پانی انسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر زندگی
ممکن نہیں، اگر چاند اور دیگر سیاروں پر پانی میسر آجاتا تو وہاں بھی آبادی
قائم ہوچکی ہوتی۔ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے
کہا ہے کہ ’’میری زندگی کے دو ہی مقصد ہیں ایک ڈیمز کی تعمیر اور دوسرا قرض
اتارنا‘‘۔ یہ ریمارکس جناب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کچی
آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’
وہ ریٹائر ہوکر بھی اس پر کام جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج
ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 17ہزار کا مقروض ہے، ہم نے اپنی پانچ نسلوں
کو مقروض کر لیا ہے، ہمیں آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض چھوڑ کر نہیں جانا
۔ ڈیمز اور پانی والے مسئلے کے بعد قرضوں والا کام شروع کریں گے‘‘۔ جناب
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان کے اہم ترین مسئلوں کی
نشاندھی کی ہے۔ پاکستان میں قائم ہونے والی سویلن وار عسکری حکوتوں نے ان
دونوں اہم مسئلوں کے مستقل حل کے لیے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جب بھی ڈیم کی
بات ہوتی تو کوئی کالا باغ ڈیم کی بات کر دیتا ، مخالفین اس بات پر اس پر
ٹوٹ پڑتے اور یہاں تک کہہ ڈالتے کہ ہماری لاشوں پر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوگا،
کسی نے ازراہ مزاق یہ بھی کہہ دیا کہ چلو اگر تمہاری لاشوں پر ہی یہ تعمیر
ہوجائے تو یہ سودا بھی برا نہیں۔ اس پر بات ختم ہوجاتی رہی ہے۔ گویا ڈیم کا
مطلب سابقہ حکومتوں نے کالا باغ ڈیم ہی لے لیا تھا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ،دیگر
ڈیم بھی تو بنائے جاسکتے تھے لیکن ہر حکومت نے ڈیموں کی تعمیر کی بات تو کی
لیکن اس اہم مسئلہ پر عملاً پیش رفت نہیں کی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ
پاکستان وقت کے ساتھ پانی جیسی بنیادی ضرورت کے گھمبیر مسائل سے دوچار ہوتا
جارہا ہے۔اس وقت پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیم تو بہت سے ہیں ، بڑے ڈیموں میں
تربیلا ڈیم، منگلہ ڈیم، میرانی ڈیم، وارسک ڈیم ، سبارکزئی ڈیم شامل ہیں ۔
وقت کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ،پانی کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں۔
دوسری جانب بارش اور سیلاب آجانے کی صورت میں بے شمار پانی ضائع ہوجاتا ہے
اس لیے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم ہی پانی ذخیرہ کرنے کا واحد ذریعہ
ہیں۔ زرعی ضروریات کے لیے بھی ڈیم پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، ان
کے ذریعہ سے زیادہ اور سستی بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ڈیم کے فوائد اس
قدر ہیں لیکن ہماری حکومتوں نے ڈیم کی تعمیر میں ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب پانی کا شدید بحران سر پر کھڑا ہے۔ آئندہ سالوں
میں اگر ڈیم نہ بنائے گئے تو پاکستان پانی کے شدید بحران سے دوچار ہوجائے
گا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پانی جیسے اہم مسئلہ
کے حل کے لیے ملک میں دو ڈیم دیا مر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیرکے
لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے دونوں ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کی
ہدایت کی ۔ اس مقصد کے لیے قومی سطح پر ’’دیا مر بھاشا ڈیم اوراور مہمند
