اب کی بار دیانت دار کیوں؟ کیا فائدہ ہوگا؟

ووٹ کی پرچی بظاہر ایک معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا ہے مگر روز حساب اس کا وزن اعمال میں شامل ہوگا ۔روز قیامت جواب دہی بھی ہوگی۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ’’اے اہل ایمان امانتیں اہل افراد کے سپر دکرو‘‘۔اس لیے ملک و قوم کے خزانے جو آپ کی دولت سے ،آپ ہی کے لیے بھرے جاتے ہیں ان کی سپردگی بھی امانت ہی ہے ۔

آپ اپنا ووٹ جس امیدوار کے حق میں استعمال کریں گے اس کے صحیح اور غلط عمل میں حصہ دار ہونگے ۔لہذا ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو آپ کے نیکی کے پلڑے کو بھاری کرے ۔

آپ واقعی حالات کی تبدیلی چاہتے ہیں تو جان لیں آپ کو اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔اس نظام میں اب بھی خرابیاں سہی لیکن فی الحال دستیاب تو یہی ہے، راستہ بھی یہی ہے ۔ دن میں کتنے دوست احباب آپ سے رابطہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہونگے کہ جوتے لینے ہیں ،کوئی اچھی جگہ بتاؤ۔دانت دکھانے ہیں کوئی اچھا ڈینٹسٹ بتاؤ، کپڑے لینے ہیں کوئی اچھی دکان بتاؤ ،ہر چیز کی کریڈیبلیٹی آپ اپنی عام زندگی میں چیک کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ ایک کلو خربوزہ لینے کے لیے بھیپوری پھل کی ریڑھی سونگھ کر چیک کرتے ہیں توپھر میرے بھائی اپنے حالات بدلنے کے لیے حکمرانوں کی کیوں نہیں چھان بین کرلیتے۔کیوں موسیقی کی دھن،مخلوط جلسوں ، ایک پلیٹ بریانی، شور شرابا، رنگ برنگی چکا چوند میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی ، ہماری نسلوں کے لیے اہم ترین فیصلہ ہے۔

دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کو نیست ونابود کرنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ کشمیر، فلسطین، بھارت، برما، افغانستان، عراق، شام، مصر، الجزائر سب آپ کے سامنے ہیں۔ایسے حالات میں امت مسلمہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی بقاء کے عظیم مقصد کی خاطر آپس کے اختلافات بھلا کر دشمن کے مقابلے کیلیے ایک صف میں کھڑے ہوں۔ اس مقصد کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل کی صورت میں دینی تنظیموں کا اتحاد وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی سرخروئی کے لیے نوید ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جب ابھی تازہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سرکاری خزانے سے پونے دو لاکھ کی چائے صرف دو صحافی ٹیموں کو پلائی ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جب وہ پشاور میٹرو بس میں اربوں روپے کی کرپشن کے جواب میں یہ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں تجربہ نہیں تھا؟جب ایک پارٹی کا سربراہ جیل میں ہو ، ایک جماعت کے سربراہ کے ’اعلیٰ کردار ‘ پر کتابیں لکھی جا رہی ہوں۔ایک اور جماعت کے سربراہ کوایف آئی اے نوٹس دے چکی ہو۔یہ تو سربراہ کا حال ہے اُن کے نیچے عہدیداروں کا تو اندازہ کرلیں۔

٭متحدہ مجلس عمل کے موجودہ صدر مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت پر اعتراضات کرنے والے وہ تمام افراد بتائیں کہ کُل ملا کر وہ کتنے الزام لگا سکتے ہیں اُن پر؟

آج تک کسی نیب، کسی تحقیقاتی ادارے نے اُن پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہیں لگایا ہے ۔اُن کے والد بھی صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں مگر اُن پر بھی کوئی حرف نہیں اٹھا سکا۔

٭نائب صدر متحدہ مجلس عمل اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ۰ سابق سینئر وزیر کے پی، وزیر خزانہ کے پی) پر کسی بھی قسم کی مالی، اخلاقی، سیاسی ، معاشرتی کرپشن کے الزامات کی کوئی فہرست تو بنائیں؟شاید کوئی ایک بھی نہ مل سکے۔

٭مولانا شاہ احمد نورانی ( متحدہ مجلس عمل کے پہلے صدر ) قاضی حسین احمد (ؒ متحدہ مجلس عمل کے دوسرے صدر )ذرا ِان دو شخصیات کے بارے میں کچھ الزامات تو جمع کر کے دکھائیں ۔اپنے بڑوں سے پوچھ لیں، گوگل کرلیں۔اخبارات دیکھ لیں۔

٭چلیں 2002میں متحدہ مجلس عمل کی صوبہ سرحد حکومت کی کارکردگی میں کوئی سیاہ نقطہ ہی ڈھونڈ لائیں ۔آپ کیسے عالمی بینک کی جانب سے سراج الحق کی بطور صوبائی وزیر خزانہ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کو جھٹلائیں گے ؟اُن بجٹ ریکارڈ کو کیسے رد کریں گے جن کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ کس طرح دیانت و امانت کے ساتھ قوم کا پیسہ خرچ کیا گیا عوامی منصوبوں پر۔

لے دے کر بہت نچوڑو تو کوئی کہتا ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا ، تو جناب اگر دیا بھی تو کیا یہ کرپشن ، بد عنوانی، بد دیانتی ، ملک سے غداری کا جرم ہے ؟

