ارضِ وطن ایک دفعہ پھر خونم خون، کے پی کے میں بلور
خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی ، خودکُش حملے میں ہارون بلوراپنے کئی ساتھیوں
سمیت شہید ہوئے۔ پھر دو دِن بعد ہی جمعہ 13 جولائی کوکے پی کے ہی میں ایک
اور بم دھماکہ ہواجس میں سابق وزیرِاعلیٰ اکرم خاں دُرانی بال بال بچے لیکن
اُن کے پانچ ساتھی شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ اکرم درانی جب مجمعے سے خطاب کے
بعد باہر نکلے تو سائیکل کے ساتھ بندھا بم پھٹا اور یہ سانحہ رونما ہوا۔
پتہ نہیں اُس وقت کے پی کے کی پولیس کہاں سوئی ہوئی تھی۔ یکے بعد دیگرے
ہونے والے اِن دہشت گردی کے واقعات نے خیبرپختونخوا کی پولیس کی کارکردگی
پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ تحریکِ انصاف نے پولیس کی کارکردگی کے
دعوے تو بہت کیے لیکن اِس کا عملی ثبوت ندارد۔
جمعے کے روز ہی مستونگ (بلوچستان)میں خودکش دھماکہ ہوا۔ رئیسانی خاندان کے
نواب زادہ سراج رئیسانی خطاب کے لیے سٹیج پر پہنچے تو خودکش حملہ آور نے
اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیااورسراج رئیسانی منصبِ شہادت پر سرفراز ہوئے۔
یہ ایسا خوفناک خودکُش حملہ تھا جو 130 افراد کی جانیں لے گیا۔ ہسپتالوں
میں شہداء اور زخمیوں کے لیے جگہ نہ بچی، گھر گھر صفِ ماتم بچھی اور دَر
دَر نوحہ خوانی لیکن ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کے کانوں پر جوں تک نہ
رینگی۔ سبھی ’’کرسی‘‘ کی دَوڑ میں مگن ایک دوسرے پرکیچڑ اچھالتے رہے۔
اُنہیں اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اِس سانحۂ عطیم پر مگرمچھ کے آنسو ہی
بہا لیتے۔ دراصل آجکل پاکستان میں انتخابی بخار عروج پر ہے۔ ایسے میں سوائے
اونچے ایوانوں کے حصول کے کسی کو کچھ یاد نہیں۔ سوال مگر یہ کہ جس بخار میں
ہم مبتلاء ہیں، کیا اُس کا کچھ فائدہ بھی ہوگا؟۔ کیا اِن انتخابات سے
جمہوریت کے پَل بڑھ کر جوان ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے؟۔ جن حالات میں یہ
انتخابات ہو رہے ہیں ،کیا اُن کے نتائج کو تسلیم کیا جائے گا؟۔۔۔۔ اور
سلگتا ہوا سوال یہ بھی کہ وطنِ عزیز میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں یا
سلیکشن؟؟؟۔
جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی انگلیاں عدلیہ کے متنازع فیصلوں کی طرف
اُٹھ رہی ہوں، نَیب نوازلیگ کو پابندِ سلاسل کرنے کی تگ ودَومیں مگن ہو،’’
مہربانوں‘‘ نے یہ طے کر لیا ہو کہ اقتدار کسی بھی صورت میں نوازلیگ کے سپرد
نہیں کیا جا سکتا، لاڈلے کے سَر پر اقتدار کا ہما بٹھانے کی تیاریاں کی جا
رہی ہوں، پنجاب حکومت کا نگران وزیرِاعلیٰ اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں
میں نوازحکومت کا شدیدترین مخالف رہا ہو اور پنجاب ہی کا وزیرِداخلہ تحریکِ
انصاف کا منشور مرتب کرنے والا ہو تو پھر یہ الیکشن ہیں یا سلیکشن؟۔ اگر
سلیکشن ہی مقصود ہے تو پھر حکومت ’’لاڈلے‘‘ کے سپرد کیوں نہیں کر دی جاتی؟۔
قوم کا بہت سا پیسہ اور وقت کیوں نہیں بچایا جاتا؟۔ اگر ’’لاڈلا‘‘ ہی مطلوب
ومقصود ٹھہرا تو پھر عام انتخابات کا ڈرامہ کیوں؟۔ ۔۔۔ کر گزریں جو کرنا ہے
تاکہ کم از کم زہر اگلتی زبانیں تو بند ہو جائیں۔
نارووال میں 12 جولائی کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خاں نے
انسانیت، شرافت اور اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ دیں۔ اِس سے پہلے وہ میاں
نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف غیرپارلیمانی زبان
استعمال کرتے رہے لیکن اب کی بار اُنہوں نے نوازلیگ کے کارکنوں کو براہِ
راست نشانۂ تضحیک بنا ڈالا۔ یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ 2012ء سے اب تک شاید
ہی کوئی خوش نصیب ایسا بچا ہو جو اُن کی زہرآلود زبان کی دست بُرد سے بچا
ہولیکن اب تو اُنہوں نے حد ہی کر دی۔ اُنہوں نے کہا ’’نوازشریف کے استقبال
