سلیکشن کے معیار میں تضاد کیوں؟

کوئی ملک، ریاست، ادارہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر وہ اپنے ادار چلانے کے لیے مختلف لوگوں کو مختلف فرائض کے لیے بھرتی کرتا ہے تاکہ ادارے کا نظام بہتر انداز میں فرائض ادا کر سکے۔ آج ایک ادارے میں سلیکشن کا طریقہ تحریر کر رہاہوں اس کو پڑھنے کے بعد سیاسی لیڈروں کے انتخاب طریقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے موازنہ کرنا کہ ایک ادارہ چلانے کے لیے ایک امیدوار کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی لیڈر جنہوں نے ایک ادارہ، وازرت اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے اسے منتخب کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔ جو لوگ ان کو ووٹ ڈال کر انتخاب کرتے ہیں کیا وہ انہیں اس چیز کا ادراک ہے کہ ہم اپنا ، اپنے بچے اورملک کا مستقبل کس سیاسی امیدوار کے ہاتھ دے رہے ہیں۔ اگر ایک ادارہ اپنے لیے ایک سپاہی کا انتخاب کرنے کے لیے اسے بے شمار مراحل سے گزارتا ہے تو پھر ایک ملکی کا مستقبل سنبھالنے والااور چلانے کیوں نہیں ان مراحل سے گزارا جاتا۔۔۔۔۔؟؟؟

فوج میں جب بھی بھرتیاں ہوتی ہیں ملک بھر میں آرمی بھرتی سینٹرزپر ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آتے ہیں۔ پہلے مرحلے پر ان کے کاغذات کی فوٹو کاپیاں جمع کی جاتی ہے اور ان کو فزیکل ٹیسٹ کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔

اس دورانیہ میں کاغذات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔پھر فزیکل ٹیسٹ میں پہلے قد اور چھاتی کی پیمائش کی جاتی ہے، اس میں جس کی چھاتی یا قد دونوں میں سے ایک کم ہو، وہ بھرتی سے باہر ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد پُش اپ(ڈنڈ) اور چن اپ لگائے جاتے ہیں جس میں اگر کوئی رہ جائے تو باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ایک 6فٹ کے کھڈے کے اوپر سے جمپ لگانا ہوتی ہے اس میں بھی جو کامیاب نہ ہوا وہ باہر ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد تحریری ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں مختلف موضوعات اسلام، پاکستان، جرنل نالج اور سائنس کے متعلق مختلف اقسام کے سوالات ہوتے ہیں۔جو اس میں رہ جائے وہ بھی باہر ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد میڈیکل ہوتا ہے اب جو میڈیکل میں پاس ہوجائے وہ اگلے مرحلے میں چلاجاتا ہے جو رہ جائے وہ باہر ہوجاتا ہے اور میڈیکلی اَن فٹ ہونے کا مطلب اب اس کے لیے اگلی بار ٹرائی کے چانسز بہت کم ہیں۔

اگلے مرحلے میں ''دوڑ''ہوتی ہے جو پاس کرلے وہ پاس ہوگیا جو رہ جائے وہ آؤٹ ہوگیا۔اب پاس ہونے والوں کو ایک تاریخ دی جاتی ہے کہ آکر لسٹ میں اپنا نام چیک کرلیں۔

اس تاریخ کو لسٹیں آویزاں کی جاتی ہیں جن کا نام آجاتا ہے ان کو لیٹر دے دیا جاتا ہے اور جن کا نہیں ہوپاتا ان کی لسٹ بھی لگائی جاتی ہے یعنی کہ سب کچھ پاس کرنے کے بعد بھی پاس ہونے والوں میں سے 30فیصد لوگ رہ جاتے ہیں کیوں کہ دیگر لوگ ان سے زیادہ قابل ہوتے ہیں۔

اب اس میں سے جن کا نام دونوں لسٹوں یعنی ''الیجی بل''اور ''ناٹ الیجی بل''میں نہیں ہوتا ان کا نام ویٹنگ لسٹ میں ہوتا ہے اس کے بعد دوسری اور پھر تیسری لسٹ لگتی ہے جس میں ان کا نام آہی جاتا ہے۔

نام آنے اور لیٹر ملنے کے بعد بھی ایک فائنل میڈیکل کیا جاتا ہے اس میں بھی جو رہ جائے وہ باہر ہوجاتا ہے یعنی کہ یہاں سے جو پاس ہوا وہ ٹریننگ کے لئے اپنے ٹریننگ سینٹر جائے گا جو رہ گیا وہ گھر جائے گا۔

یہ صرف ایک سپاہی کی بھرتی کا طریقہ کار ہے۔جس میں تین ماہ تک لگ جاتے ہیں۔ٹریننگ کے دوران بھی جانچ پڑتال جاری رہتی ہے۔متعلقہ تھانے سے لیکر اٹھنے بیٹھنے تک ہی معلومات ایک فائل کی صورت میں ایجنسیوں کے پاس ہوتی ہیں۔

