5دسمبر2010کوسورج آب و تاب سے تھا،11بجے کے قریب داﺅدخان
اپنے چھوٹے بھائی عرفان کے ساتھ گلشن اقبال کے اصفہانی روڈ پر محوسفر تھے۔
پیراڈائز چوک پر جب پہنچے تو نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی جس کے
نتیجے میںعرفان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہدید ہوگیا جبکہ داﺅدخان آغا
خان ہسپتال کے آپریشن تھیٹر پہنچائے گئے جہاں ان کا طویل آپریشن ہوا۔ گردن
اور جسم کے مختلف حصوں میںمتعدد گولیوں کے باعث ان کی حالت ناقابل بیان
تھی۔ عرفان جامعہ کراچی میں زیر تعلیم تھا، اس کی نماز جنازہ ادائیگی کے
بعد ختم نبوت چوک کے قریب قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ بڑے بھائی داﺅد خان
چھ ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے باوجود مکمل طور پر صحتیاب نہ
ہوسکے۔
رﺅف خان نے اک طویل سانس لی اور آسمان کی جانب دیکھتے رہے، ان کی کندھے پر
ہاتھ رکھ کرتسلی دیتے ہوئے جب ان سے کہا گیا کہ اب بھائی کیسے ہیں تو کہنے
لگے کہ داﺅد خان بھائی آج بہت بہتر ہیں، اللہ کا شکر ہے۔ اس قاتلانہ حملے
کے بعد سے اب تلک وہ بستر پر ہیں۔ ان کی مکمل صحتیابی کو لانے کیلئے ہم نے
اپنے طور پر ہر ممکن کاوشیں کیں۔ بہت علاج معالجے ہوئے جو کہ تاحال جاری
ہیں لیکن ابھی تک وہ بستر پر ہیں۔ اک محتاط اندازے کے مطابق ان کے علاج
معالجے پر اب تلک ساڑھے تین کڑور روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ ان کے ساتھ پیش آنے
والے واقعے کے بعد سندھ و وفاقی حکومت نے ہر ممکن علاج معالجے کی بات کی
تھی لیکن وہ صرف باتیں اور وعدے ہی تھے۔ والد صاحب حاجی عبدالقیوم کی ہمت و
حوصلے کی وجہ سے ہمیں بہت حوصلہ رہا اس کے ساتھ داﺅد بھائی نے بھی بہت ہمت
سے کام لیا ان کے عزم ہی کی وجہ سے ہم آج تلک مایوس نہیں ہوئے۔ ہر طرح سے
ان کی خدمت کرتے ہیں اور انہیںکسی بھی کمی کو ذرا بھی محسوس نہیں ہونے
دیتے۔ سب گھر والوں سمیت دوست اخبا ب نے بھی ساتھ دیا اور ابھی تک دے رہے
ہیں۔
قدرے توقف کے بعد رﺅف خان نے کہا کہ بھائی عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و
سندھ کونسل کے رکن تھے اس کے ساتھ یوسی 29کے نگراں بھی تھے۔ اے این پی
کیلئے ان کی خدمات ہمارے لئے ہی نہیں پوری جماعت کیلئے قابل فخر ہیں۔ مرکزی
سربارہ اسفندیارولی خان سے لیکر شاہی سید تک اور خیبر پختونخواہ سے
بلوچستان تک اے این پی کے تما م کارکنوں نے داﺅد بھائی کی خدمات کو سراہاہے
اور ان کی صحتیابی کیلئے دعاگو ہیں۔
واقعے کا مقدمہ درج ہوا ؟ اور اس کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ ان پر یہ
قاتلانہ حملہ کیوں کر ہوا تھا ؟ رﺅف کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج ہوا قانونی
کاروائیاں ہوئیں تاہم قاتلوں کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔ داﺅدخان بھائی
تنظیمی طورپر ذمہ دار تو تھے ہی اس کے ساتھ وہ باچاخان کے فلسفہ خدائی
خدمتگار کے بھی عملی تصویر تھے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی امداد کیا کرتے تھے
اس کے ساتھ ہی انسانیت کی خدمت کیلئے ہمہ تن گوش رہا کرتے تھے۔
رﺅف خان یہ بتائیں کہ آپ کے بھائی برسوں سے بستر علالت پر ہیں، اس دوران
