تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف
کا استقبال کرنے والے گدھے ہیں۔کوئی باضمیر مسلم لیگی ایک مجرم کا استقبال
نہیں کرے گا۔نوازشریف کا استقبال کرنے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق
نہیں۔نوازشریف کو ہیرو نہیں بننے دوں گا۔باپ بیٹی کو کامیاب نہیں ہونے دو ں
گا۔جعلی منڈیلا آرہا ہے۔جو اسے لینے جانے جارہے ہیں۔کیا انسان کہلانے کے
قابل ہیں؟ احسن اقبال سے ڈفر کوئی انسان نہیں ہے۔نواز شریف کوئی ورلڈ کپ
جیتاہے۔یا کشمیر فتح کرکے آرہے ہوجو تمہارا استقبال کریں۔مسلم لیگ ن سمیت
دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت کے مسلم لیگ ن کے
کارکنان اور لیڈران کو گدھے کہنے پر سخت تنقید کی گئی ہے۔سنجیدہ حلقوں کی
طرف سے تو مناسب الفاظ میں مذمت کی گئی مگر فیس بک پر بعض لیگی من چلوں نے
بڑے کھلے اندا ز میں جی کی بھڑاس نکالی ہے۔ایک حضرت نے لکھا کہ پچھلے وقتوں
مین بادشاہ کو جس شخص کی بات ناگوار گزرتی تھی۔وہ اس کے پیچھے کتے چھوڑ دیا
کرتاتھا۔آج نوازشریف کو بادشاہ کی طرف سے چھوڑے جانے والے اسی قسم کے کتوں
کا سامنا ہے۔ایک اور صاحب یوں رقم طراز ہوئے کہ لاہور میں پولیس نے پی ٹی
آئی والوں سے ن لیگ والوں کے گھروں کی نشان دہی کروارہی ہے۔پرانے پاکستان
میں پولیس یہ کام کتوں سے لیتی تھی۔
سابق وزیر اعطم نوازشریف بار بار تاریخ کی درستگی کا سبب بن رہے ہیں۔وہ
تاریخ جو اپنے دامن میں ایسے بیسیوں اوراق سمیٹے ہوئے ہے۔جو حقائق کی بجائے
ملمع کاریوں سے عبارت ہیں۔ کچھ لوگ چور اور ٹھگ گزرے ہیں۔ کچھ ہنرمندوں کی
ہنر مندی نے تاریخ میں انہیں افلاطون اور پھنے خان بنا کر پیش کیا۔کچھ ایسے
لوگ بھی گزرے جو دیانتدار اور ہیرو ٹائپ تھے۔تاریخ لکھنے والے کچھ بے
ایمانوں نے انہیں بدنام زمانہ بنا کربیان کیا۔اچھوں کو بدنام اور بروں کو
ہیروکے الفاظ میں درج کیے جانے کی اس غلط سلط تاریخ کو عام آدمی کے لی
سمجھنا دشوار ہوچکا۔نوازشریف چاہتے نہ چاہتے بار بار تاریخ کی اس طرح کی
غلطیوں کی درستگی کا سبب بن رہے ہیں۔ تاریخ میں انہیں مفرور۔بھگوڑا اور بے
وفا لکھوایا گیا تھا۔ 10ستمبر 2007کو انہوں نے تاریخ کی اس غلط کتابت کی
درستگی اس دبنگ انداز میں کی کہ انہیں بھگوڑا اور بے وفا کہنے والے گنگ
ہوکر رہ گئے۔انہیں بھگوڑے کی بجائے زبردستی نکال دیا جانے والا مان لیا
گیا۔انہیں بے وفا کی بجائے موقع پرستوں کی ڈسا مان لیا گیا۔تاریخ میں کچھ
غلط باب آج کل بھی شامل کروائے جارہے ہیں۔نوازشریف کو چور اور بد دیانت
لکھوایا جارہا تھا۔انہیں ایک بار پھر بزدل اور بھگوڑا قرار دیا جارہا
تھا۔نوازشریف کی 13جولائی کی لاہور آمد نے ایک بار پھر بے ایمان تاریخ
دانوں کو شرمند ہ کیا۔کرپٹ اور بد دیانت لوگ پاکستان سے باہر جانے کے لیے
جوڑ تو ڑ کرواتے ہیں۔نوازشریف پاکستان سے باہر تھا۔واپس آگیا۔بزدل لوگ جیل
اور قید سے گھبر اکر بارگین پر اتر آتے ہیں۔ترلے منتیں کرنے لگتے
ہیں۔نوازشریف نے جیل اور قید کو قبول کرکے بزدلی اور نارمرد ی کا طعنہ
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر معتبر کردیا۔
وہ آج بھی اپنے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ستر سالہ پتلی تماشے کے خلاف وہ
بغاوت پر اتر آئے اس پتلی تماشے کے تحت ہی انہیں غلط اور بے ڈھنگے انداز سے
سزا دلوائی گئی ہے۔وہ وسائل پر قابض اس مافیے کو للکار رہے ہیں۔جسے اس قسم
کی لکار کی عادت نہیں۔یہ مانیا اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔اس کے گماشتے باری
باری میدان میں اتررہے ہیں مات کھارہے ہیں۔عمران خاں نے مسلم لیگ ن کے
کارکنوں کو گدھے کہا۔جوابا لیگی بھی تحریک انصاف والوں کو کتوں سے تشبیہ دے
رہی ہے۔ایسے کتے جو نوازشریف پربادشاہ نے چھوڑ رکھے ہیں۔جو سونگھ سونگھ
کرنوازشریف کے حمایتیوں کے گھروں کی نشان دہی کررہے ہیں۔انہیں گرفتار
کروارہے ہیں۔دونوں طرف سے جزباتیت کا مظاہر کیا جارہاہے۔نہ لیگیوں کو گدھا
کہا جانا درست ہے۔نہ عمران خان کے حماتیوں کو کتے سے تشبیہ دینا مناسب
ہے۔عمران خاں کو اپنے انداز بیان پربھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ان کا تکیہ
کلام نوازشریف کو نہیں چھوڑوں گا۔بڑا غیر مقبول ہوچکا۔وہ اس حقیقت کو تسلیم
کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے۔ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو ہیرو نہیں
بننے دوں گا۔آپ کہتے ہیں کہ باپ بیٹی کو کامیاب نہیں ہونے دونگا۔بھائی آپ
کون ہوتے ہیں کسی کو ہیرو بننے سے روکنے والے۔آپ کو نوازشریف کے وطن واپس
آنے پر تکلیف ہورہی ہے۔آپ کو تو خوشی ہونی چاہیے تھی۔آپ کاحریف جیل جانے کے
لیے خود چل کرآرہا ہے۔ آپ اتنے فرسٹریٹ کیوں ہورہے ہیں؟اگر قوم ان باپ بیٹی
کو کامیاب کروانا چاہے گی تو آپ کیوں کر روک پائیں گے؟کیا آپ کی اس بے چینی
کو نوازشریف کے بیانیے کی تصدیق سمجھ لیا جائے؟ وہ جس پتلی تماشے کے خلاف
وو ٹ کو عزت دو کا نعرہ لگارہے ہیں۔آپ اپنی اس مخصوص طرز سیاست کے سبب اس
پتلی تماشے کا حصہ ہونے کا کیوں تاثر دے رہے ہیں؟ |