پاکستان میں آجکل الیکشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،
جسے دیکھو اسی کے سحر میں مبتلا ہے. گلیوں ،بازاروں، بیٹھکوں اور چوراہوں
کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں ہر طرف انتخابات کی ہی گہما گہمی ہے.اشتہارات،
بینرز، فلیکسز اور پارٹی جھنڈوں نے گلیوں، بازاروں اور چوباروں کو دلہن کی
طرح سجا رکھا ہے. سیاسی جوڑ توڑ،سیاسی منافقت ،سیاسی بیانات ، ریلیاں، جلسے
جلوس ، کارنر میٹنگز اور سیاسی پارٹیوں کے جیالوں کا جوش بھی اپنے عروج پر
ہے. ہر دفعہ عوام کا اتنا جوش و خروش ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں ووٹ
کا ٹرن آوٹ ہمیشہ بہت کم ہوتا ہے. ووٹ ڈالنے والے ایک سو انہتر ممالک میں
پاکستان کا ایک سوچونسٹھواں نمبر ہے، پاکستان میں پینتالیس اشاریہ صفر تین
فیصد ٹرن آوٹ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو ہی دیکھ لیں وہاں ووٹ
کا ٹرن آوٹ انسٹھ فیصد ہوتا ہے. میں یہاں اپنے محدود علم کی بدولت ان
پہلووں کو اجاگر کرنے اکی کوشش کروں گا جن کی وجہ سے پاکستان میں ووٹ کا
ٹرن آؤٹ ہمیشہ کم رہتا ہے. سب سے پہلے سیاستدانوں کا عوام سے کئے گئے بلند
و بانگ دعووں اور وعدوں پر پورا نہ اترنا ہے، سیاست دان اپنے انتخابی جلسوں
میں عوام کو ہمیشہ سرسبز باغات دیکھاتے ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی یہ لوگ
لوٹ مارشروع کر دیتے ہیں اور ملک کا گلستان اجاڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں، تو
لوگوں کی اکثریت اگلی بار ووٹ ڈالنے سے گریز کرتی ہے. ہر انتخابات میں
دھاندلی کے سیاہ بادل بھی منڈلاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو اپنا ووٹ
ضائع ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو جب دوسری مرتبہ وزیراعظم
منتخب ہوئے تو دھاندلی کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی. جب نواز شریف 2013
کے انتخابات کے بعد تیسری بار وزیراعظم بنا تو تحریک انصاف نے دھاندلی کا
شور مچا کر اس ملک میں دھرنوں کی سیاست کی بنیاد رکھ دی، اور اس دفعہ میاں
شہباز شریف نے وقت سے پہلے ہی دھاندلی کی دہائی دینا شروع کر دی ہے، جس کی
وجہ سے ن لیگی کارکنوں میں بے چینی پھیل رہی ہے اور ووٹرز تذبذب کا شکار
ہیں. پاکستان میں دھاندلی کا ایک نیا طریقہ بھی متعارف ہو چکا ہے جس میں
مخالف امیدوار کے پکے ووٹرز کو خرید کر ان سے شناختی کارڈز وصول کر لیے
جاتے ہیں تاکہ الیکشن والے دن یہ لوگ ووٹ ہی نہ ڈال کر سکیں، اس اوچھے
ہتھکنڈوں کی بدولت بھی ووٹ کے ٹرن آوٹ پر بڑا اثر پڑتا ہے. عورت کا کردار
ہر ملک کی ترقی میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے. ترقی یافتہ ممالک میں عورتیں
ووٹ کاسٹ کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہیں، مگر پاکستان میں مرد حضرات عورت
کا گھر سے نکل کر ووٹ کاسٹ کرنا اپنی ہتک اور غیرت کے منافی تصور کرتے ہیں
ایسا صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں زیادہ تر دیکھنے میں آ رہا ہے
اس بار الیکشن کمیشن نے نوٹس لیتے ہوئے خبردار دار کیا ہے کہ جن حلقوں میں
عورتوں کا ووٹ دس فیصد سے کم ہو گا وہاں کا نتیجہ کالعدم قرار دے دیا جائے
گا. امیدواروں کی جانب سے غنڈہ گردی اور کالعدم تنظیموں کی طرف سے دہشت
گردی کے خطرے کی بدولت ووٹرز خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اور اسی وجہ
سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن کا رخ کرتے ہوئے کتراتی ہے. بیرونی
ممالک میں لاکھوں پاکستانی روزگار اور پڑھائی کے سلسلے میں آباد ہیں جن
کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی مناسب بندوبست نہیں کہ وہ اپنا حق رائے
دہی استعمال کر سکیں،اسی طرح پاکستان بھر کی جیلوں میں قید تقریباً اسی
ہزار سے زائد قیدیوں کیلئے اس بار بھی کوئی بندوبست نہیں کیا جا سکا کہ وہ
اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں. اب کچھ تجاویز جن پر عمل کرکے پاکستان میں ووٹ کے
کم ٹرن آوٹ کو مزید بڑھایا اور بہتر کیا جا سکتا ہے. سب سے پہلے ووٹ بائیو
میٹرک سسٹم کے تحت کاسٹ ہو، شفاف انتخابات کا یہ بہترین طریقہ ہے تاکہ کوئی
بھی سیاسی جماعت دھاندلی کا شور نہ مچا سکے، غلط ٹھپوں کی وجہ سے ووٹ ضائع
نہ ہو سکیں ، اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانی اور جیلوں کے اندر موجود قیدی
بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں،الیکشن والے دن ملک بھر میں عام
تعطیل ہو تاکہ مزدوروں کے ساتھ ساتھ ہر طبقے کے لوگ ووٹ کاسٹ کرسکیں. پولنگ
اسٹیشنز کے اندر اور باہر فوج اور رینجرز لازمی تعینات ہو تاکہ کسی بھی
ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے. الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ووٹ کی
اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ لوگ ووٹ کو قومی فریضہ سمجھ کر کاسٹ کریں.
آخری بات حکومت کو چاہیے کہ ایک ایسا قانون بنا دے جس کے تحت ہر پاکستانی
ووٹرز کیلئے ووٹ کاسٹ کرنا لازمی قرار ہو بصورت دیگر سزا اور جرمانہ دونوں
ہوں. جمہوریت ہی دنیا میں بہترین طرز حکمرانی ہے مگر یہ آپ سے ووٹ کا حق
مانگتی ہے لہٰذا ووٹ دیں اور پاکستان کو مضبوط بنائیں.
|