بعض اوقات بہت دکھ ہوتا جب نوجوان سوال کرتے ہیں کہ میڈیا
کیوں زیادہ تر حکومت کی کرپشن اور ن لیگ کی نااہلی کو سپورٹ کرتی ہے ۔
میڈیا کا کام حکومت کی ناکامیوں اور مس مینجمنٹ کیساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف
آواز بلند کرنا اور کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عوام میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے
لیکن ہماری بدقسمتی دیکھے کہ بعض تجزیہ کار سیاستدانوں کے بے رول یعنی ان
کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ بعض ان کے پروپیگنڈا کو دیکھ کر کرپٹ مافیا کی
دفاع کرتے ہیں جس سے عام قاری یا ناظر بد ظن ہوجاتا ہے اور پورے میڈ یا کو
ایک ترازو میں رکھتے ہیں۔حالاں کہ آج بھی بہت سے لکھاری اور ٹی وی اینکرز
ایسے موجود ہے جو کرپشن کے خلاف ایک طرح کا جہاد کرتے ہیں ۔میڈیا کاکام ملک
میں کرپشن ،لوٹ مار اوراداروں کو مضبوط کرنے کا ہے ۔ میڈیا ملک اور قوم کے
خلاف کبھی کام نہیں کرتا۔ کسی بھی حکومت کی ناکامی یہ نہیں ہوتی کہ انہوں
نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان یعنی بنیادی ضروریات زندگی کی چیزیں تعلیم،
صحت اور سکیورٹی سمیت بے روزکاری سے نجات نہیں دلائی بلکہ ناکام حکومت
جمہوریت میں وہ ہے کہ جمہوری حکومت عوام کے فلاح وبہبود کے منصوبوں کی
بجائے کرپشن اور لوٹ مار میں لگ جائے، انصاف کا قانون امیر کے لئے الگ اور
غر یب کے لئے الگ ہو یعنی اسلام میں جہاں کرپشن ، رشوت ،ملاوٹ، ظلم و زیاتی
سمیت صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے وہاں ہمارے ملک میں یہ سب کچھ نہ صرف
ہوتا ہے بلکہ سیاست دانوں کے آشیرباد سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے جو کسی
بھی حکومت یا معاشرے کیلئے زہرہ قتل ہے جس کے لئے ہماری حکومتوں نے کوئی
کام نہیں کیا ہے یا اس پر ہماری حکومتیں کام نہیں کرنا چاہتی ،یہ ایسے کام
نہیں جو نہ ہوسکتے ہو، ضروری نہیں کہ سو فیصد ہو لیکن پچاس فیصد تک تو ہو
سکتا ہے کم ازکم آغاز تو کیا جاسکتا تھالیکن تین تین دفعہ باریاں لینے والے
اور دس دس سالوں سے حکومت میں رہنے کے باوجود پنجاب اور سند ھ میں پانی
سمیت صفائی، ملاوٹ ، صحت وتعلیم ،بے روزگاری اور مہنگائی کو کنٹرول نہیں
کیا گیا اور نا ہی اس کے لئے کوئی بندوبست ہوا ہے ۔ عوام ان کی عیاشوں کو
پورا کرنے کیلئے ٹیکسوں کی شکل میں ہر مہینے بجلی بلوں اور پٹرول کی قیمتوں
میں ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس سے بڑا ظلم یہ کہ عوام کے فلاح و بہبود کے
نام پر قرضوں کا انبار بنایا گیا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہماری کسی بھی
حکومت نے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کیا ہوتا توآج ان کو ووٹ
مانگنے نہیں پڑتے بلکہ عوام ان کے لئے ووٹ خود ڈالتی ۔
یہی وجہ ہے کہ دس دس سال حکومتوں کے باوجود عوام سے پھر وعدے کیے جارہے ہیں
کہ اس دفعہ ہمیں منتخب کریں تو ملک کو تر کی ، ملایشیاء اور پیرس بنا دیں
گے ۔دس سا لوں میں عوام کو صاف پانی تو درکنار عام پانی بھی نہیں دیا ،باقی
تو چھوڑ دیں اسلام آباد کیپٹل میں پانی ٹینکروں سے لانا پڑتا ہے۔ ہسپتالوں
کی پوزیشن یہ ہے کہ آپریشن اور علاج کے لئے اٹھ اٹھ ماہ اور سال سے زیادہ
کا وقت دیا جاتا ہے ۔ بیڈ لینے کیلئے بھی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بازاروں
میں کم اور OPDمیں زیادہ لوگ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں
پاکستان کے عوام ان حکمرانوں سے تنگ ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود
ہوگئی جبکہ ن لیگ پنجاب تک رہ گئی ہے ۔
آج اگر جائز ہ لیا جائے کہ سند ھ میں اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن کیا ہے
تو پیپلزپارٹی سے عوام انتہائی نالاں ہوچکے ہیں جس کا اظہار پہلے صرف شہروں
میں کیا جاتا تھا اب دیہات میں بھی ان کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ شہروں
میں پیپلز پارٹی کو پہلے بھی کم ووٹ دیے جاتے تھے لیکن اب دیہات میں ان کے
خلاف قوم پر ستوں نے اتحاد کیا ہے جس نے پی پی پی کی مشکل میں مزیداضافہ
کردیا ہے اب لگتا یہ ہے کہ سندھ میں متحدہ پارٹیوں کی حکومت بننے گی ۔پیپلز
پارٹی سندھ سے بھی فارغ ہورہی ہے۔
پنجاب کی بات کی جائے تو ن لیگ نے ختم نبوت قانون میں ترمیم ، نواز شریف کی
نااہلی ، پنجاب میں عوام کے بنیادی مسائل ، پورے پنجاب کا بجٹ صرف لاہور پر
خرچ کر نے سمیت ن لیگ میں بغاوت ، ارکین کا دوسرے پارٹیوں میں جانا اور
