افغان، طالبان، امریکہ اور کشمیر

ایوان پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں پہلے دن وزیر مملکت برائے داخلہ ہنسراج اہیر نے جموں کشمیر کی صورتحال پر ایک سوال کےجواب میں بتایا کہ گزشتہ سال کے مقابلے دہشت کے واقعات بڑھ کر ۳۱۱ سے ۳۴۱ ہو گئے ۔ اہیر نے بتایا سنگ باری میں دیگر ہندوستانی ریاستوں کے دو نوجوانوں کو ملوث پایا گیا لیکن وہ بھی پاکستانی نہیں تھے ۔ وزیر موصوف کی جانب سے پیش کردہ اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میںہلاکتوں کے اندر کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ۲۰۱۶؁ میں ۱۵۰ دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد ۲۰۱۷؁ میں ۲۱۳ ہوگئی یعنی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اس دوران صوبے میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی۔ اب وہ حکومت گر گئی ہے اس کے باوجود امسال ۶ ماہ میں مہلوکین کی تعداد ۱۰۰ تک پہنچ گئی ہے۔ حفاظتی دستوں کی اموات ۸۲ اور ۸۰ تھیں اور اس سال اب تک ۴۰ ہوچکی ہیں۔ عام شہریوں کی اموات ۲۰۱۶؁ میں ۱۵تھی جو بڑھ کر۲۰۱۷؁ میں ۴۰ ہوگئی تھی اور اس سال ابھی تک ۱۶ ہوگئی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا صدر راج سے حالات سدھریں گے یا بی جے پی کے پی ڈی پی کے باغیوں کی مدد سے حکومت قائم کرلینے سے امن قائم ہوجائے گا؟ افغانستان کے حالات کی روشنی میں اس سوال پر غور ہونا چاہیے۔

کشمیر میں قیام امن حکومت ہند کے لیے جس قدر نازک مسئلہ ہے افغانستان کے اندر خانہ جنگی کا خاتمہ امریکہ کے لیے اس سےکم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ دونوں مقامات پر سیاسی مفادات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ افغانستان میں طالبان اور کشمیر میں حریت کے اثرات سے انکار خود فریبی ہے۔ جنوری ۲۰۱۸؁ میںبی بی سی کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق افغانستان کا ایک بڑا علاقہ طالبان کے زیر تسلط ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی رہتی ہےجبکہ پورے ملک کی کل آبادی ساڑھے تین کروڈ ہے اور وہاں کل ۱۱ہزار امریکی فوجی موجود ہیں ۔ کشمیر کی آبادی تقریباً ۷۰ لاکھ ہے جبکہ وہاں تعینات حفاظتی دستوں کی تعداد ۷ لاکھ ہے اس سے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کرکے اس کی روشنی میں قابلِ عمل حکمت عملی وضع کرنے میں رعونت آڑے آتی ہے۔

طالبان افغانی حکومت کو کٹھ پتلی مانتے ہیں اور اس کے بجائے براہ راست امریکہ سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کی بابت گفتگو کے قائل ہیں۔ امریکہ بہادر بھی اس کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے لیکن اس کا اعلان کرنے میں پس و پیش میں گرفتار تھا لیکن اب وہ اس پر راضی ہوتا نظر آرہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے امریکی حکومت کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے سفارتکاروں کو افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی سعی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ پیشرفت امریکی حکومت کی بڑی تبدیلی کا اشارہ ہےکیونکہ پہلے واشنگٹن حکومت افغان طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے کے حق میں نہیں تھی۔ اس تغیر کو علاقہ میں بحالیٔ امن اور ایک دیرینہ تنازعہ کے خاتمہ کی جانب اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے اندر حکومت ہند کے لیے بھی سامانِ عبرت ہے۔

