مجھے پاکستان کے مسلمانوں کا یہ ورژن
پسند نہیں ہے، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ایک مذہبی انتہا پسند نے مار دیا،
کیا مذہب کے معاملے میں اختلاف رائے رکھنے والے کو مار دیا جائے گا؟ جبکہ
اسلام آزادی اظہار کا درس دیتا ہے۔
اسلام بنیادی طور پر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور احترامِ انسانیت کا درس
دیتا ہے مگر جہاں اسلامی قوانین میں رد و بدل کی بات کی جاتی ہے وہاں اللہ
فرماتا ہے کہ میں نے دین مکمل کردیا ہے۔ مگر پچھلے کچھ دنوں اور خصوصاً
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد سے بھونچال توہین رسالت کے قانون پر
آیا ہوا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اختلاف رائے کی اتنی بڑی سزا؟ کوئی کہتا ہے کہ
یہ مذہبی انتہا پسندی کی بھی انتہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ گورنر پنجاب نے
توہین رسالت میں تبدیلی کی بات نہیں کی تھی صرف طریقہ کار میں تبدیلی چاہتے
تھے۔ مزے کی بات یہ کہ جہاں بیٹھ کر یہ لوگ اس طرح کی باتیں کرتیں ہیں وہاں
اگر آپس میں تلخ کلامی ہوجائے تو عدالت میں ایک دوسرے کے خلاف ہتک عزت کا
دعویٰ کر دیا جاتا ہے تو پھر انبیاء علیہ السلام جیسی ہستیوں کی ہتک پہ
قانون اگر حرکت میں آ ہی جاتا ہے تو یہی لوگ واویلا مچاتے ہیں۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر جو پہلے پرویز مشرف کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے،
پاکستان پیپلر پارٹی کی حکومت میں زرداری صاحب کے چہیتے تھے۔ 20 نومبر 2010
کو زرداری صاحب کی ہدایت پر سلمان تاثیر شیخوپورہ میں آسیہ مسیح کی رہائی
کا بندوبست کرتے ہیں جبکہ عدالت نے آسیہ میسح کو ٹھوس شواہد کی بنا پر
سزائے موت کا حکم سنایا تھا اور باقاعدہ پریس کانفرس کر کے یہ کہتے ہیں کہ
آسیہ میسح کے کیس کا تعلق انسانیت سے ہے، تو کیا عافیہ صدیقی کے کیس کا
تعلق انسان سے نہیں تھا؟ سوات میں خاتون پر کوڑے برسانے کی متنازعہ ویڈیو
پر گلا پھاڑ پھاڑ کر انسانی حقوق کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر جرمنی میں شہید
حجاب کے معاملے میں زبانیں گنگ رہ جاتی ہیں۔ لال مسجد کی طالبات جب فحاشی
کے اڈے بند کرانے نکلتی ہیں تو یہی انسانی حقوق کی علمبردار اسلام آباد کی
شاہراہ دستور پر میں ناچوں گی میں گاؤں گی نعرے لگاتے ہیں اور عافیہ صدیقی
کے معاملے پر انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح
غائب ہوجاتے ہیں۔
26 نومبر 2010 کو اپوزیشن کی 5 بڑی جماعتوں کے 12 ارکان نے توہین رسالت کے
قانون کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک تحریک جمع کرائی تھی ان ارکان
کا مطالبہ تھا کہ قانون توہین رسالت ختم یا اس پر نظرثانی کی جائے اور آسیہ
مسیح کی رحم کی اپیل منظور کی جائے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان
کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں قانون توہین رسالت کو ختم کرنا یا اس میں ترمیم
چاہتی ہیں اسلام کی رو سے توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے فتح مکہ کے موقع
پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی رسول کرنے والوں کو ان
لوگوں میں شامل کیا جن کے بارے میں آپ نے حکم فرمایا کہ یہ لوگ اگر خانہ
کعبہ کے پردے میں بھی لپٹ جائیں تب بھی انہیں معاف نہیں کیا جائے گا، انہیں
ہر صورت قتل کر دیا جائے گا۔ اب خطل کو خانہ کعبہ کے پردے کو پکڑنے کی حالت
میں قتل کیا گیا تھا اور سارہ اور قریبہ کو بھی قتل کی گئی ﴿تاریخ طبری ص
104﴾۔ اس طرح تیسری ہجری میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخ
رسول کعب بن اشرف کو قتل کروایا ﴿تاریخ طبری ص 213﴾۔
ہمیں یہ شہادتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی مل گئی تھیں
تو ایسے میں یہ حکمران کون ہوتے ہیں کہ آسیہ مسیح کو رہائی دلوانے والے؟
اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو بدلنے والے؟
یہاں مسئلہ اختلاف رائے کا نہیں ہے اور نہ مذہبی انتہا پسندی کا ہے مسئلہ
صرف اتنا ہے کہ یہ مغرب سے ڈکٹیشن لے کر چلنے والے حکمران اپنے منہ سے کیوں
ایسے الفاظ نکالتے ہیں، کیوں اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم کی بات
کرتے ہیں جس سے ایک مسلمان کے جذبات مشتعل ہوں اور نتیجہ میں ایسے ورژن کا
مسلمان پیدا کرتے ہیں۔ پھر چاہے آپ ایسے مسلمان کو پسند کریں یا نہ کریں
بہرحال یہ آپ ہی کی پیدوار ہے اور نتائج بھی آپ ہی کو بھگتنے ہیں۔ |