گستاخ رسول کی سزا

گستاخ رسول کا حکم
از قلم:محمد عبدالسلام امجدی برکاتی تاراپٹی (نیپال)
ان الذین یؤذون اللّٰہ و رسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاٰخرۃ و اعد لھم عذابًا مھینًا،، (الاحزاب ۵۷)
ترجمہ :بیشک جو لوگ ایذا پہنچاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ،اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے رسوا کن عذاب ۔،،
شان نزول: حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اس بناء پر حضور اقدس ﷺ پر طعن کرتے ہوئے آپ ﷺ کو اذیت (تکلیف) پہنچائی کہ آپ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حی ابن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ نکاح کیا۔
تفسیر :اللہ کے مقدس رسول حضور احمد مجتبیٰ ﷺ کی اطاعت و اتباع اور آپ کی محبت و عقیدت بلکہ آپ کے اہل بیت اور صحابہ کرام کی محبت و الفت اور ان کی دلجوئی ہر امت مسلمہ پر واجب و ضروری ہے ان میں سے کسی ایک کی ادنی توہین بھی لعنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور دولت ایمان سے محروم کر دیتی ہے۔ اللہ سے محبت کا دعوی ٰ کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ سے بھی محبت کریں اور جن سے حضور نے محبت کا اظہار فر مایا مثلااہل بیت نبوت اور صحابہ کرام ان سب کی محبت و عظمت کا چراغ اپنے سینے میں جلا ئے ۔ بغیر محبت رسول کریم اور بے ااطاعت نبوی اللہ تعالیٰ سے محبت و اطاعت کا دعویٰ کھوکھلے ایمان والوں کا طرہ ہے سچے عاشقان مصطفی اور پختہ ایمان والوں کا یہ طریقہ نہیں ہے۔خود اللہ رب العزت نے قرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ و رسول کی اطاعت و اتباع مسلمانوں پر لازم و واجب ہے اور میرے محبوب کی اطاعت و اتباع کے بغیر کوئی میری بارگاہ کا محبوب نہیں ہو سکتا ۔ قرآن میں یہاں تک کہ آیا ہے کہ انسان مومن اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اللہ و رسول سے اتنی محبت کری جتنی وہ باپ، بیٹے ، مال و دولت ، بھائی ، رشتہ دار اور مکان وغیرہا سے بھی نہ کرتا ہو ۔ اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی مومن اس وقت تک ہوہی نہیں سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں(مسلم)اور محبت تقاضہ یہ ہے کہ ہر اس جملہ اور اس قول و فعل اور حرکت سے بچا جائے جس سے سرکا ر کی شان میں توہین سمجھا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ادنی توہین بھی اپنے نبی پاک کی شان پسند نہیں اور جو اس کا بد قسمتی سے مرتکب ہو جائے تو ہمیشہ کے لئے اس کے گلے میں لعنت کا طوق پڑجاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمتوں ، اس کی نعمتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ابلیس نے حضرت آدم کا سجدہ نہیں کیا جو درحقیقت نور محمدی کی تعظیم تھا اس کی پاداش میں اسے جنت اور اس کی دائمی نعمتوں سے محروم کردیا گیا ، راندئہ بارگاہ کردیا گیااور آسمان کی بلندی سے زمین کی پستی پر پھینک دیا گیا اور آج پوری دنیا اس پر لعنت کر رہی ہے ۔ یہ صرف اس کے ایک سجدہ نہ کرنے دوسرے لفظوں میں ایک نبی کی توہین و گستاخی کی وجہ سے اسے سزا ملی۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہو ا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اذیت و تکلیف پہنچانا ، آپ پر طعنہ کرنا ، آپ کے علم پاک کا انکار کرنا، آپ کے اہل خانہ کو ستانا یہ سب توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے ، اس سے اللہ کے رسول ﷺ کی دل آزاری ہوتی ، سرکار کی شان میں یہ گستاخی ہے ۔ جس طرح بھی آپ کو اذیت ہو زبان کے ذریعہ ہو یا قلم کے ذریعہ یہ بھی توہین اور گستاخی ہے ۔ تفسیر ابن کثیراور طبری میں ہے کہ: بہر صورت یہ آیت عام ہے اور ہر اس شخص کو شامل ہے جو کسی طرح سے بھی آپ ﷺ کی دلآزاری کا سبب بنتا ہے ۔ جس نے آپ کو اذیت دی اس نے اللہ تعا لیٰ کو ایذا پہنچائی جیسا کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ۔( ابن کثیر ، تفسیر طبری ج۲۲ ص۴۵)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کے گستاخوں کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی ، لعنت اور جہنم کی دہکتی آگ تیار کیا ہے ، گستاخان رسول کے حق میں ارشاد فرمایا :
