عالمِ اسلام میں مستقل قیام امن کیلئے اتحاد ناگزیر۰۰۰

 اسلامی ممالک میں مستقل قیام امن کیلئے عالمِ اسلام کااتحاد وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ظلم و بربریت کے پہاڑ انسانی وجود کے بعد سے ڈھائے جانے لگے کبھی کسی ایک فرد پر تو کبھی قبیلہ و قوم اس کا شکار ہوئی۔ آج جو دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے یہ بھی ظلم و بربریت کا ہی ایک دوسرا نام ہے جس کا سلسلہ شاید قیامت تک جاری رہے گا۔ ظلم و بربریت یا دہشت گردی ظالم حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے حصول کیلئے کی تو کبھی اقتدار کے نشے میں عوام کو بے دریغ دہشت گردی کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا۔صدیوں سے ظالم حکمرانوں نے دہشت گردی کے سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے اوراس کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے یا بتانے، اپنی طاقت و قوت اور شان و شوکت دکھانے اور اسکے ذریعہ خوف و ہراس کا ماحول بنائے رکھنے کیلئے عصری ٹکنالوجی سے لیس ، خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے بے قصور ، عام لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے ہلاک و زخمی کررہے ہیں جبکہ اسلام، امن و سلامتی کے ماحول کو بنائے رکھنے کی ترغیب دیتا ہے ، پیغمبر اسلام ﷺنے مسلمانوں کویہ درس دیا ہے کہ فاتح بننے کے بعد بھی عجزو انکساری اور ادب و اخلاق کا بہترین نمونہ بن کر دشمنانِ اسلام کو بتائیں تاکہ اس سے اسلام کی حقیقت آشکار ہوسکے ۔ دہشت گرد اصل میں کون ہیں، کس وجہ سے امن و اسلامتی اور خوشحالی زندگی بسر کرنے والے شہروں میں دیکھتے ہی دیکھتے تباہی و بربادی اور ظلم و بربریت کا ماحول بنادیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں دنیا بخوبی جانتی ہیکہ اصل دہشت گرد کون ہیں اور کس وجہ سے یہ ساری دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے۔ دنیا نے گذشتہ چند برسوں کے دوران دیکھا ہے کہ عالمِ اسلام کے ممالک میں کس طرح دہشت گردی کا ماحول بنایا گیا اور پھر مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد بتاکر ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔ تجزیہ نگاروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو معلومات فراہم ہوتی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ کس طرح عام مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے اور جب اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے یا اس کے خلاف احتجاج ہوتا ہے تو کس طرح انہیں گرفتار کرکے اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ کہیں مسلمانوں کو دہشت گرد بتا کرانکے رہائشی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہیں انہیں گرفتار کرکے ایسی ایسی سزائیں دی جاتی ہیں کہ آئندہ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں اس کے خلاف آواز نہ اٹھے اور نہ اسکے خلاف کسی قسم کا احتجاج یا مذمت ہو۔دشمنانِ اسلام تو ہر صورت میں مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یا پھراسے تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں لیکن آج کئی اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پر اقتدارپر براجمان رہنے کیلئے انکے خلاف کسی قسم کی آواز سننا پسند نہیں کرتے ۔ اگر کہیں سے کسی نے ذرا سا بھی کچھ کہہ دیا تو پھر اسکی جو سزا ہوتی ہے وہ سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج اسلامی ممالک کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان ممالک میں رہنے والے کس طرح اپنے ظالم حکمرانوں کے عتاب سے ڈرتے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ حکومت اور حکمراں کے خلاف کچھ کہے۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مدّمقابل چاہے وہ اسکا کتنا ہی قریبی ساتھی یا رشتہ دار ہو حکومت کا نمائندہ ہو۔ یہی ڈر و خوف ہیکہ عالم اسلام میں ان دنوں بہت ہی کم حکمرانوں کے خلاف کسی قسم کا احتجاج دکھائی دیتا ہے۔ عراق، افغانستان، شام، یمن، مصر،پاکستان اور کئی ممالک کی تاریخی اوراق کی ورق گردانی کیجئے پتہ چل جائے گا کہ ہمارے اپنے ہی کس طرح دشمنانانِ اسلام کو مواقع فراہم کئے ہیں آج اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا بھر میں ذلت کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں۔ مسلمانوں آپس میں انتشار کا شکار ہے ، جس مذہب اسلام نے مسلمانوں کو اتحاد کا درس دیا ہے آج وہی درس مسلمان بھلا بیٹھے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اس درس اسلامی پر کاربند ہیں۔ مملکتِ سعودی عربیہ جس پر امتِ مسلمہ کو ناز تھا کہ یہاں سے مسلمانوں کیلئے ایسی آواز بلند ہوگی کہ دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے خلاف کچھ کہنے ، کرنے کی ہمت نہیں کرپائے گی لیکن امتِ مسلمہ کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا کیونکہ مملکت کے حکمراں بھی اپنے پڑوسی اسلامی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ دشمنانِ اسلام نے ایسی سازش چلی ہے کہ ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر چکا ہے۔ ملک شام اور یمن کے حالات بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں جبکہ افغانستان اور پاکستان میں آئے دن خودکش حملے ، بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات روز کا معمول بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں25؍ جولائی کو عام انتخابات ہونے والے ہیں اس سے قبل جس طرح پاکستان میں خودکش حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے وہ بھی اپنے ملک میں ظالم دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ نام نہاد جہادی تنظیمیں بشمول تحریک طالبان پاکستان ہو کہ داعش ،انکی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کتنے مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے اور نہیں معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ یہ توان تنظیموں کی بات ہوئی جن کا شائد اسلام سے کوئی واسطہ نہیں لیکن یمن اور شام کے ان مظلوموں پر کس کی جانب سے حملے ہورہے ہیں لاکھوں مسلمان ہلاک ، زخمی اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان مظلوموں پر ظلم و بربریت کس طرح ڈھائی جارہی ہے اس کا علم بھی دنیا کو ہے ۔مسالک کے نام پر شام، یمن عراق وغیرہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف ایران، لبنان کی حزب اﷲ، شیعہ ملیشیا ، شام، یمن اور عراق پر حملے کررہے ہیں تو دوسری جانب سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے حکمراں عبدربہ منصور ہادی اور شام کی اپوزیشن کو جس طرح بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کرنے اور یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اس میں بھی کئی بے قصور افراد بشمول معصوم بچے ، مردو خواتین اور ضعیف افراد ہلاک ہورہے ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود عالم اسلام کے حکمراں اپنی صفوں میں اتحاد کو ترجیح دینے کے بجائے جنگ کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں گذشتہ دنوں سعودی عرب اور قطر کے درمیان پھر حالات خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قطر میں2022میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کوکسی نہ کسی طرح روکا جائے کیونکہ اگر قطر میں فٹبال ورلڈ کپ ہوتا ہے توقطر کیلئے ایک نئی تاریخ ہوگی اور یہ اس کی کامیابی کا ایک زینہ بھی ثابت ہوگا اسی لئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، مصر وغیرہ قطر میں ہونے ولے ورلڈ کپ کو کسی نہ کسی طرح روکنے کی کوشش کریں اب یہ الگ بات ہے کہ اس میں کون کامیاب ہوتے ہیں اور کون ناکام یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اسلامی دنیا سے مملکتِ سعودی عربیہ کے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے افغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے اہم کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے ۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب میں دوروزہ بین الاقوامی علماء کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں میزبان سعودی عرب کے علاوہ مصر، انڈونیشیا، پاکستان سمیت کئی ممالک کے 105علماو مشائخ نے شرکت کی۔اس موقع پر شاہ سلمان نے امن سے متعلق مسلم علماء کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں مستقل قیامِ امن کیلئے کردار ادا کرے اور طالبان پر زور دیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو قبول کریں،اجلاس میں افغانستان میں باہمی ہم آہنگی اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔کانفرنس کے 7 نکاتی اختتامی اعلامیہ میں افغانستان میں قیام امن اور باہمی اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینے پر زور دیا گیا اور خودکش حملوں کی بھرپور مذمت کی گئی۔اعلامیہ میں افغان حکومت اور طالبان سے جنگ بندی اور مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا۔طالبان سے افغان صدر اشرف غنی لون نے عیدالفطر کے موقع پر سہ روزہ جنگ بندی کے بعد اس میں مزید اضافے خواہش کی تھی لیکن طالبان قیادت نے اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنی کارروائیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔عالمی سطح پر افغان طالبان سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن اس میں کامیابی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ انسانیت کے دوست اور دشمن میں تمیز کرنا اب کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ اسلام نے انسانیت کی قدر کا درس دیا ہے لیکن اسلامی ممالک میں جو حالات دیکھنے میں آرہے ہیں اس سے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یمن کی خفیہ جیلوں میں بند قیدیوں سے متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے سلوک جنگی جرائم ہیں۔