جواب ملے گا کہ جمہوریت کو نقصان پہنچایا ، آمر کا ساتھ دیا ۔حیرت ہوتی ہے کہ پوے ملک میں اس وقت سب سے زیادہ جمہوری ، ہر قسم کی موروثیت، ہر قسم کی جاگیردارانہ کلچر سے پاک اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے ۔اس کا اعتراف ہر سطح پر ہو چکا ہے ، تو اتنی بڑی جمہوری جماعت کیسے جمہوریت کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتی ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی الزام ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو لوگ سیاسی اتحا دکا نام دے دیتے ہیں ، جبکہ دونوں انتہائی الگ الگ اصطلاحات ہیں ۔آمر کے ساتھ دینے کے بودے اور حقائق کے برخلاف الزام کو لگا کر ملک پر بدترین چور ، لٹیروں اور کرپشن کے بادشاہوں کو اقتدار سونپ دینا کہاں کی عقل مندی کہلائی جائے گی؟

آج پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو بدترین خطرات لاحق ہیں ۔ ان خطرات کا مقابلہ کبھی بھی چور ، بدعنوان، نا اہل اور کرپٹ لیڈر شپ نہیں کر سکتی ۔نہ ہی وہ لوٹے کر سکتے ہیں جو اقتدار کے لالچ میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگا رہے ہیں ۔ملک میں میڈیا کے ذریعہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عریانی، فحاشی کا سیلاب لایا جا رہا ہے ۔جبکہ تفریح کے کئی اور مثبت او رتعمیری ذرائع موجود ہیں جو کہ اسلام میں ممنوع بھی نہیں ہیں۔اسلامی قوانین خصوصاً ناموس رسالت ﷺ کے قانون کے درپے قوتوں کا سامنا اور مقابلہ کبھی بھی سیکولر و لبرل نہیں کر سکتے ۔معاشی طور پر پاکستان کو جس غلامی میں دھکیلا گیا ہے اُس کے لیے ایسی قیادت ہی درکار ہے جو سابقہ حکمرانوں کی طرح عیاش نہ ہو۔

عوام کا درد رکھنے والے ، عوام کے درمیان بسنے والے ہی عوام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ۔

متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید صرف اور صرف تلاوت کرنے کی کتاب نہیں ہے ۔یہ کتاب عمل کے لیے نازل ہوئی ہے ۔بطور خلیفتہ اﷲ فی الارض ، خالق کائنات کی جانب سے اس کتاب کے نظام کو قائم کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اس کتاب میں ہمارے لیے کامیاب سیاست، معیشت، معاشرت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی سمیت تمام اصول قوائدبیان کیے گئے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب اس زمین پر اﷲ کی کتاب نافذ ہوئی تو آسمان و زمین سے رزق ،امن اور خوشحالی کے دروازے کھلے ۔یہ منظر بھی تاریخ میں رقم ہے کہ اس کتاب کے نظام کی برکت سے لوگ ٹوکروں میں زکوۃ لیے پھرتے اور خوشحالی کا عالم یہ ہوتا کہ کوئی ضرورت مند لینے والا نہ ہوتا۔

اس لیے متحدہ مجلس عمل نے اس علامتی نشان یعنی ’کتاب‘ کو اپنے نظریات ، فکرسے ہم آہنگ اور اپنے منشور ،پالیسی کو سمجھانے کے لیے عوام الناس میں ابلاغ کیا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن مجید کے نظام کونافذ کرنے میں ہے۔یہ بات آئین پاکستان میں موجود قرارداد مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے ۔

متحدہ مجلس عمل نے جو عوامی فلاحی منشور پیش کیا ہے وہ پاکستان کی خوشحالی اورترقی کا حقیقی ترجمان ہے ۔جس میں قانون کی مکمل حکمرانی ہوگی اور عدل و انصاف سب کو بلا تفریق اور آسانی سے دستیاب ہوگا۔ہر شہری کے لیے لباس، خوراک ،مکان، تعلیم کے ساتھ روزگار بھی ہوگا۔قومی دولت لوٹنے والوں کا بے لاگ احتساب ہو گا کیونکہ جب احتساب کرنے والے کا دامن پاک ہوگا تب ہی ایسا ممکن ہوگا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک چور نے دوسرے کو راستہ ہی دیا ہے ۔توانائی اور پانی کی کمی کا مسئلہ جامع منصوبوں کے ساتھ دور کیا جائے گا،اختیارات کی منتقلی نچلی سطح تک ہوگی۔سودی نظام کا خاتمہ ہوگا اور اُس کی برکات سے پورا ملک معاشی ترقی کے پھل سے فیضیاب ہوگا۔پانچ بڑی بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔دیانت دار افراد کے آنے سے کرپشن ، بے ایمانی، لوٹ مار ، کمیشن کلچر، رشوت ،ملاوٹ ختم ہوگی تو مہنگائی کی شرح بھی نیچے آئے گی ۔ایٹمی صلاحیت کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کاموثر بلاک بنایا جائے گا۔اقلیتوں کے تمام حقوق کا تحفظ ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں ۔

یہ سب خواب نہیں حقیقت بن سکتا ہے کیونکہ اس پر عمل کرنے کے لیے آپ کے سامنے متحدہ مجلس عمل کاکوئی بھی اُمیدوار کرپٹ، لوٹا ، بے ایمان، نہیں ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ، باصلاحیت ، خوف خدا رکھنے والا انسان ہے ۔یقین مانیں۔کتاب کودیے جانے والا ووٹ نہ دُنیا میں آپ کو شرمندہ کرے گا نہ ہی آخرت میں رُسوا ہونے د یگا۔

 

Salman Ali
About the Author: Salman Ali Read More Articles by Salman Ali: 32 Articles with 370622 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.