(۱)جو نافرمانی کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تجاوز کرے اللہ کی (مقررہ ) حدوں سے داخل کرے گا اسے اللہ آگ میں۔(النساء ۱۴)
(۲) اور جو نا فرمانی کرتا ہے اللہ کی اور اس کے رسول کی تو وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔(الاحزاب ۳۶)
(۳) پس جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے ۔(الجن ۲۳)
(۴) ترجمہ :جس روز وہ منہ کے بل آگ میں پھینکے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ تعالیٰ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی ۔اور عرض کریں گے اے ہمارے رب ! ہم نے پیروی کی اپنے سرداروںکی اور اپنے بڑے لوگوں کی ،پس انہوں نے ہم کو بہکا دیا سیدھی راہ سے ۔ اے ہمارے رب !ان کو دوگنا عذاب دے اور لعنت بھیج ان پر بہت بڑی لعنت۔(الاحزاب ۴۶۔۴۸)
(۵)ترجمہ: تو ڈرنا چاہئے ان لوگوں کو جو خلاف کرتے ہیں رسول کے حکم کا ، اس بات سے کہ ان پر پڑے کوئی بلا یا ان درد نا ک عذاب پہنچے۔(نور ۶۳)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے میرے ایک بال کو ایذا (تکلیف) پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے یقینا اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔(جامع صغیر ج۲ ص ۱۵۸)
ان آیات میں اللہ تعا لیٰ نے ان لو گو ں کو عذاب کی دھمکی دی ہے جوکسی بھی طرح سے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے سے بچائے اور آپ کی بارگاہ کاباادب بنائے آمین۔
جو اللہ کے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اگر اسلامی حکومت ہو تو اسے قتل کرنا واجب ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہ کی جائے یعنی اس کی توبہ پر کچھ بھی بھروسہ نہ کیا جائے، تاکہ کوئی پھر اس طرح کی حرکت نہ کر پائے۔اور مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ایسے گستاخ سے دور رہیں، اس سے ہر طرح کا معاملہ ختم کر لے، اگر بیٹی یا بہن دی ہو تو واپس لے لیں اور کسی سنی صحیح العقیدہ سے ان کا نکاح کردیں اس سے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کیا ایمان کو گوارہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اللہ کے رسول ﷺ کی گستاخی کرے اور اس سے کوئی رشتہ بنائے ؟ نہیں ہر گز نہیں یہ ایک مومن کی شان و پہچان نہیںہے۔
(۱)حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گالیاں دیں ۔ میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول ! اجازت ہو تو میں اس کی گردن اڑادوں انہوں نے فرمایا :رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ شرف کسی کا حاصل نہیں کہ اس کے گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ (خصائص کبری جلد اول)
(۲)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی شخص اگر کسی کو گالی دے تو اسے قتل نہیں قتل کیا جائے گا لیکن اگر کوئی حضور نبی کریم ﷺ کو گالی دے تو اس جرم کی پاداش میں اسے قتل کیا جائے گا۔(خصائص کبریٰ جلد اول)
(۳)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ عہد نبوی میں ایک نابینا شخص کی ام ولد اکثر اوقات رسول الہ ﷺ کی عیب جوئی کیا کرتی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی ایک دن اس کے مالک نے اسے قتل کر دیا ۔جب یہ بات حضور ﷺ کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کا خون رائیگاں ہے۔(ابوداؤد کتاب الحدود)
(۴)حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودن حضور نبی کریم ﷺ کو گالی دیتی تھی اور طرح طرح کی خرافات بکتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ مر گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون باطل قرار دے د یا۔(ابو داؤد ص ۲۴۴، مشکوٰۃ ص ۳۰۸)
