چئیرمین پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات 2018ء سے قبل
دو مختلف موقعوں پر پریشانی اور الجھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ جو کہ خان صاحب
کیلئے اپنی سیاسی کیرئیر میں تکلیف دہ لمحات تھیں۔پہلا موقع جب جماعت کے
اندر دو گروپس (شاہ محمود قریشی گروپ اور جہانگیر ترین گروپ) نے عین
انتخابات سے قبل سر اٹھایا۔جس کا خان صاحب نے نجی ٹی وی چینل پر اعتراف بھی
کیا اورگروپنگ کا اظہار کرتے ہوئے پریشان دیکھائی دئیے۔دوسرا موقع جب پارٹی
ٹکٹوں کی تقسیم کے نتیجے میں کارکنان اور امیدواروں نے بنی گالا اور دیگر
مقامات پر دھرنے شروع کیے۔اور جماعت کے اندر و باہر الیکٹیبلزکو نظریاتی
عہدیداروں پرفوقیت دینے کے الزامات لگیں۔بہرحال ان دونوں چیلنجز کو خان
صاحب نے وقتی طور پر نمٹا دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الیکشن2018 کیلئے انتخابی
جلسوں کا آغاز یکم جولائی کو بنوں سے کیا ۔جہاں سے عمران خان خود انتخابات
لڑنے جا رہا ہے۔NA-35 بنوں دو عوامل کے باعث ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت
کا حامل ہے۔پہلی وجہ حلقہ کی آبادی ہے۔5مارچ 2018ء کو الیکشن کمیشن آف
پاکستان نے مذکورہ حلقہ کو ملک میں سب سے زیادہ آبادی والا حلقہ قرار
دیا۔جس کی آبادی 1,167,892 نفوس پر مشتمل ہے۔جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد
384,896 ہیں۔دوسری وجہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا اس
حلقہ سے الیکشن لڑنا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات لڑنے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ
نے عمران خان کوقومی اسمبلی کے پانچ حلقوں پر اتارا۔جن میں NA-35بنوں،
NA-53اسلام آباد ٹو، NA-95میانوالی ون، NA-131لاہور اور NA-243کراچی شامل
ہیں۔ جماعت کے اندرونی ذرائع کیمطابق پارلیمانی بورڈ نے خان صاحب کیلئے
NA-35 بنوں کا انتخاب دو وجوھات کی بنا پر کیا۔1۔بنوں میں پاکستان تحریک
انصاف کے ووٹرز بہت زیادہ ہیں۔لیکن ضلعی سطح پر جماعت کے بڑوں کے بیچ
اختلافات نے کارکنان اور ووٹرز کو تقسیم کر دیا تھا۔گویا خان صاحب کے اس
حلقہ میں آنے سے جماعت کی تنظیمی اکائیاں کافی حد متحد ہوگئی ہیں۔2۔بنوں
جمعیت علمائے اسلام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔سابق وزیراعلیٰ
اکرم خان درانی کو انتخابات میں ٹف ٹائم دینااوران سے قومی اسمبلی کی سیٹ
جیتناعمران خان کے علاوہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔انتخابات تو 25 جولائی کو
شیڈول ہے۔ لیکن خان صاحب کے لیے انتخابی کمپین نے ضلعی سطح پرکارکنان اور
رہنماؤں کو بلاشبہ ایک صفحے پر لایااورجے یو آئی (ف) کو ان کے گڑھ (بنوں)میں
چیلنج کیا۔
NA-35 (پراناNA-26)پر 2002ء سے مسلسل ایم ایم اے اور جے یو آئی (ف) جیتتی
آرہی ہے۔ تین سیاسی نقاط ایسے ہیں ۔جس کا ایڈوانٹیج پاکستان تحریک انصاف کو
حاصل ہے ۔پہلا یہ کہ2008ء میں اسی حلقہ سے رنر اپ امیدوارملک ناصر خان تھا۔
جس نے تقریباََ 57,000 ووٹ حاصل کیے تھے۔مولانا نسیم علی شاہ الہاشمی نے
2013ء میں رنر اپ آزاد امیدوارکی حیثیت سے 45,000ووٹ جبکہ پی ٹی آئی کے
ضلعی صدرمطیع اﷲ خان نے 25,000حاصل کیے تھے۔یہ تینوں امیدوار2018ء میں
عمران خان کیلئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ دوسرا نقطہ یہ کہ اس حلقہ میں
دیگر سیاسی جماعتیں اکرم خان درانی کیخلاف عمران خان کی حمایت کررہے ہیں۔جن
میں جماعت اسلامی ، جے یو آئی (س)، اے این پی کااگرچہ اپناجماعتی امیدوار
نہیں مگر ان کے اکثریتی ووٹرز اکرم درانی کی حمایت نہیں کرتے۔پی پی پی کے
تقریباََ 50فیصد ووٹرز عمران خان کے حق میں ہیں۔مزید یہ کہ بنوں کے زیادہ
تر پیشہ ور خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں ۔یہ لوگ 25جولائی سے پہلے پی ٹی
آئی کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنے آبائی علاقوں کو پہنچنے کیلئے پرتول رہے
ہیں۔تیسرا نقطہ یہ کہ غالب امکان ہے کہ NA-35 کے چاروں صوبائی سیٹوں(پی کے
87،88،89، 90) پر پی ٹی آئی کلین سویپ کر لے گی۔ان چارصوبائی حلقوں کے صرف
نظریاتی ووٹرزقومی اسمبلی کے ووٹ عمران خان کیلئے ڈالیں تو بھی عمران خان
NA-35پر اکرم خان درانی کوبا آسانی ہرا سکتا ہے۔چنانچہ بنوں کے حلقہ
NA-35اور چاروں صوبائی حلقوں پراگر ساری جماعتوں کے ووٹ بینک کا موازنہ کیا
جائے۔تو 2018ء میں پی ٹی آئی کو باقی ساری جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔اوپر
بیان کیے گئے نقاط کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر انتخابات کا انعقاد وقت مقررہ
پر ہوتا ہے تو عمران خان کی واضح اور یقینی کامیابی کی پیشن گوئی کی جا
سکتی ہے۔ |