آج اسلام آباد میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر
کو ان کی حفاظت پر مامور ایلیٹ فورس کے باوردی جوان ملک ممتاز قادری نے
اپنے سرکاری اسلحہ سے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قاتل
نے واردات کے بعد اطمینان سے اپنا اسلحہ زمین پر رکھا اور اپنی گرفتاری پیش
کردی، اس کے ابتدائی بیان کے مطابق چونکہ گورنر پنجاب نے ناموس رسالت کے
قانون کو ”کالا قانون“ کہا تھا اور وہ توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے اس
لئے اس نے یہ فعل سرانجام دیا ہے، اس کے بقول اس نے گورنر پنجاب کے قتل کا
منصوبہ تین دن قبل بنایا تھا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کی خبر جنگل
کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کے جیالوں
نے جلوس نکالے اور پنجاب حکومت خصوصاً رانا ثناءاللہ، میاں نواز شریف اور
میاں شہباز شریف کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور رانا ثناءاللہ کو پھانسی
دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے راہنماﺅں نے
اس قتل کی مذمت کی ہے، میاں شہباز شریف بھی چونکہ اسلام آباد میں تھے اس
لئے انہوں نے فوراً اس ہسپتال کا رخ کیا جہاں سلمان تاثیر کی لاش کو رکھا
گیا تھا، وہاں چونکہ پیپلز پارٹی کے کارکن پہلے سے موجود تھے چنانچہ انہوں
نے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں نواز لیگ، رانا ثناءاللہ اور وزیر اعلیٰ کے
خلاف شدید نعرے بازی کی اور قاتل قاتل کے نعرے بھی لگائے۔ گورنر کے قتل کے
بعد پیپلز پارٹی نے دو ہفتوں، وفاقی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا
جبکہ پنجاب حکومت اور لاہور ہائی کورٹ نے ایک دن کی تعطیل کا اعلان کیا ہے۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے کچھ عرصہ قبل شیخوپورہ جیل میں جاکر عدالت سے
سزا یافتہ توہین رسالت ﷺ کی مرتکب عیسائی خاتون آسیہ سے نہ صرف ملاقات کی
تھی بلکہ اس کو بیگناہ قرار دیتے ہوئے اس کی رحم کی اپیل پر دستخط کرائے
تھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ صدر سے ذاتی طور پر درخواست کریں گے
کہ وہ آسیہ کواپنے ذاتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاف کردیں اور ان کے
بقول انہیں یقین تھا کہ صدر آسیہ کو معاف کردیں گے حالانکہ ابھی آسیہ کی
سزائے موت کو ہائی کورٹ نے کنفرم بھی کرنا تھا۔ سابق گورنر کے اس بیان سے
توہین رسالت قانون کے مخالفین کو بھی زبانیں مل گئی تھیں اور کچھ اقلیتی
راہنماﺅں سمیت امریکی سرپرستی رکھنے والی این جی اوز نے بھی شور مچانا شروع
کردیا تھا کہ یہ قانون امتیازی ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ
یورپ اور امریکہ میں بھی حضرت عیسیٰ کی توہین روکنے کے لئے قوانین موجود
ہیں، دوسری بات یہ کہ اب تک اس قانون کے حوالے سے جن لوگوں پر الزامات
لگائے گئے ہیں ان کی کثیر تعداد مسلمانوں کی ہے نہ کہ اقلیتوں کی۔ کسی بھی
قانون کے غلط استعمال کا خدشہ ہمیشہ ہوتا ہے، اس کے غلط استعمال کو روکنے
کے لئے انسدادی قوانین بنائے جاسکتے ہیں اور بنائے جانے چاہئیں۔ گورنر
پنجاب کا قتل ایک قابل مذمت واقعہ ہے لیکن اس کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں، ان
پر یقیناً غور و فکر کی ضرورت ہے۔
پاکستان، اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا ، مسلمانوں نے اس مملکت کے حصول
کے لئے بے شمار، بے مثال اور لازوال قربانیاں دی تھیں۔ کسی بھی مسلمان کا
ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اس کے لئے
سب سے محترم، سب سے مکرم اور سب زیادہ حیثیت نہ رکھتی ہو، ایک ایسے ملک میں
جس کا سرکاری مذہب اسلام ہو وہاں اگر حضور اکرم ﷺ کی اہانت کو روکنے کے لئے
کوئی قانون موجود نہ ہو تو یہ ضرور اچنبھے کی بات ہوگی، یہ بات ہرگز قابل
مذمت اور حیران کن نہیں کہ توہین رسالت ﷺ روکنے کے لئے قانون موجود ہو۔ اس
بات پر سارے مسلمان متفق ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے
اگر مزید قانون سازی کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کجا کہ اس قانون کو
ہی ”کالا قانون“ کہہ کر کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے، ان کے جذبات
کی گرمی و حدت کو مزید بڑھایا جائے کہ اگر وفاقی حکومت کا ایک نمائندہ،
صوبے کا آئینی سربراہ ایسی باتیں کہے تو یقیناً مسلمانوں کو دکھ بھی ہوگا
اور کوئی بھی مسلمان جذباتی ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس وقت سلمان تاثیر کے قاتل
ملک ممتاز قادری کو غازی علم دین سے تشبیہہ دینا شروع ہوگئے ہیں، ایک بات
طے شدہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو بھٹو خاندان کے باہر بھی ایک بڑا شہید مل گیا
ہے، وہ اس سے کس طرح کے اور کتنے فوائد اٹھاتے ہیں، مستقبل میں اس قتل کے
کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سلمان تاثیر کے قتل سے ایک بات واضح ہوگئی کہ موجودہ حکومت اور مستقبل میں
آنے والی حکومتوں کو اس طرح کے بیانات اور اقدامات سے پرہیز کرنا ہوگا جس
سے مسلمانوں کے جذبات بحیثیت مجموعی مجروح ہوتے ہوں خصوصاً وہ معاملات جن
کا براہ راست تعلق حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے ہو، جس پر تمام مکاتب فکر
متفق بھی ہوں، اللہ تعالیٰ کے بعد حضور اکرم ﷺ کی ذات ہی ایک ایسی ذات با
برکات ہے جن کا احترام مسلمانوں کے خون میں شامل ہے اور وہ جن کی توہین وہ
کسی بھی پہلو سے ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ ایمان کی سلامتی کا مسئلہ ہے،
کسی مسلمان کے دل سے حضور اکرم ﷺ کی محبت نہیں نکالی جاسکتی چاہے وہ ایمان
کے انتہائی کم تر درجہ پر فائز ہو تو ایسے معاملات کو کیوں سیاسی بنایا
جاتا ہے اور کیوں اس طرح کے بیانات دئے جاتے ہیں، سیاسی راہنماﺅں اور
پنڈتوں کو اس پر ضرور غور کرنا ہوگا۔
اگر سلمان تاثیر کے قتل کے مابعد اثرات پر نظر ڈالیں تو ان کا قتل عین اس
وقت ہوا جب نواز لیگ کے قائد میاں نواز شریف حکومت کو ڈیڈ لائن دینے میں
مصروف تھے۔ اسلام آباد کے پمز ہسپتال، گورنر ہاﺅس لاہور اور ملک کے طول و
عرض میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جس انداز میں مسلم لیگ نواز کی قیادت کو
حدف تنقید بنایا ہے اس نے پورے ملک اور خصوصاً پنجاب میں آنے والے وقت کا
تھوڑا سا اندازہ کرا دیا ہے۔ سلمان تاثیر کی نواز شریف فیملی سے 1988 والی
دشمنی اور 2008 کے بعد پنجاب کی صورتحال کو ایک بار پھر بڑے شد و مد سے
مسلم لیگ نواز کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سلمان تاثیر
کا قتل آنے والے دنوں میں سیاسی ہیجان اور بے چینی میں مزید اضافے کا سبب
بنے گا۔
سابق گورنر سلمان تاثیر اب اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کی عدالت میں جاچکے
ہیں، ان کے اعمال کے مطابق اللہ کی عدالت یقیناً ان کے ساتھ عدل کرے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداد پاکستان
کی حفاظت فرمائے اور ایسے حاکم عطا کردے جو حضور اکرم ﷺ کی سیرت کو مشعل
راہ بنا کر حکومت کریں.... آمین۔ |