حمد کی روشنی میں رب کی عظمت

”تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔“ (سورۃ الفاتحہ: 1)
جب انسان ان مبارک الفاظ کو اپنی زبان پر لاتا ہے، تو وہ دراصل اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے، اس کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ ہی کی ربوبیت پر قائم ہے۔ ہر چیز اس کی حمد کی محتاج ہے، کیونکہ وہی وہ ذات ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا، اسے حسین بنایا، اسے ترتیب دی اور اس کے ہر گوشے کو اپنے نظامِ ربوبیت سے سنوارا۔ یہ کلمات انسانی زبان پر حمد و ثنا کا ایسا نغمہ ہیں جو ہر مخلوق کے دل کی گہرائیوں میں بسے ہوئے اس احساس کو بیدار کرتے ہیں کہ سب کچھ، ہر ذرے، ہر لمحے، ہر سانس کا اصل مالک صرف اللہ ہی ہے۔ اسی کی تعریف کرنا، اسی کے سامنے سر جھکانا، اسی کی اطاعت کرنا دراصل وہ بنیادی حقیقت ہے جس پر کائنات کا پورا نظام قائم ہے۔
جب انسان کہتا ہے: ”تعریف اللہ ہی کے لیے ہے“، تو وہ دراصل اپنی عاجزی اور کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے ایک اقرار نامہ پیش کر رہا ہوتا ہے کہ اس کی حیات کی ہر سانس، ہر کام، ہر خوشی، اور ہر غم دراصل اللہ ہی کی عنایت کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراف میں ایک عجیب سی روحانی لذت بھی ہے، جیسے کوئی بھٹکا ہوا مسافر راہ پا لے۔ یہ تعریف کوئی وقتی یا رسمی سی بات نہیں، بلکہ یہ کائنات کی ہر شے کا لازمی حصہ ہے۔ ہر درخت کا سرسبز پتہ، ہر پرندے کی چہچہاہٹ، ہر دریا کا بہاؤ، ہر سورج کی روشنی دراصل اسی تعریف کی تسبیح ہے جو اس رب کی شان کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کی تعریف اور اس کی ربوبیت الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے میں گندھی ہوئی ہیں۔ وہی خالق ہے، وہی رب ہے، وہی پالنہار ہے۔ اس کی ربوبیت کا مطلب صرف تخلیق تک محدود نہیں، بلکہ اس کی پرورش، نگہداشت، اور ہر ضرورت کی کفالت تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر انسان، ہر جانور، ہر پودا، ہر ستارہ اسی کی ربوبیت کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے۔
یہ حقیقت انسان کے ذہن اور دل کو اس زعم اور غرور سے آزاد کر دیتی ہے جس میں وہ اکثر مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان اکثر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کے کارنامے، اس کی کامیابیاں، اس کی ذہانت، یا اس کی محنت ہی اس کی زندگی کو معنی دیتی ہے۔ مگر جب وہ کہتا ہے: ”تعریف اللہ ہی کے لیے ہے“، تو وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس کے تمام کارنامے، اس کی تمام کوششیں دراصل اللہ کی عطا کردہ توفیق اور اس کی ربوبیت ہی کا نتیجہ ہیں۔ جب بندہ اس حقیقت پر غور کرتا ہے کہ اللہ ہی تمام کائنات کا رب ہے تو اس کے دل میں ایک سکون اتر آتا ہے۔ دنیا کے ہر غم، ہر مسئلے، ہر اندیشے میں جب وہ اللہ کی ربوبیت کو یاد کرتا ہے تو اس کی امید پھر سے جاگ اٹھتی ہے۔ کیونکہ اگر اللہ رب ہے، تو وہی نگہبان ہے، وہی سب سنبھالنے والا ہے۔ انسان کی عاجزانہ تعریف میں یہی مفہوم چھپا ہے کہ میں خود کچھ نہیں کر سکتا، سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ آیت انسان کو حوصلہ اور تسلی دیتی ہے۔ جب انسان یہ محسوس کرے کہ وہ ایک ایسے رب کی ربوبیت کے سائے میں جی رہا ہے جس کی تعریف ہر طرف سے ہو رہی ہے، تو اس کے دل سے خوف نکل جاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس کی فکریں، اس کے غم، اس کے دکھ سب اسی رب کے سامنے پیش کرنے ہیں جو اس کا رب ہے، اور جو کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ اس طرح انسان کا دل مضبوط ہو جاتا ہے، اور وہ حالات کی سختیوں کو بھی اللہ کے کرم سے سہنے کے قابل بن جاتا ہے۔