(۵) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ج:۲،ص:۱۹۰ میں ہے کہ:
ترجمہ: محمد ابن سحنون نے فرمایا علماے دین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا ان کی عظمت گھٹانے والا کافر ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی وعید جاری ہے اور اس کا حکم امت مسلمہ کے نزدیک قتل ہے اور جواس کے کافر اور مستحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر۔
(۶) درمختارج:۳ص:۳۱۷میںہے:
ترجمہ: نبیوں میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرنے سے جو کافرہوا اسے بطریق حدقتل کیاجائے گا۔ اور اس کی توبہ ہرگز مطلقاً قبول نہ کی جائے گی اور اگر اللہ کی شان میں گستاخی کی تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اول بندہ کاحق جو توبہ سے زائل نہیں ہوسکتا اور جو اس کے معذب ہونے اور کافر ہونے میں شک کرے خود کافر۔
(۷) ردالمحتار علی درالمختارشرح تنویرالابصار ج:۳،ص:۳۱۷میں ہے :
ترجمہ: ابن سحنون نے فرمایامسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے اور اس کاحکم قتل ہے اور جواس کے عذاب وکفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
(۸) اور الاشباہ والنظائر ج:۱،ص:۲۸۹، کتاب السیربا الردۃ میںہے:
ترجمہ: نشہ کی بے ہوشی میں اگرکسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بے ہوشی کافرنہ کہیں گے نہ سزائے کفردیں گے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی وہ کفرہے کہ نشہ کی بے ہوشی سے بھی صادر ہوا تواسے معافی نہ دیں گے اور اسے قتل کیاجائے گا جیساکہ بزازیہ میں ہے۔ہرطرح کا کافر جوتوبہ کرے تو اس کی توبہ دنیا وآخرت میں مقبول ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بقیہ انبیائے کرام علیہم السلام وشیخین رضی اللہ عنہما یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی کرنے سے کافر ہونے والے لوگوں کی توبہ مقبول نہیں۔ہر مسلمان(معاذاللہ) جومرتد ہوجائے تو اگرتوبہ نہ کرے تو سوائے عورت کے قتل کیاجائے گا۔مرتدکاحکم وجوب قتل ہے اگر رجوع نہ کرے اورعملوں کامطلقاً اکارت ہوجانا اور مرتد کی بی بی فوراً اس کے نکاح سے نکل جاتی ہے اور جب وہ اسی ارتداد پر مرجائے (والعیاذ باللہ تعالیٰ)تو اسے مسلمان کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں نہ کسی ملت والے مثلاً یہودی یانصرانی کے گورستان میں اور وہ کتے کی طرح کسی گڈھے میں پھینک دیاجائے اور مرتد(وہابی، دیوبندی، رافضی، قادیانی) اصلی کافر(مثلا ہندو، سکھ وغیرہ) کے کفرسے بدترہے۔ ملخصا
(۹) مجمع الانہرشرح ملتقی الابحرص:۶۸۵میںہے:
ترجمہ: جو مسلمان حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یاکسی نبی کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ نشہ کی حالت میں تواسے قتل کیاجائے گا اور اس کی توبہ اسے قتل سے ہرگز بچانہیں سکتی جیسے زندیق (دھریئے بے دین) کی توبہ نہ سنی جائے گی۔ اس لیے کہ حدواجب ہے تو توبہ سے ساقط نہ ہوگی اور بزار یہ میں ہے جو شخص اس گستاخی کرنے والے کے کفر میں شک لائے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا۔
(۱۰) فتح القدیر جلد ۵ ص:۳۳۴میںہے:
ترجمہ: جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ ہوتو وہ مرتد ہے توگستاخی کرنے والا بدرجۂ اولیٰ کافرہے۔پھر اسے حداً قتل کیاجائے گا۔ہمارے نزدیک اور قتل کے ساقط کرنے میں اس توبے کااثرنہ ہوگا۔ اور علماء نے فرمایا یہ کوفیوں کامذہب ہے اور حضرت امام مالک کااور یہی منقول ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ۔ اور کوئی فرق نہیں ہے اس کے درمیان کہ وہ خود سے توبہ کرتا ہوا آئے یا اس کی اس پر گواہی دے۔ بخلاف اس کے علاوہ کفری باتوں کے کیوں کہ انکار اس میں توبہ ہے تو اس کے ساتھ گواہی کااثر نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ علماء نے فرمایا کہ اسے قتل کیا جائے گااور اگرنشہ کی حالت میں کلمۂ گستاخی کاجب بھی معاف نہ کیاجائے گا۔ اسے سزائے موت دی جائے گی۔