امریکہ اور طالبان کے رابطوں کی باقائدہ تصدیق تو جولائی ۲۰۱۸؁ میں کی جارہی ہے لیکن یہ ۶ پہلے سے خفیہ سطح پر جاری ہیں ۔ جون ۲۰۱۲؁ میں افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں کے رہنے والے طالبان کی حکومت میں منصوبہ بندی کے سابق وزیر قاری دین محمد نے جاپان میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں طالبان کے نمائندے کے طور پر اپنا مقالہ پیش کرنے کے بعد کہا تھا کہ مارچ سے تعطل شدہ امریکہ سے مذاکرات پھر سے بحال ہو سکتے ہیں ۔ اس کانفرنس سے طالبان کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد افغان حکومت کے اہلکاراور افغان امن کونسل کے اراکین ،حزب اسلامی کے رہنما ڈاکٹر غیرت بھیرنیزپاکستان میں سابق طالبان سفیر ملاعبد السلام ضیعف نے بھی خطاب کیا تھا۔ قاری دین محمد نے امریکہ کے ذریعہ قیدیوں کی رہائی کو تسلیم نہیں کیے جانے کو تعطل کی وجہ قراردیا تھا ۔قاری دین محمد حنیف کے مطابق طالبان کے لیے امریکی فوجیوں کا انخلاء سب سے اہم تھا کیونکہ غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی ہی جنگ کے جاری رہنے کا اہم سبب تھی اور ہے۔اس کے معنیٰ ہوئے یہ گفتگو ۲۰۱۲؁ کے پہلے سے جاری ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ گفت وشنید کی توثیق ۳۱ مئی ۲۰۱۸؁ کو ہوئی جب افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے اعتراف کیا کہ مذاکرات میں دوسرے ملکوں کی حکومتیں اور چند بین الاقوامی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جنرل نکلسن نے افغانستان کی صورت حال کا موازنہ کولمبیا سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ تشدد اور مذاکرات بیک وقت جاری رہ سکتے ہیں۔ کولمبیا میں ۵۰برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ امن معاہدے کے بعد ہوا تھا۔ ۲۹ جون ۲۰۱۸؁ کو دو روزہ پاک افغان غیررسمی مذاکرات کے اختتام پر جاری اعلامیے میں افغان حکومت اور طالبان کو کامیاب مذکرات کے لیے باہمی مفاہمت سے سمجھوتہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی تاکہ ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان نرم گوشہ پیدا ہو ۔ اس کے بعد ۱۶جولائی ۲۰۱۸؁ کو یہ رپورٹ منظر عام پر آئی کہ امریکی اور افغان حکام کا اتفاق ہے کہ افغان عمل میں تیزی اور افغانستان سے امریکہ کے انخلا کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہِ راست حصہ دار بنے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلیٰ امریکی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی یہ اجازت افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے۔ یہ طالبان کے اس موقف کی تائید ہے کہ افغانستان میں لڑائی روکنے اور قیامِ امن کے لیے وہ صرف امریکہ اور اس کے ناٹو اتحادیوں سے ہی بات چیت کریں گے۔طالبان امریکہ کے حالیہ موقف پر خوشی کا اظہار کیا دنیا بھر کے مختلف طاقتوں نے اسے خوش آئند بتایا۔

اس موقع پر حکومت ہند کو بھی ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کی فوج کے تعاون کے باوجود امریکہ ۱۸ سال بعد برسرِ جنگ حریف سے گفتگو پر راضی ہوجاتاہے توہمیں اپنے ملک میں رہنے اور بسنے والے حریت رہنماوں سے بات چیت کرنے میں پس و پیش کیوں ہو؟ کشمیر ہو یا افغانستان ہر دو مقام پر طاقت کے استعمال سے بات نہ بنی ہے اور نہ بنے گی ۔ بی جے پی کے اولین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ۲۰۰۰؁ میں کہا تھا ہندوستان اور امریکہ فطری حلیف ہیں۔حکومتِ ہند نے کئی بار امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا عہد کیا ہے ۔ جموں کشمیر کے لیے بی جے پی کے نگراں رام مادھو نے اپریل ۲۰۱۸؁ میں کہا تھا کہہندوستان اور امریکہ ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں ۔ انہیں تجارت سے آگے بڑھ کر مشترک حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ ایے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ہند امریکہ کی افغان حکمت عملی سے سبق لے کر گفت و شنید کے ذریعہ کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.