14؍ جولائی کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں یمن میں متحدہ عرب امارات کی خفیہ جیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اقدامات جنگی جرائم ہیں اور اس سلسلے میں فوری تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہئے،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یمن میں متحدہ عرب کے فوجی اپنی بنائی ہوئی خفیہ جیلوں میں قیدیوں کو شدید ترین ایذائیں دے رہے ہیں،جنوبی یمن میں 18خفیہ جیلیں ہیں جنھیں متحدہ عرب امارات اور اس کے اتحادی ملکوں کے فوجی چلارہے ہیں اور ان جیلوں میں 2ہزار سے زائد یمنی شہری قید ہیں،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ابھی حال میں یمنی عوام کیساتھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے سلوک اور وحشیانہ اقدامات کو جنگی جرم قراردے چکی ہے،مذکورہ تنظیم نے اپنے بیان میں اعلان کیا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن کے مغربی شہر الحدیدہ کی جس طرح سے ناکہ بندی کی ہے وہ جنگی جرم ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ ان لوگوں کیخلاف تادیبی کارروائی کرے جو الحدیدہ میں انسان دوستانہ امداد پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زور دے کر کہا کہ سعودی عرب کو یمنی عوام تک بنیادی ضرورت کی اشیا نہ پہنچنے دینے کے اپنے اقدامات سے باز آجانا چاہئے ،سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے گذشتہ ماہ 13جون سے یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر قبضہ کرنے کیلئے وسیع حملے شروع کئے ہیں،یہ بندرگاہ یمن کے محصور عوام تک انسان دوستانہ امداد پہنچنے کا واحد راستہ ہے،سعودی عرب نے امریکہ اور اپنے دیگر اتحادیوں کیساتھ مل کر مارچ 2015ء سے یمن پر وحشیانہ حملے شروع کررکھے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق عام شہریوں کے قتل عام کے سوا سعودی عرب کو اسکے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے جنوبی علاقے میں امریکی اتحادی فورسز نے داعش کے آخری ٹھکانے پر فضائی حملہ کیا جس میں 54افراد ہلاک ہوگئے ، ہلاک ہونے والوں میں عام شہریوں کی تعداد30بتائی جارہی ہے جبکہ دیگر داعش کے جنگجو بتائے جارہے ہیں۔ شامی مبصرین کے مطابق اس سے قبل عراقی جنگی جہازوں نے شام کے جنوبی علاقے میں داعش کے خلاف حملے کیے ہیں جبکہ اتحادی فضائی جہازوں کو کردش جنگجوں کی حمایت حاصل ہے، داعش کی صفوں میں شامی اور عراقی جنگجوشامل ہیں۔امریکی حملے کے بعد دمشق میں وزارت خارجہ نے اتحادی فورسز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی فوجیں شامی شہریوں کو مارنے اور انفرانسٹرکچر تباہ کرنے کو اپنی کامیابی سمجھ رہی ہیں۔اقوام متحدہ نے شام کے جنوب مغربی علاقے کی صورتحال کو دھماکہ خیز قرار دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ 3لاکھ سے زائد افراد شام کے جنوب مغربی علاقے میں گھمسان کے معرکوں سے متاثر ہورہے ہیں،ان کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں۔ریڈ کراس نے متاثرین کی بنیادی ضرورتوں کی ابتدائی فہرست تیار کرلی ہے۔اقوام متحدہ کے ماتحت انسانی امور کے ادارے کی ترجمان نے اس امر پر زور دیا کہ تمام ضرورت مندوں کو انسانی امداد بغیر کسی رکاوٹ کے محفوظ شکل میں پہنچائی جانی ضروری ہے۔ انہو ں نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے اپنے شرکائے کار کے تعاون سے 8630 افراد کو کھانے پینے کا سامان فراہم کیا اور اب وہ درعہ ، السویداء اور القنیطرہ میں مزید امدادی سامان کی تقسیم کا کام کررہے ہیں۔عراق میں حکومت مخالف احتجاج ملک بھر میں پھیلنے کی اطلاعات ہیں، احتجاجی سرکاری تنصیبات پر حملے کررہے ہیں۔عراق میں دو روز قبل بصرہ شہر سے شروع ہونے والا احتجاج ملک کے کئی دوسرے شہروں تک پھیل گیا ہے۔ ’العربیہ‘ اور ’الحدث‘ نیوز چینلوں کی رپورٹس کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں میسان گورنری میں ایک شخص ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔اس کے علاوہ شہر بابل، بصری، نجف، ذیقافر، بغداد الناصریہ حکومت کی خراب کارکردگی کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ الناصریہ اور بغداد شہروں میں مظاہروں کے دوران فائرنگ کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔خیال رہے کہ عراق میں دو روز قبل ملک میں بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ احتجاج ایک ایسے وقت میں شروع ہوا جب وزیراعظم حیدر العبادی بیرون ملک دورے پر تھے وہ اپنا دورہ مختصر کرکے برسلز سے واپس بصرہ پہنچ گئے۔غرض کہ ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالات کشیدہ ہیں جس کا فائدہ امریکہ ، روس اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر عالمِ اسلام کی کوئی ایسی شخصیت یا حکمراں مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے اٹھنے کی ضرورت ہے ورنہ مسلمان مستقبل قریب میں معاشی اعتبار سے مزید پسماندگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کاش امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے با اثرمسلم شخصیات، مسلم حکمرانوں کے درمیان پائی جانے والی خلش کو ختم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کریں۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.