معیشت ، ملازمتیں اور مکانات

جوں جوں 25 جولائی کا فیصلہ کُن دن قریب آرہا ہے ، اُسی رفتار سے اُمیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کو تیز تر کردیا ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے انہوں نے عوام سے وعدے وعید وں کا ناتمام سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کی کاپیاں پرنٹ کروالی ہیں اور پریس کانفرنسوں کے دوران ہاتھوں میں تھام کر عوام اور میڈیا کے سامنے لہر ا دی ہیں۔ یہاں محض لفظ ’’پرنٹ ‘‘ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ دراصل ہماری سیاسی جماعتیں منشور کی اصل طاقت سے یا تو بے خبر ہیں یا پھر منشور بنانے پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔ انتخابات کے بعد ویسے بھی منشور کی کاپیاں کس کام کی ہوتی ہیں۔ حکمران ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں ، سب نے منشور کو بالائے طاق رکھ دینا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ منشور بناتے وقت تین اُصولوں سادہ ، عام فہم اور مربوط کو مد نظر رکھ نا چاہیے تاکہ کم پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کو آسانی سے سمجھ سکے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی اُصول کارفرما نظر آتے ہیں۔ اس لئے اُن کے ہاں منشور بنانے کے لئے تھینک ٹینک کام کرتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی تھینک ٹینک نہیں ہے البتہ کچھ عہدیدران مل بیٹھ کر منشور تیار کر لیتے ہیں۔ ہم اتنی زحمت بھی گوار نہیں کرتے کہ منشور کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھیں۔ بس منشور کے نکات بنا لیے اور جماعت کے قائد سے دستخط کروا کر پرنٹ کروالیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نے اپنا منشور پیش کیا تو ذہنوں میں ایک ہی سوال اُٹھنے لگا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف اقتدار سنبھال لیتی ہے تو کیا وہ اگلے پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ سستے مکانات تعمیر کرواسکے گی ؟ یا ان نکات کو عوام سے ووٹ بٹورنے ، یعنی سبز باغات دکھا نے کی خاطر منشور میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ سستے مکانات کی تعمیر پر بحث کرنے سے قبل ملکی معیشت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اس وقت ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔نڈھال قومی معیشت پر قرضوں کا مجموعی بوجھ ریکارڈ 29 ہزار 290 ارب روپے ہو چکا ہے ۔ مقامی قرضوں کا بوجھ 17 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جب کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم ریکارڈ دس ہزار سات سو ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے ۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق آئی ایم ایف کا قرض 732 ارب 70 کروڑ روپے ہے جب کہ سرکاری اداروں کے قرضے 996 ارب 40 کروڑ روپے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی اونچی اُڑان جاری ہے جس کے مقابلے میں روپے کی قدر بے قدری کی سطح پر پہنچ چکی ہے ، یعنی ڈالر کی قیمت 128روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس تشویش ناک اور خطرناک صورت حال سے وطن عزیز پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 300 ارب روپے ہوگیا ہے۔ معاشیات کے اُصولوں کی روشنی میں کسی ملک کے قرضوں کی حد ملکی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ ( جی ڈی پی ) کے ساٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جب کہ اس وقت ملک میں قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 83 فیصد کے برابر پہنچ چکا ہے۔ یہ ہے ملکی معیشت کی زبوں حالی کی حالت ، جو 25 جولائی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کو حکمرانی کے تاج کے ساتھ ملے گی۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں اگر ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ سستے مکانات کی تعمیر کے سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو اس کا نہایت مختصر اور سادہ سا جواب ’’نہیں‘‘ ہو گا۔

اَب ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ سستے مکانات پر اُٹھنے والا خرچ بھی ذرا ملاحظہ ہو۔ سب سے پہلے ایک کروڑ ملازمتوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ ملازمتیں کون سے پے سکیل میں دی جائیں گی ؟ کوئی پتہ نہیں۔۔۔فرض کرتے ہیں کہ یہ ملازمتیں درجہ چہارم کی ہیں اور ایک ملازم کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے ماہوار ہو۔ تو اس کے لئے دس کھرب روپے فی ماہ درکار ہوں گے ۔ سالانہ تخمینہ لگانے کے لئے بارہ سے ضرب کریں اور پانچ سال کی تنخواہوں کے لئے حاصل ہونے والی سالانہ رقم کو پانچ سے ضرب کریں۔ یاد رہے کہ اس میں سالانہ انکریمنٹ اور سالانہ بجٹ میں ہونے والے اضافوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ چلیں ! ہم یہ مان لیتے ہیں کہ یہ ملازمتیں پانچ سال کے دوران مرحلہ وار دی جائیں گی، یعنی ہر سال بیس لاکھ۔ پھر بھی آخری سال ان ملازمتوں نے ایک کروڑ تک پہنچ جانا ہے اور یہی اعداد و شمار تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپلائی ہوں گے۔ اَب مکانات کی تعمیر پر اُٹھنے والے اخراجات کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ خیبر پختون خوا حکومت نے سرکاری سکولوں میں ایک نئے کمرے کی تعمیر کے لئے آٹھ لاکھ روپے مختص کئے تھے۔ چوں کہ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی لہٰذا ایک کمرے پر آٹھ لاکھ روپے کی لاگت کو یارڈ سٹک تسلیم کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک مکان دو کمروں ، ایک باورچی خانے اور ایک غسل خانے پر مشتمل ہو تو ایک مکان پر تقریباً بیس لاکھ روپے خرچ آئے گااور پچاس لاکھ مکانات پر دس ٹریلین روپے خرچ ہوں گے۔ یاد رہے یہاں مکانات کے لئے خریدے جانے پلاٹوں کی قیمتیں شامل نہیں کی گئی ہیں کیوں کہ ملک کے مختلف اضلاع میں یہ قیمتیں مختلف ہیں۔ ان تمام حقائق سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ملکی موجودہ معاشی حالات میں ملازمتیں اور مکانات محض سیاسی بیان سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے کیوں کہ ان کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھا ہی نہیں گیا۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.