانے
آئی کہ میرا وجود اور مقام نا مکمل ہے. اور میرے لیے اس کی دنیا میں جانا
ہی بہتری ہے. روشن نے کہا " میں واپس جا رہی ہوں آخری بار پوچھ رہی ہوں ایک
طرف شہرت ہے اور دوسری طرف تمہاری تاریکی یہ نہ ہو کہ تم اپنی کہانیوں میں
دفن ہو جاؤ . تمہاری کہانی کون لکھے گا ، تم ان کاغذوں میں تحلیل ہو جاؤ
گے. " اور پھر فون کٹ گیا.
ٹھیک کہا روشن نے کہانی نویس کا وجود نکھرتا ہی تب ہے جب وہ اپنے لفظوں میں
تحلیل ہو جاتا ہے . پھر یہ تو فنا کی کیفیت ہے جس میں کچھ کھونے اور ڈوبنے
کا خدشہ یا اندیشہ نہیں رہتا . اسی لئے تو بدلتے وقتوں کے ساتھ سب بدلہ مگر
کہانی اور کہانی نویس کی رشتہ نہیں بدلہ.
بدلے بھی کیسے؟
روشن جو بدلنا چاہتی ہے وہ بدلہ نہیں جاتا اپنایا جاتا ہے اور اسی اپنانے
کو یقین کہتے ہیں. انہی سوچوں کے ساتھ میں واپس اپنے میز پر بیٹھ گیا ٹیبل
لیمپ جلایا ایک کاغذ لیا اور پھر سے لکھنا شروع کیا کہ " ایک لڑکی تھی جس
کا نام روشن تھا اور وہ ایک قلم کار سے محبت کر بیٹھی -----------" |