کے لیے جانے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ حیرت ہے کہ اِس انتہائی
گھٹیا جملے پر الیکشن کمیشن حرکت میں آیا نہ پیمرا۔ شاید اِن دونوں اداروں
میں اتنی سکت ہی نہ ہو کہ وہ لاڈلے سے جواب طلبی کر سکیں۔ لیکن اگر
نوازلیگیوں نے پلٹ کر تحریکِ انصاف کے پیروکاروں کو گھوڑے، گدھے اور کتّے
کہنا شروع کر دیا تو پھر سوائے انارکی کے اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔ ایسی
صورت میں ملک کو جو نقصان ہو گا، اُس کا ذمہ دار بھی کپتان ہی ہو گا یا پھر
اُس کے سرپرست۔ ہم تو کپتان کے سرپرستوں کو دست بستہ یہی عرض کر سکتے ہیں
کہ کپتان جب اپنے حواس میں نہ ہوں تو اُنہیں عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے
سے روک دیا جائے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کی ایک حد ہوتی ہے اور جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو
جائے تو پھرایسا طوفان اُٹھتا ہے جو سب کچھ خَس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتا
ہے۔ نوازلیگ کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کے باوجود لیگیوں نے صبر کا دامن ہاتھ
سے نہیں چھوڑا۔ اگر اُن کا صبر تمام ہوا تو پھر کپتان کی سابق بیوی ریحام
خاں نے اپنی کتاب میں کپتان کے ذاتی کردار کے بارے میں جو انکشافات کیے
ہیں، وہ سب منظرِ عام پر آجائیں گے۔ ریحام خاں کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ اُس
نے بہت کم لکھا اور جو کچھ لکھا، اُسے وہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثابت
کر سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کبھی بھی ریحام خاں
کی کتاب کے اُن مندرجات کو ظاہر نہیں کرے گا جن کا تعلق عمران خاں کی ذاتی
زندگی سے ہے کیونکہ وہ مندرجات اتنے غلیظ کہ پڑھنے کے قابل بھی نہیں۔ جب
منیب فاروق نے ریحام خاں سے سوال کیا کہ اُس نے عمران خاں کے ذاتی کردار کے
بارے میں ایسے غلیظ انکشافات کیوں کیے تواُس کا جواب کچھ یوں تھا کہ گناہ
کرنا غلط لیکن گنہگار کے گناہوں کو چھپانا اُس سے بھی زیادہ غلط۔ ایک طرف
کپتان اور اُس کے حواریوں کی زبانیں اپنے کنٹرول میں نہیں اور دوسری طرف
عدلیہ کے عجیب وغریب، ناقابلِ یقین متنازع فیصلے۔ ایسے میں کسی وقت بھی صبر
کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جو ’’مزاحیہ فیصلہ‘‘ دیا
اُس کا پوری دنیا میں مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ نوازلیگ نے یہ فیصلہ بین
الاقوامی ماہرینِ قانون کے پاس بھیج دیا ہے جس کے جوابات بھی آنا شروع ہو
گئے ہیں اور کوئی ایک جواب بھی ایسا نہیں جس میں اِس فیصلے کو درست قرار
دیا گیا ہو۔ میاں نوازشریف کے شدیدترین مخالف سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ
افتخار محمد چودھری نے بھی کہہ دیا کہ نوازشریف اور مریم نواز کے ساتھ
ناانصافی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا ’’بارِثبوت استغاثہ پر تھا، میرا ماننا ہے
کہ انصاف کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں۔ احتساب عدالت نے نوازشریف، اُن کی
بیٹی اور داماد کو سزا سناتے وقت انصاف نہیں کیا۔ جب آپ اِس عہدے پر فائز
ہوں کہ انصاف فراہم کر سکیں تو آپ کو کسی دوسری چیز سے غرض نہیں ہونی
چاہیے، چاہے آپ کا دشمن ہی آپ کے سامنے کیوں نہ ہو‘‘۔
جب احتساب عدالت کے جج نے میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو
سزائیں سنائیں تو عام خیال یہی تھا کہ میاں صاحب پاکستان واپس نہیں آئیں
گے۔ افواہوں کا بازار گرم ہوا اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ میاں صاحب نے
حکومتِ برطانیہ کو سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی ہے۔ اُنہیں پیغام بھی
پہنچایا گیا کہ وہ پاکستان آنے کا ارادہ ترک کر دیں تو اُن کی سزا معاف کی
جا سکتی ہے لیکن میاں صاحب نے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء اپنی
اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو سپردِ خُدا کرکے واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ
ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے نوازلیگ کی سیاسی تاریخ کو نہ صرف نئی رفعتوں سے
روشناس کرایا بلکہ مخالف بھی لرزہ بَراندام ہو گئے۔ یہ فیصلہ حصولِ اقتدار
کا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ میاں صاحب خوب جانتے ہیں کہ اُن کی جماعت
کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے سے بہرصورت روکاجائے گا۔ انہیں یہ بھی علم
ہے کہ پنجۂ استبداد اُن کے خلاف اپنی تمامتر توانائیوں کے ساتھ متحرک ہے
اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنے نصب العین کی سربلندی کے لیے
یہ جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ شاید وہ اُس غلطی کو نہیں دہرانہ چاہتے تھے جو
1999ء میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اُن سے سرزد ہوئی اور وہ دوستوں کے
کہنے پر جلاوطنی کے لیے مجبور ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی نااہلی کے بعد ’’ووٹ کو
عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور قوم کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اپنے عہد سے
پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آج وہ اِسی عہد کو نبھانے اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ
اڈیالہ جیل میں پابندِسلاسل ہیں۔
جونہی میاں نوازشریف کی 13 جولائی کو وطن واپسی کا اعلان ہوا نگران حکومت
کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، پکڑدھکڑ کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور 13 جولائی کو
تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورے لاہور کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا ہو۔
کئی لیگی رَہنماء نظر بند ہوئے۔ اندرونِ لاہور سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند
کر دیا گیا۔ لاہور میں داخلے کے تمام راستے سِیل کر دیئے گئے۔ موبائل اور
انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ مختلف شہروں سے لاہور آنے والے قافلوں کو جگہ
جگہ رکاوٹیں لگا کر روک لیا گیا ۔ تمام کیبل آپریٹرزکو حکم دیا گیا کہ
کیبلز بند کر دی جائیں۔ اِس کے باوجود میاں شہباز شریف تمام رکاوٹوں کو
عبور کرتے ہوئے ہزاروں افراد کا مجمع لے کر لاہور ایئرپورٹ کے مضافات میں
پہنچ گئے۔ یہ تمام اقدامات ڈاکٹر حسن عسکری کے حکم سے ہوئے جو بدقسمتی سے
پروفیسر بھی رہا ہے۔حسن عسکری کی نواز مخالفت سبھی پر عیاں اور ’’لاڈلے ‘‘
کی کاسہ لیسی بھی۔تحریکِ انصاف کا بطور نگران وزیرِاعلیٰ تجویز کردہ یہ
صاحب ’’لاڈلے‘‘ کی جھولی میں بیٹھا جو احکامات جاری کر رہا تھا، اُس کی
تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں نے شدیدترین مذمت کی۔ وزارتِ داخلہ پنجاب کے
نگران وزیر شوکت جاوید نے تو جھوٹ بولنے کی انتہا کر دی۔ وہ جمعرات کو ایک
ٹی وی چینل پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ کسی بھی سیاسی کارکُن کو گرفتار نہیں
کیا گیا۔ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی یا اُنہیں گرفتار کیا گیا، وہ
شَرپسند اوردہشت گرد ہیں۔ یہی شوکت جاویدجمعے کے روز رپورٹروں کو بتا رہے
تھے کہ نوازلیگ کے 124 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا مگر اِن میں نون لیگ کا
کوئی بھی لیڈر نہیں ہے۔ اُن سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ لوکل کونسل کے
چیئرمینوں اور کونسلرز کو کِس جرم کی پاداش میں حراست میں لیا گیا؟۔ شوکت
جاوید یہ بھی کہتے ہیں کہ اُن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں
حالانکہ تحریکِ انصاف کا منشور مرتب کرنے میں اُن کا بھی حصّہ رہا ہے۔ جب
صورتِ حال یہ ہو تو پھر ایسے انتخابات
کے نتائج پر کون یقین کرے گا۔
|