(۱۱) شفاء شریف ج:۲،ص:۲۴۷ میں ہے:
ترجمہ: ہم ہراس شخص کو کافر کہتے ہیں جو کافر کوکافر نہ کہے یا اس کی تکفیر میں توقف کرے یاشک رکھے۔
(۱۲) امام قاضی عیاض شفاء شریف ج:۲ص:۱۹۱پر فرماتے ہیں:
ترجمہ: امام احمدابن ابی سلیمان تلمیذورفیق امام سحنون رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جو کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) سیاہ فام تھے اسے قتل کردیاجائے۔ انہیں سے ایک کمینہ شخص کی نسبت کسی نے پوچھاکہ اس سے کہاگیا تھاکہ رسول اللہ کے حق کی قسم تو اس نے کہا اللہ رسول اللہ کے ساتھ ایسا ایساکرے اور ایک قبیح کلام ذکر کیاپھر اس مردک سے کہاگیا اے دشمن خدا تورسول اللہ کے بارے میں کیابکتا ہے تواس سے بھی سخت ترلفظ بکاپھر بولا میں نے تورسول اللہ سے بچھومراد لیاتھا۔ امام ابن ابی سلیمان نے فتویٰ پوچھنے والے سے فرمایاتم اس پر گواہ ہوجائو اور اسے سزائے موت دلانے اور اس پر جوثواب ملے گا اس میںمیں تمہارا شریک ہوں۔ یعنی تم حاکم شرع کے حضور اس پر شہادت دو اور میں بھی سعی کروں گا کہ ہم تم دونوں بحکم حاکم اسے سزائے موت دلانے کاثواب عظیم پائیں۔ امام حبیب ابن ربیع نے فرمایا یہ اس لیے کہ کھلے لفظ میں تاویل کادعویٰ مقبول نہیں۔
چودہویں صدی میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ رسول کریم کی شان میں گستاخیاں کیں ہیں اور سرکار کی شان گھٹانے کی کوشش کی اور اپنی کتا بوں میں ان غلاظتوں کو شائع کیا ان میں اشرف علی تھانوی ، رشید احمد گنگوہی ، قاسم نانوتوی اور اسمعیل دہلوی سرفہرست ہیں اللہ تعالیٰ ان کی قبروں میں اپنے غضب و قہر کا عذاب نازل فرمائے اور ان کے ہمنواؤں کو جو زندہ ہیں ناکام و نامراد کرے۔ ان کبرائے دیابنہ و ہابیہ کی کفری عبارتیں اور شان رسالت میں گستاخانہ جملے ان کی کتابیں تقویۃ الایمان ، فتاوی رشیدیہ ، صراط مستقیم ، بہشتی زیور ، حفظ الایمان ، براہین قاطعہ اور تحذیر الناس جیسی گندی کتابوں میںملاحظہ کیجئے اور للہ انصاف کیجئے کہ جس جماعت کے عقیدے ایسے گندے ہوں کیا وہ اب بھی اپنے دعوی مسلمانی میں سچے ہیں ؟ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، شادی بیاہ کا معاملہ اور ان کے پیچھے نمازپڑھنی کیا جائز ہے؟ نہیں ! ہر گز نہیں ! اس لئے مسلمانو! آپ ایسے گندے عقائد والوں کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کر لیجئے تاکہ آپ خود بھی دوزخ کی آگ سے بچیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچا سکیں۔ کیونکہ باطل عقائد والے مثلا وہابی ، دیوبندی ، مرزائی اور رافضی وغیرہا سب منافق و مرتد ہیں اور منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار‘‘ بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ فتاویٰ رضویہ جلد ششم ،ص:۹۰پر فرماتے ہیں:
طوائف مذکورین وہابیہ،نیچریہ وقادیانیہ وغیر مقلدین ودیوبندیہ وچکڑالویہ خذلھم اللہ تعالیٰ اجمعین اس آیت کریمہ کے مصد اق بالیقین اور قطعاً یقینا کفارومرتدین ہیں۔ان میں ایک آدھ اگرچہ کافر فقہی تھا اور صدہا کفراس پرلازم تھے جیسے ۲والادھلوی مگراب اتباع واذناب میں اصلاً کوئی ایسانہیںجو قطعاًیقینا اجماعاً کافرکلامی نہ ہوایسا کہ من شک فی کفرہ فقدکفر۔ جوان کے اقوال ملعونہ پرمطلع ہوکر ان کے کفرمیں شک کرے وہ بھی کافر،ان سے میل جول قطعی حرام،ان سے سلام وکلام حرام ،انہیں پاس بٹھا ناحرام، ان کے پاس بیٹھنا حرام، بیمارپڑیں توان کی عیادت حرام ،مرجائیںتوانہیں مسلمانوں کاسا غسل و کفن دیناحرام،ان کاجنازہ اٹھاناحرام،ان پرنمازپڑھناحرام، انہیں مقابر مسلمین میں دفن کرناحرام۔ان کی قبرپر جاناحرام۔انہیں ایصال ثواب کرناحرام ۔ مثل نمازجنازہ کفر۔
 

Abdussalam Amjadi Barkati
About the Author: Abdussalam Amjadi Barkati Read More Articles by Abdussalam Amjadi Barkati: 9 Articles with 9610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.