یہ تعریف انسان کو ایک اخلاقی سبق بھی دیتی ہے: اللہ تعالیٰ کی ربوبیت صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ پوری کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔ ہر مخلوق، خواہ وہ نظر آنے والی ہو یا پوشیدہ، چاہے وہ انسان ہو یا جن، حیوان ہو یا نباتات، پہاڑ ہو یا دریا، سب اس کی ربوبیت کے سامنے سراپا محتاج ہیں۔ کائنات کے نظام میں جو ترتیب، توازن اور جمال نظر آتا ہے، وہ اسی رب کی کاریگری کا شاہکار ہے۔ جب بندے نے تسلیم کر لیا ہے کہ اللہ ہی رب ہے تو اس کے بندوں کے ساتھ شفقت، محبت اور احسان لازم ہے۔ بندہ جب اپنے رب کی ربوبیت کو مانتا ہے تو وہ دوسروں پر ظلم نہیں کر سکتا، ان کے حقوق نہیں چھین سکتا، ان کو کمتر نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ کی ربوبیت کا اعتراف انسان کو انصاف، رحم، اور محبت کے اعلیٰ ترین مقام پر لے جاتا ہے۔
یہ تعریف انسان کو عاجزی سکھاتی ہے، کیونکہ جب وہ ہر نعمت، ہر کامیابی اور ہر خوشی کو رب کی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کے دل میں عاجزی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو محض ایک بندہ سمجھ کر رب کے حضور جھک جاتا ہے۔ اسی جھکنے میں اس کی عزت بھی ہے، اسی میں اس کی سربلندی بھی ہے، اور اسی میں اس کی دنیا اور آخرت کی کامیابی بھی پنہاں ہے۔ یہ تعریف دراصل ہر عمل سے پہلے، ہر کوشش کے آغاز میں انسان کو یاد دلاتی ہے کہ اس کی کامیابی صرف اسی کی عنایت سے ہے۔ یہ تعریف انسان کے دل سے تکبر، غرور اور خودپسندی کو جڑ سے کاٹ دیتی ہے۔ جب بندہ یہ مان لے کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لیے ہے تو وہ خود کو ایک امانت دار سمجھ کر زندگی گزارتا ہے۔ یوں یہ الفاظ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک جامع فلسفہ، ایک روحانی دستور اور ایک اخلاقی انقلاب ہیں۔ ان میں کائنات کے تمام راز، زندگی کی اصل معنویت، بندے کا مقام اور رب کی شان سمٹ آتی ہے۔
یہ تعریف محض زبان کا ورد نہیں بلکہ ایک دائمی حقیقت ہے جو کائنات کی گہرائیوں میں بستی ہے۔ ہر لحظہ، ہر لمحہ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا اصل حسن اسی رب کی تعریف میں ہے جس نے ہمیں عقل، شعور، جذبات، محبت، رشتے، سکون، اور امن کی دولت عطا کی۔ اگر ہم اس کی تعریف نہ کریں تو یہ نعمتیں بدمزہ ہو جاتی ہیں، اور اگر ہم اس کی تعریف کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو یہ نعمتیں مزید بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ یوں اللہ ہی کی تعریف کائنات کے ہر ذرے سے جھلکتی ہے۔ ہوا کا ہر جھونکا، بارش کی ہر بوند، چاندنی کی ہر کرن، پرندوں کا ہر گیت، درختوں کا ہر سایہ، سب اس کی حمد میں شریک ہیں۔ اور جب انسان اس حمد کو اپنے دل میں اتار لیتا ہے تو وہ بھی اس کائناتی ترانے کا حصہ بن جاتا ہے۔ تب اس کی زندگی میں بھی سکون، محبت، اور حقیقی کامیابی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ یہی اصل راز ہے جس کی طرف یہ مبارک آیت رہنمائی کرتی ہے، اب ایک بار پھر اس آیت کو ذرا غور سے پڑھیں: ”تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام کائنات کا رب ہے۔“

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 41 Articles with 14748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.