ڈیم فنڈ2018 ‘‘ کے عنوان اکاؤنٹ کھولا جاچکاہے ۔اس میں ہر طبقے سے تعلق
رکھنے والے ڈیم کی تعمیر میں اپنی استطاعت کے مطابق رقم جمع کرارہے ہیں۔
ڈیم کی تعمیر کے لیے کھولا گیا اکاؤنٹ نمبر4-0010299999-593-03
پی این نمبر PK06SBPP00359329999914 ہے۔
اس کے علاوہ اس فنڈ میں ایزا پیسہ اور جاز پیسہ اکاؤنٹ کے ذریعہ بھی رقم
جمع کرنے کی سہولت میسر ہے۔
دیا مر بھاشا ڈیم مہمند ڈیم کی تعمیر پر عمل درآمد کمیٹی قائم کی جاچکی ہے،
چیر مین واپڈا کی صدارت میں کمیٹی کے مختلف اجلاس ہوچکے ہیں۔ دیا مر بھاشا
ڈیم گلگت بلتستان کے ضلع دیر میر میں دریائے سندھ پر گلگت اور چلاس کے
درمیان تعمیر کیا جائے گا، منصوبے پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 14ارب ڈالر ہے۔
ڈیم کا پانی آبپاشی اور پینے کے لیے استعمال ہوگا۔ اس ڈیم میں 375میگا واٹ
کی 12ٹربائنیں نصب کی جائیں گی۔ ڈیم کی بلندی 272میٹر اور اس میں 81لاکھ
ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ اس سے4500میگا واٹ بجلی پیدا
ہوسکے گی۔ اس ڈیم کا سول ورک جاری ہے ۔ دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے
تربیلا ڈیم کی زندگی 35سال بڑھ جائے گی۔اس سے سیلاب سے نمٹنے اور پانی
ذخیرہ کرنے میں مدد بھی ملے گی۔ مہمندہائیڈرو پاور پراجیکٹ مہمند ڈیم کے
لیے اخراجات کاابتدائی تخمینہ 938ملین روپے ہے جس کی تکمیل سے 1.293 ملین
ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی، ڈیم کی بلندی700 فٹ ہوگی۔ یہ آبی
منصوبہ 8 ہزار کنال پر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ مہمندایجنسی میں دریائے سوات
پر تعمیر کیا جائے گا۔ آبی وسائل کا یہ منصوبہ نوشہرہ اور پشااور کے اضلاع
کو سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ منصوبے کی تکمیل سے
17ہزار ایکٹر زرعی زمین کو سیراب کرنے کے لیے پانی دستیاب ہوسکے گا اور
800میگا واٹ سستی بجلی بھی پیدا ہوگی۔
پاکستان میں دو ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبوں کی تحریک کا آغاز ’’ڈیم بناؤ
پاکستان بچاؤ ‘‘ کے عنوان سے ہوچکا ہے، مختلف کاروباری، ملازمین اپنی اپنی
استطاعت کے مطابق ڈیم فنڈ میں عطیات جمع کرارہے ہیں، پاکستان کی افواج کے
آفسرز نے دو دن کی جوانوں نے ایک دن کی تنخواہ ، دیگر اداروں کے ملازمین نے
بھی اس اہم قومی کام میں اپنا حصہ ڈالنے میں جوش و جذبہ کاا ظہارکر رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ چیف جسٹس صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کی تحریک
کامیاب ہوجائے تو وہ پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی کی مہم شروع کرنے کا سوچ
رہے ہیں۔ پاکستا نی قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ نا اہل ہوجانے اور جیل پہنچ
جانے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنواروں اسیکم شروع
کی تھی جس میں پاکستان قوم اور بیرونی ممالک پاکستانیوں نے بھر پور حصہ لیا
تھا۔ لیکن ا س تحریک کے توسط سے جمع ہونے والی رقم کا آج تک معلوم نہ ہوسکا
کہ اس میں کس قدر رقم جمع ہوئی اور وہ رقم کس کام آئی۔ قرض اتارنے کہ مہم
سے قبل چیف جسٹس صاحب اس مہم میں جمع ہونے والی رقم کے بارے میں تحقیقات
کرائیں کہ وہ رقم کتنی جمع ہوئی تھی،وہ موجود ہے یا ہضم کی جاچکی؟اس کے بعد
یہ مہم بھی شروع کی جائے۔ جس طرح چیف جسٹس کی ڈیم بنانے کے منصوبو کو قدر
کی نگاہ سے دیکھا اور لوگ اس میں عملی طور پر حصہ لے رہے ہیں ، اسی طرح قرض
اتارو ملک سنواروں مہم میں بھی پوری قوم چیف جسٹس کے قدم بہ قدم ہوگی۔ |