2013میں انتخابات ہوئے اور اس کے بعد اب ایک بار پھر انتخابات ہونے جارہے
ہیں۔ آپ پی ایس 100میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ آپ انتخابات میں حصہ کیوں لے
رہیں ہیں اوراس سے قبل ہونے والے انتخابات میں حصہ کیوں نہیں لیا؟
رﺅف خان نے مسکرائے اور پرعزم انداز میں کہنے لگے کہ وہ داﺅد خان بھائی کے
خوابوں کو پورا کرنے کیلئے انتخابات میں حصہ لے رہیں۔ اس سے قبل ہونے والے
انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بڑی وجہ تحریک طالبان کی جانب سے ملنے والی
دھمکیاں تھیں۔ حالیہ اور گذشتہ انتخابات میں بہت واضح فرق ہے۔ اب امن وامان
قائم ہوچکاہے پاکستانی کی افواج و قانون نافذکرنے والے اداروں نے عوامی
حمایت کے باعث دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جہد کی جس کی وجہ سے آج شہر قائد
سمیت پورے ملک امن وامان کی فضا قائم ہے۔ اسفندیارولی خان و دیگر مرکزی
قائدین، شاہی سید صاحب اور دیگر سندھ کے قائدین و کارکنان کے بے حد اصرار
پر میں نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔
انتخابات کا دن قریب آتا جارہا ہے، آپ سمیت دیگر جماعتوں کے امیدواران بھی
اس نشست پر آپ کے مدمقابل ہیں، آپ کی انتخابی تیاریاں اور عوامی تاثر کیسا
ہے؟ داﺅد خان بھائی کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے عوام کی جانب بہت
اچھا تاثر مل رہاہے۔ بکرگوٹھ، سکندرگوٹھ علی ٹاﺅن سمیت حلقے کے دیگر تمام
مقامات پر عوام کی جانب سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ متعددبار ایسا ہوا ہے
کہ ہم کارنر میٹنگ کررہے وہتے ہیںاور وہ کارنر میٹنگ اک جلسے کی صورت
اختیار کر جاتی ہیں۔ رہائشی علاقوں میں فلیٹس ہیں جن کی یونین ازخود بلاتی
ہیں اور ہر طرح سے حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ ہر مقام اور ہر جگہ پر بھائی
داﺅد خان اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے وہ لمحات میرے لئے بہت مشکل
ہوتے ہیں لیکن وہی لمحات میرے اس احساس کو مزید پختہ کردیتے ہیں کہ مجھے
بھائی کے خوابوں کو پوراکرنا ہے۔ بلاتفریق خدمت کرنی ہے۔ دکھی انسانیت کی
مدد کرنی ہے۔ عوام کے مسائل کو ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کیلئے تن من
دھن سے کام کرنا ہے۔ اپنے انہی الفاظ کو اداکرتے ہوئے رﺅف خان نے ایک بار
پھر آسمان کی جانب دیکھا اور اجازت لیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جانب چل
دئیے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 242میں عوامی نیشنل پارٹی کے نوراللہ اچکزئی
کھڑے ہیں ان کے ساتھ صوبائی حلقہ 99 میں ظفر محسود جبکہ پی ایس 100میں یہی
رﺅف خان ان کے ساتھ ہیں۔ رﺅف خان جو مخص اپنے بڑے بھائی کے سیاسی سفر کو،
ان کے خوابوں کو پوراکرنے کیلئے میدان میں آئے ہیں۔ انہیں اک جانب اپنے
شہید بھائی کی پل پل یاد ستاتی ہے تو دوسری جانب داﺅد خان کی صورت میں
عزائم بھی سامنے ہیں۔ اپنے شہید بھائی سمیت اے این پی اور ملک کیلئے دیگر
شہداءکی تصویریںبھی انہیں بہت کچھ کرنے کا احساس دلاتی ہیں۔ رﺅف خان کو
جہاں بھائی کے عزائم پورے کرنے ہیں وہیں پر ملک و ملت کیلئے بھی بہت کچھ
کرناہے۔ |