اب خود ذرا سوچیں کہ ایک سپاہی اس قدر سخت مقابلے کے بعد بھرتی ہوتا ہے تو جو لوگ آئی ایس ایس بی پاس کر کے فوج میں کمیشن حاصل کرتے ہیں ان کا طریقہ کار کتنا سخت ہوگا، آئی ایس ایس بھی سی ایس ایس سے بڑا امتحان ہے اور انتہائی سخت مراحل سے گزر کر ہی لوگ کمیشن حاصل کر پاتے ہیں۔

اب یہ بیسٹ آف بیسٹ لوگ مختلف چھلنیوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں انہیں میں سے ٹاپ کے لوگ ایجنسیو ں میں سلیکٹ کئے جاتے ہیں کوئی بھی اپنی خواہش سے ایجنسی میں نہیں جاسکتا۔اس کی قابلیت ہی اس کے انتخاب کا واحد ذریعہ ہوتی ہے۔

یہ لوگ ایک قسم کھاتے ہیں کہ دنیا اوپر سے نیچے ہوجائے پاکستان پر آنچ نہیں آنے دینی سرکٹتا ہے کٹ جائے جان جاتی ہے چلی جائے لیکن ملک کی سلامتی یقینی بنانی ہے۔ڈسپلن اتنا سخت ہوتا ہے کہ جو اس قسم سے روگردانی کی کوشش کرے اسے فوج خود عبرت کا نشان بنادیتی ہے۔

یہاں آرمی چیف اتنا پاور فل ہے کہ اپنی جگہ اپنے بیٹے کو جنرل نہیں بنا سکتا جنرل کیا اسے ڈائریکٹ میجر بھی نہیں لگاسکتا۔چیف کا بیٹا بھی انہیں مراحل سے گزر کر منتخب ہوگا جس سے عام عوام کے بیٹے گزرتے ہیں اسٹیپ بائی اسٹیپ پراسس فالو کیا جائے گا۔یہ نہیں کہ ابا پارٹی چیئرمین ہے تو بیٹا بھی پارٹی چیئر مین بن جائے۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک سپاہی پہلے دن لے لیکر 18سال کی سروس میں اتنی حب الوطنی کا درس سنتا ہے کہ اس کی رگ رگ میں پاکستان بس جاتا ہے۔انسان تو دور کی بات ہے آپ کسی پر چند کا احسان کر دیں وہ بھی آپکا وفادار بن جائے گا۔اور گن گائے گا۔

پھر فوجی تو فوجی ہے انسان ہے انسانی فطرت ہے کہ اسے دن رات جس چیز کے متعلق زیادہ بتایا اور سمجھایا جائے وہ اس کے دل و دماغ پر چھاجاتی ہے۔ وہ اس ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں ملک سے محبت ہی ملتی ہے۔ ہر بات اور ملاقات میں پاکستان ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عام سپاہی اور کمیشنڈ آفیسر جب فوج میں وقت گزارتے ہیں تو ان کے دل و دماغ میں حب الوطنی پوری طرح سے بھر چکی ہوتی ہے۔

فوج میں غداری کی سزاموت ہے، اس لئے آپ کو غدار نہیں ملیں گے۔باقی آپ کو ایجنسیوں کے متعلق زیادہ بتانے کے بجائے اتنا بتانا چاہوں گا کہ آئی ایس آئی آپ کی آخری دفائی لائن ہے یہ آخری حصارہے اس کا چیف بہت سوچ سمجھ کر اور پرکھ کر لگایا جاتا ہے۔

آئی ایس آئی مجبوری میں ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہوگی ۔لیکن ملکی سلامتی پر آئی ایس آئی کمپرومائز نہیں کرسکتی۔یہ آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ملک کی سلامتی نکال دیں تو آئی ایس آئی ختم ہوجاتی ہے۔

اس تحریر کو ذہن میں رکھ ذرا سوچیں اور موازنہ کریں کہ اگر سیاسی وزیر، مشیر ، لیڈر اور وزیر اعظم کا بھی ایسا ہی کوئی ٹیسٹ رکھا جائے اور انہی مراحل سے گزر نا پڑے اور ملک سے محبت والی ٹریننگ سے گزار کر بارڈ ر پر ڈیوٹی دی جائے تاکہ اس سیاسی لیڈر کے اندر بھی ملک و قوم کے محافظوں کے خلاف بکنے سے پہلے ملک سے محبت جا گ جائے۔ اگر پھر بھی وہ بکتا ہے تو اس کی وجہ تلاش کی جائے ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد اپنی رائے ضرور دیں گے اور مثبت سوچ کے ساتھ سوچیں گے اور اپنے آنے والی نسل کو گمراہ ہونے سے بچائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے سیاسی لیڈرز کا انتخاب کرنے میں عقل و شعور دے آمین۔

 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 154901 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More