نواز شریف کے بیانیہ جو اداروں خصوصاً فوج اور عدلیہ کے خلاف نے رہی سہی
کسر پوری کردی ۔ نواز شریف پر کرپشن کاثابت ہونا اور اداروں کے خلاف بیان
بازی نے پنجاب کے عام لوگوں کو ن لیگ سے متنفر کردیا۔ جنوبی پنجاب کے ہر
الیکشن میں منتخب ہونے والے ارکان کا پی ٹی آئی میں شمولیت نے ن لیگ کو
کمزور اور پی ٹی آئی کو مضبوط کر دیا ہے ۔
46ارکان اسمبلی جنوبی پنجاب سے منتخب ہوتے ہیں جن میں ریسرچ کے مطابق آسانی
سے تیس سیٹیں تحر یک انصاف جیت سکتی ہے ۔ اس طرح سنٹرل پنجاب میں 96سیٹیں
ہے جن میں بعض جگہوں پر جو دیہی علاقوں پر مشتمل ہے ان میں ن لیگ کی پوزیشن
مضبوط ہے جبکہ شہری علاقوں پر مشتمل سیٹوں میں پی ٹی آئی آگے ہے۔اس طرح بعض
سیٹوں خصوصاً لاہور ، فیصل آباد وغیرہ میں سخت مقابلہ ہوگا۔ ن لیگ نے پانچ
سال وفاق اور دس سال حکومت پنجاب میں کی لیکن کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر
عوام ان کو دوبار ووٹ دے گی یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی اور قومی اسمبلی
کی اکثر نشستیں جس میں اسلام آباد ، راولپنڈی ،اٹک، ٹیکسلا شامل ہے ۔90فی
صد پی ٹی آئی مضبوط ہے تو پنجاب میں کچھ آزاد ارکان کو مل کر پی ٹی آئی
آسانی کے ساتھ حکومت بنا نے کی پوزیشن میں ہوگی ۔اس طرح بلوچستان میں عوامی
پارٹی زیادہ نشستیں لے گی وہاں پر ان کی متحدہ حکومت بننے گی پی ٹی آئی کو
بلوچستان سے تین چار نشستیں مل سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں پر تمام پارٹیوں کے مقابلے میں تحر
یک انصا ف مضبوط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں
،لکی مروت، کرک ،ٹانک میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی ہے ان کی دوسری جگہوں
پر کوئی خاص ووٹ نہیں ہے وہاں لکی مروت ، کرک میں پی ٹی آئی زیادہ مضبوط ہے
جبکہ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پی ٹی آئی کی مضبو امیدواروں کی وجہ سے
مجلس عمل کے ساتھ سخت مقابلہ ہوگا۔ اس طرح نوشہرہ پشاور تو تقریباً سارااور
صوابی ، مردان، چارسدہ میں تحر یک انصاف پہلے سے بہت زیادہ مضبوط دکھائی دے
رہی ہے یہاں پربھی زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کی آئے گی ۔یہاں پی ٹی آئی کا
عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مقابلہ ہوگا جبکہ بعض سیٹوں پر ایم ایم اے کے
ساتھ بھی ہوگا۔ایبٹ آباد اور ہری پوری میں ن لیگ کے ساتھ جبکہ مالاکنڈ سوات
میں ایم ایم اے ، ن لیگ ، پی پی پی اور اے این پی کے ساتھ مقابلہ ہوگا جس
میں زیادہ تران پارٹیوں نے تحر یک انصاف کے خلاف سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے لیکن
باوجود اس کے زیادہ تر عوام پی ٹی آئی کے حق میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحر یک
انصاف اس دفعہ پختونخوا میں اپنی کارکردگی کے بنیاد پر زیادہ سیٹیں جاتیں
گی اور صوبے میں دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی ۔ قبائلی علاقوں
میں عمران خان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے ۔ قبائل کے بارہ سیٹوں میں کم ازکم
چھ سیٹیں پی ٹی آئی کی ہوگی اور اس طرح میر ے ریسرچ کے مطابق تحریک انصاف51
سیٹوں میں پختونخوا سے 28سے35سیٹیں قومی اسمبلی کی جیت سکتے ہیں۔ مجموعی
طور پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی مقبولیت ہر جگہ قائم ہوئی ہے جو وفاق
میں حکومت بنانے کیلئے دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ آسان پوزیشن میں
ہوگی لیکن اگر اس دفعہ انتخابات شفاف ہوئے جس کا امکان زیادہ ہے کہ فوج کے
جوان ڈیوٹی دیں گے جس سے ایک طرف ووٹنگ درست طریقے سے ہوگی، لڑائی جھگڑے
بھی نہیں ہوں گے اور کسی کو دھاندلی کا موقع بھی نہیں ملے گا لیکن اس کے
باوجود ن لیگ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں دھاندلی کی کوشش کریں گی
ان کے لوگ ہر جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اداروں کو تو مضبوط نہیں کیا
البتہ ہر جگہ پر سفارشیوں کو ضرور بیٹھایا ہے ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ انتخابات
پرامن صاف اور شفاف طریقے سے ہوجس سے وہ حکومت بنے جو ملک وقوم کے لئے بہتر
ہو۔ عوام اس پارٹی کو ووٹ دے جنہوں نے اپ کے مسائل خصوصاً گلی محلوں کی
تعمیر وترقی کیساتھ ساتھ، تعلیم ، صحت پر کام کیا ہو، نوکریاں پیسوں پر نہ
دی ہو۔ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں سے بچنے کا بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ ہم
سب ووٹ ڈالے اور ملک میں نئی حکومت کو موقع دیں۔ |