گورنر پنجاب کا قتل:حکومت ذمہ دار ہے

اور سلمان تاثیر کو قتل کردیا گیا۔ مرنے کے بعد ہر انسان اپنے فطری انجام کو پہنچ جاتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کے انتقال کے بعد اس کے کردار کے حوالے سے کوئی بات نہ کی جائے، اسی لئے ہم نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد ان کے بارے میں اس فورم پر کوئی بات نہیں کی حالانکہ نظریاتی طور پر وہ ہمارے مخالف تھے۔ لیکن گورنر سلمان تاثیر کا معاملہ کچھ مختلف ہے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی متنازع شخصیت اور ان کے قتل کے بعد میڈیا پر ان کی قتل کو ایک غلط رخ دینے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس پر ہم سمجھتے ہیں کہ چپ نہیں رہنا چاہیے۔۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر اپنے متنازع بیانات کے باعث اکثر میڈیا میں رہتے تھے۔ ان کی ایک وجہ شہرت تو ن لیگ کے ساتھ ان کی مخاصمت تھی لیکن نومبر 2010میں گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آسیہ مسیح کی حمایت میں اس کی جانب سے از خود معافی کی درخواست لکھنا اور پھر توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے اور اس میں ترامیم یا اس قانون کو ختم کرنے کی کوششوں پر وہ اس وقت انتہائی متنازع شخصیت بن گئے تھے اور تمام ہی مکاتب فکر کے علما نے ان کو گورنری سے الگ کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کیا تھا اور اسی حوالے سے تمام ہی مکاتب فکر کے علما و مذہبی تنظیموں نے گورنر کی برطرفی اور اس قانون کو ختم یا ترمیم کرنے کے خلاف ’’ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کا آغاز کیا تھا اور 31دسمبر 2010کو ہونے والے ملگ گیر ہڑتال اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ گورنر پنجاب کے قتل کی ذمہ داری مکمل طور پر حکومت ،دین بیزار این جی اوز اور خود سلمان تاثیر صاحب پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ جب آپ کسی کی بات نہ سنیں، قانون پر عمل نہ کریں اور لوگوں کے مذہبی و دینی جذبات مجروح کریں تو پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ دیکھیں گورنر پنجاب کی جانب سے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے اور ملعونہ آسیہ مسیح کی حمایت کے باعث لوگوں کے دلی جذبات مجروح ہوئے تھے ،اس پر عوام اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے گورنر کو اپنی پوزیشن واضح کرنے اور حکومت سے ان کو گورنری سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا جو کہ غلط نہیں تھا کیوں کہ اول تو بطور گورنر ان کی از خود ایک قیدی کے پاس جاکر ملنا اور اس کی جانب سے ازخود معافی کی درخواست لکھنا بجائے خود ایک غلط کام تھا اور یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ گورنر پنجاب کے بقول وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس معاملہ کو دیکھ رہے تھے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک چلنے والے آسیہ کے مقدمے کے دوران کسی حکومتی عہدیدار نے اس معاملہ کو نہیں دیکھا تا وقتیکہ کہ اس کو سزائے موت سنائی گئی اور سزائے موت سنائے جانے کے بعد ویٹی کن سٹی سے پوپ بینی ڈکٹ نے اس سزا کے خلاف آواز اٹھائی اور حکومت سے آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہی حکومت نے عیسائی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ کی رہائی کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے انسانی ہمدردی نہیں بلکہ پوپ اور دیگر غیر مسلم قوتوں کے کہنے پر یہ سارا کام کیا جارہا تھا۔

دوسری بات کہ جب ملک میں ایک قانون موجود ہے کہ اگر کسی کو سیشن یا مقامی عدالت سے کوئی سزا سنائی جاتی ہے تو اس ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں رجوع کرسکتا ہے اور وہاں اپنی بات کرسکتا ہے تو اس قانون کے ہوتے ہوئے تمام دین بیزار این جی اوز، گورنر پنجاب و دیگر اس حق کو استعمال کرنے کے بجائے صرف اور صرف اس قانون کی منسوخی یا ترمیم کی ہی کوشش کیوں کر رہے تھے؟

تیسری بات کہ اگر آسیہ مسیح کے خلاف اس قانون کو انتقامی طور پر استعمال کیا گیا تو اصولی طور پر اس کے خلاف مقدمے کرنے والے مولوی سالم،غلط ایف آئی آر کاٹنے والے پولیس اہلکاروں،اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف جوابی مقدمہ دائر کیا جاتا اور ان کے خلاف میڈیا پر بات کی جاتی لیکن قارئین خود یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر وہ دین بیزار فرد جس کو دین کی معمولی باتوں کا بھی علم نہیں وہ لٹھ لیکر اس قانون کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔ اور ہم پھر یہ بات کہتے ہیں اگر قانون کا غلط استعمال ہوا ہے تو اس غلط استعمال کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ناکہ اس قانون کو ہی ختم کیا جائے۔

