سال کے دوران ایک دفعہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں مضمون
نویسی اور تقریری مقابلہ جات پروگرام گرما گرم منعقد کروائے جاتے ہیں سال
2015میں یہ تقریری اور مضمون نویسی مقابلہ جات کا مقصد یا بیانیہ ایک ہی
تھا یعنی ساری فضا دہشت گردی، انتہا پسندی اور متشدد رویوں کے ارد گرد ہے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اس چیز کو ختم کرنے کے
مختلف تقاریب منعقد کیں اور کروائی جا رہی ہیں۔ تاکہ قوم میں شعور بیدار ہو
اور اس طرح کی سرگرمیوں سے محفوظ رہا جا سکے اور انہیں منطقی انجام تک
پہنچایا جا سکے۔ اس میں سوچنے اور قابل غور امر یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت
کیوں پیش آگئی، یہ رویے، انتہاپسندی، دہشت گردی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی،
اس کے پیچھے تاریخ کے کتنے سال بیت گئے، انتہا پسندی ، اور متشد د رویے آخر
کیوں پیدا ہوئے۔ محکمہ تعلیم میں پیش کیے جانے والے مضامین یا تقریروں میں
اپنے اپنے انداز میں اس کے اسباب اور سد باب پیش کئے گئے کافی مضامین میں
سانحہ پشاور 16 دسمبر 2014ء خاص اہمیت کا حامل رہا ۔ حکومت کے حق میں قصیدے
پڑھے گئے اور پاک فوج کی قربانیوں کو سراہا گیا ، ایک اچھی بات اور ایک
مثبت سوچ سامنے آئی۔ سوچنے کا پہلو یہ ہے کیا ہمیں ان اسباب کا علم ہو گیا
جس کی بدولت یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔اگر ہم انتہاپسندی،اور متشدد رویوں کے
اسباب جان چکے ہیں تو ان کا ازالہ کرنے کے لیے کیا اقدام اٹھائے گئے ہیں۔
میری ناقص رائے کے مطابق دہشت گردی اور انتہاپسندی کے پیچھے متشدد رویوں کا
عمل دخل ہے۔ میں چند ایک مثالیں دینے کی کوشش کرتا ہوں نشاندہی کرنا اور ای
میل کے ـذریعے گائیڈ کرناآپ کی ذمہ داری ہے۔الیکشن سے پہلے تمام سیاسی
پارٹیوں نے قوم کے ساتھ نعروں کی شکل میں الیکشن یا حکومت بنانے کے لیے جو
جو ڈائیلاگ بازی کی اور پھر وہ سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی طرح حکومت بنانے
میں کامیاب ہو گئیں اور اپنے وہ تمام قول و فعل، قوم سے کئے گئے وعدے یکسر
بھو ل گئیں، اس کے بدلے میں قوم کے جذبات کیا ہونے چاہیں؟ متشدد یا پر خلوص،
کیا کسی بیرسٹر، چیف جسٹس اور پاکستان کے کسی سپہ سالار نے ان کو عدالت میں
لا کر کھڑا کیا، آخر کیوں؟ 18کروڑ عوام کو نعروں کے ذریعے بیوقوف بنایا اور
اب وہ مزے سے 21کروڑ عوام کے روپے پیسے سے عیش و عشرت کی زندگی گزا ر رہے
ہیں آخر ان کو پوچھنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا؟متشدد رویے تو ہم خود پیدا
کر رہے ہیں تو پھر اس کی روک تھام ؟ عجیب سی کیفیت طاری کر دی ۔ پھر اگر ہم
سمجھتے ہیں کہ متشدد رویے اور انتہائی پسندی ہی دہشت گردی کے بڑے عوامل ہیں
تو ، ان رویوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کونسا لائحہ عمل طے پایا۔ میری نظر اس
کے لیے چند لائحہ عمل اشد ضروری ہیں مثلا۔بلا امتیاز رنگ و نسل، بلا ذات
پات ، امیری غریبی اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے انصاف ملنا ۔ تقسیم دولت کا نظام
اسلام کی روح کے مطابق رائج کرنا۔ پھانسی کا پھندا جس کے لیے بنا اسی کے
گلے میں ڈالنا۔تھانے اور کچہری کے کلچر اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔
اداروں کو سیاست سے پاک کرنا ۔ مجبور کی مجبوری سے کھیلنے والے کو سر عام
سزا دینا۔ قبضہ مافیا کو عبرت ناک سزا دینا۔ قانون کے جال کو ایسا تیار کیا
جائے کہ مجرم ہی قانون کی زد میں آئے نہ کہ مجرم کو دیکھ قانون کی کڑیاں
چھوٹی یا بڑی ہونا شروع ہو جائیں۔ میں نے انجینئرنگ میں پڑھا تھا کہ کچھ
فیول ٹینک ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان کو گولی ہٹ کر جائے یا کوئی سوراخ
ہو جائے تو وہ خود بخود ہی یہ سوراخ بند ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی بناوٹ میں
میٹریل ہی ایسا استعمال کیاگیاہے اورفیول Leakage رک جاتی ہے۔ ہمارے قانون
کے جال کی کڑیاں بھی کچھ ایسی ہیں جو امیر زادے ، اہل ثروت اور اثرو رسوخ
والے ، بدمعاش ، لُچے لفنگے کو دیکھ کر خودبخود کھل جاتی ہیں اور وہ مجرم
قانون سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مگر جو بے بس اور مجبور ہے اس
کوقانون کی کڑیاں جکڑ لیتی ہیں اور پھر جو FIRمیں درج ہو گیا اسی پر اس کی
زندگی اور موت کا فیصلہ ہو گا۔ FIRسے یاد آیا چنددن پہلے COMSAT یونیورسٹی
کے پروفیسر نے ATMمیں لگی لائن کو کراس کرنے والے سے لائن میں ہی رہنے کی
Requestکی ، تو اس پر ایک ساہیوال کے مقامی باڈی بلڈر بدمعاش نے نہ صرف اس
پروفیسر کو اچھا شہری اور پڑھا لکھا ہونے کا سبق سکھایا بلکہ اپنے چند
ساتھیوں کوبلا کر اس پروفیسر کو اچھا شہری ہونے پر خوب زودوکوب کیا، مگر
افسوس پر کوئی علاقائی ، حکومتی رد عمل سامنے نہ آیا ، ردعمل آنا بھی نہیں
چاہیے تھا کیونکہ ہم متشد د کو پسند کرتے ہیں۔اس لیے پروفیسر صاحب کو
FIRکٹوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔ اب میرا حکومت وقت سے
سوال ہے کہ آخر ان متشدد رویوں کو کون پروان چڑھاتا ہے ؟ اس کا جواب بھی
میں خود ہی دیتا ہوں صرف اور صرف سیاسی پناہ گاہیں اور سیاسی اثرو رسوخ اور
لا قانونیت کیونکہ دین اسلام تو شفقت، روادی، محبت، ہمدردی ، بھائی چارے،
اور ادب کا سبق سکھاتا ہے ۔ تو پھر یہ متشدد رویے کیوں بڑھ رہے ہیں۔ اس کی
ذمہ داری حکومت وقت پر آتی ہے۔یہ تھی ایک ناقص رائے ۔ میں آخر میں سپہ
سالار وقت سے پرزور اپیل کرتاہوں ۔ کہ اگر ملک رہے گا تو آپ جیسے سپہ سالار
بنیں گے، ملک اچھی سمت اختیار کر جائے گا تو فوج کو خوامخواہ حکومتی
معاملات میں انٹر ہونے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ ملک میں انصاف کا بول بالا
ہوگا تو ہر شہری سکون کی نیند سوئے گا۔ تقسیم دولت کا نظام بہتر ہو گا تو
لانچوں کے ذریعے یا خوبصورت ماڈل کو آلہ کار بنا کر رقم بیرون ملک نہیں
بھیجنا پڑے گی۔کروڑوں ڈالرز اس انداز میں باہر بھیجنے سے صاف عیاں ہے کہ
ایسے لوگ ملک کو اپنا ملک نہیں سمجھتے بلکہ سونے چڑیا سمجھتے ہوئے۔ سوٹا
اکٹھا کر رہے ہیں اگر حقیقت میں احتساب ہو جائے تو کرپشن ، ہیرا پھیرا، اور
بے بہا برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔قائد اعظم ؒ کو کیوں کہنا پڑا کہ ’’میری
جیب میں سکے کھوٹے ہیں‘‘ اب یہ سب کچھ اچھے، نڈر اور محبت وطن سیاسی لیڈر،
جناب چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس کے علاوہ نا ممکن ہے۔سر اب بھی وقت ہے
کہ Crush the evils with Iron Hand اﷲ ہم سب کو سچے ، کھرے اور باضمیر
پاکستانی اور مسلمان بنا دے آمین۔
|