پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ…… بے تحاشا مہنگائی، شہری سراپا احتجاج

نگران حکومت نے چند ہی روز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا۔ حکومتی اعلامیہ کے مطابق اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 7.54 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 14روپے، مٹی کا تیل 3.36روپے اور لائٹ ڈیزل آئل 5.92روپے فی لٹر کے حساب سے مہنگا کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جس پرحکومت نے اوگرا کی تجویز کو منظور کر تے ہوئے قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے 54 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 99.50 روپے ہوگئی۔ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 14 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 119 روپے 31 پیسے ہوگئی، جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت 3 روپے 36 پیسے اضافے کے بعد 87.7 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے 92 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا، جس کے بعد اس کی فی لیٹر قیمت 80 روپے 91 پیسے ہوگئی۔ نگران حکومت کی مختصر حکومت میں پیٹرولیم مصنوعات میں یہ دوسری بار اضافہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ مہینوں سے جاری ، جون کے مہینے میں ہونے والے مزید اضافے اور ٹیکسوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دس دن میں یہ قیمتیں کم کرنے کا فارمولا طے کرنے کی ہدایت کر رکھی اور اس پر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کر رکھا ہے۔ ابھی یہ معاملات چل ہی رہے ہیں، لیکن قیمتوں میں کمی کا فارمولا سامنے لانا تو دور کی بات، یکم جولائی کو ہونے والے غیر متوقع اور ہوشربا اضافے نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سیلز ٹیکس کی شرح میں 8 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔قیمتوں میں اضافے کے جواز کے لیے بتایا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان پچھلے کئی ماہ سے موجود ہے، چنانچہ موجودہ حالات میں پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا، حالانکہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہی نہیں کم بھی ہوتی ہیں، مگر جب قیمتیں کم ہوتی ہیں، تو عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ایسے عوام دشمن فیصلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ مگر انہیں ایسے فیصلے کرنے کا اختیار کیونکر مل سکتا ہے۔ اس وقت نگران حکومت کو اپنی توجہ بروقت منصفانہ انتخابات تک محدود رکھنی چاہیے۔ قیمتوں میں اضافہ یا دیگر اہم فیصلے آنے والی حکومت پر چھوڑ دینے چاہئیں۔

پٹرولیم قیمتوں کے بڑھنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب تیزی سے اشیائے ضرورت سمیت تمام شعبوں میں مہنگائی کا ریلا آئے گا اور عوام کے مالی مسائل میں غیر معمولی اضافہ شروع ہو جائے گا۔ یہ اضافہ مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا باعث بنے گا۔ غریب اور متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہو گا۔ ملکی صنعت کے لیے بھی اس کے اثرات نہایت نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ پیداوار کے اخراجات بڑھ جائیں گے اور لوگوں کی قوت خرید متاثر ہو گی۔ابھی سے تاجروں اور دکانداروں نے بعض اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سبزیوں، پھلوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، جس سے عام آدمی پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقات کی حالت زار بہت بری ہے۔ نگران حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد شہریوں میں اس بات کی تشویش بڑھ گئی ہے کہ وہ مہنگائی کا سامنا کیسے کریں گے؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتے ہی بازاروں اور مارکیٹوں میں پرچون سطح پر قیمتیں معمول سے زیادہ رہتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر مسافروں کی جیب پر یہ اضافہ بجلی بن کر کرے گا۔دکانداروں نے نگران حکومت کے فیصلے کو جواز بناتے ہوئے پرچون سطح پر قیمتوں میں از خود اضافہ کر دیا، جبکہ ٹرانسپورٹرز نے کرایوں بڑھانے اور فلور ملوں نے بھی قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ دے دیا۔

ایسی صورتحال میں شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور نگران حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ واپس لیا جائے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی نگراں حکومت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق اپوزیشن لیڈر رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ،امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق،تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ گزشتہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی سزا عوام کو نہ دی جائے۔ نگران حکومت کو گزشتہ حکومت کی ڈگر پر نہیں چلنا چاہیے اور عوام سے جینے کا حق نہ چھینے۔سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نگران حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑی ہے اور ایک ماہ میں تیل کی قیمتوں میں دو بار اضافہ کر کے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔انہوں نے صدر پاکستان اور نگران وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے۔ سیاسی جماعتوں نے نگراں حکومت کی طرف سے تیل کی مصنوعات کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کے خلاف سینیٹ میں شدید احتجاج کا فیصلہ کر لیا۔ اس معاملے پر نگران حکومت کو 9جولائی سے شروع ہونے والے سینٹ اجلاس میں ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ عوامی ریلیف کا مشترکہ مطالبہ کیا جائے گا۔ ان جماعتوں میں سرفہرست پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومیت پرست جماعتیں شامل ہیں۔

مہنگائی کے حوالے سے ہماری روایت یہ ہے کہ حالات کے تحت جس قدر مہنگائی ہونی چاہیے، اس سے کہیں زیادہ مہنگائی کردی جاتی ہے، کیونکہ کاروباری مراکز میں حیلوں بہانوں سے ازخود بھی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ اخراجات بڑھتے ہیں تو کوئی شے مہنگا ہونے سے نہیں بچائی جا سکتی۔ تاجر برادری اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے مہنگائی کا تناسب بڑھا دیتی ہے۔ نگران حکومت سے ایک تو قیمتوں میں اضافے کو روکنے کی ہرممکن کوشش کرے، دوسری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ گراں فروشی کرنے کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ملکی معیشت کو ویسے بھی کئی بحران درپیش ہیں، جب تک نگرانوں کا دور ہے۔ مہنگائی پر اپنی بساط کے مطابق قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ نگرا ن حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نگرا ن حکومت سابق حکومت کے نقش قدم پر چل کر عوام پر پیٹرول بم گرا رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں سے متعلق سپریم کورٹ نے پہلے ہی از خود نوٹس لے رکھا ہے۔ عدالتی فیصلہ آنے تک قیمتوں میں بلاجواز اضافہ عوامی حقوق کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کالعدم قرار دے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.