میڈیا پر ان کے قتل کے بعد ایک بار پھر دین بیزار طبقے نے اس کو کیش کرنے کی کوشش کی اور اچانک ہی تمام لوگوں کو اسلام کی تعلیمات یاد آگئیں اور ان کو پتہ چلا کہ اسلام تو امن و آشتی کا مذہب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی یاد آیا کہ ہر معاملے پر صبر و تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا جانا چایئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اچھی بات نہیں ہے۔ بے شک یہ ساری ہی باتیں درست ہیں الغرض ایک ایسا تاثر دیا جارہا ہے گویا کہ کل گورنر پنجاب نے کوئی بیان دیا تھا اور اس کے ردعمل میں آج ان کو قتل کردیا گیا۔ ہم اسی حوالے سے اپنی بات کریں گے۔

دیکھیں یہ درست ہے کہ اسلام امن و آشتی کا درس دیتا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہئے اور بجا کہ مسلمانوں کو صبر و برداشت کا ثبوت دینا چاہئے۔ سب سے پہلی بات کہ قانون کا احترام کرنا چاہیے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے۔ اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے وہ میڈیا اور حکومتی ارکان جو اس واقعے پر بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں کسی نے ان سے ایک سوال نہیں کیا کہ ملزم ملک ممتاز قادری کے والد اور چار بھائیوں کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا؟ جب ایک ملزم کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا اور اس نے قبول کیا کہ قتل اسی نے کیا ہے اور اس کی وجہ بھی بتا دی تو پھر جائے واردات سے دیگر چار لوگوں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ اسلام کی تعلیمات کا درس دینے والوں کو یہ بات یاد نہیں آئی کہ ’’باپ کے جرم کا بدلہ بیٹے سے نہیں لیا جائے اور بیٹے کے جرم باپ کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اسلام کی تعلیمات کیمطابق تو جو مجرم ہے اسی کو سزا دی جانی چاہئے تو پھر اس کے بھائیوں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ اپنے مطلب کے لئے اسلام کا نام لینے والوں کی نیت میں فتور کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خود قانون شکنی اور اسلام کی تعلیمات کے برخلاف عمل کر رہے ہیں۔

صبر و برداشت اور بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کرنے والے ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ ایسا نہیں ہے کہ گورنر پنجاب نے قتل سے ایک دن قبل کوئی بیان دیا تھا بلکہ انہوںنے20نومبر کو ملعونہ آسیہ سے جیل میں ملاقات کی تھی اور متنازعہ بیان دیا تھا۔ اس بات کو بھی تقریباً ڈیڑھ مہینہ گزر گیا،اس دوران عوامی احتجاج،گورنر کے خلاف پٹیشن،صدر سے ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ ،یہ سب باتیں کی گئیں لیکن حکومت نے نہ اس معاملہ پر کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی خود گورنر پنجاب نے اپنے بیان پر کسی ندامت یا شرمندگی کا اظہار کیا۔ اصولی اور قانونی طور پر جو فرد شعائر اسلام کے خلاف بات کرے اس کو اعلیٰ عہدے نہیں دیے جاسکتے ،﴿وزیر داخلہ صاحب کو سورہ اخلاص نہیں آتی، جمشید دستی عدالت میں پہلا کلمہ نہیں سنا سکے،اور گورنر صاحب کی شراب نوشی و دیگر قبیح عادات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں﴾ جب آپ عوام کی بات نہ سنیں،خود قانون پر عمل نہیں کریں اور قانون کا مذاق اڑائیں اور طاقت اور اقتدار کے زور پر عوام کے مذہبی و دلی جذبات مجروح کریں اور ان کو ان بند گلی میں لاکھڑا کریں تو پھر ایسے واقعات ہی ہوتے ہیں۔ غازی علم دین کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ جب گستاخ کو جان بوجھ کر ڈھیل دی گئی اور قانون پر عمل نہیں کیا گیا تو اس کو جہنم واصل کیا گیا تھا اور گورنر پنجاب کے معاملے پر بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں ان کے قتل کی اصل ذمہ دار حکومت اور مغربی ایجنڈے پر چلنے والی دین بیزار این جی اوز ہیں۔ اور یہ بھی ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ توہین رسالت کے قانون پر عمل درآمد اور سختی سے ہی ایسے واقعات کو روکا جاسکتا لیکن اگر اس قانون کو ختم کیا گیا یا ایسے مجرمین کا تحفظ کیا گیا تو پھر عوام قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520055 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More