میں کاروباری اور سرکاری اخبارات اور ان کے لکھاری
صحافیوں سے عموما" صرف نظر ہی کرتا ہوں مگرنہ چاہتے ہوۓ بھی ایک جید صحافی
صاحب کا کالم نظر پڑا. ہوا یوں کہ میں اردو ادب کی ایک ویب سائٹ کی مدد کے
لۓ ان کےمضامین دیکھ رہا تھا. کبھی کچھ قابل اصلاح نظر آجاتا ہے تو انہیں
بتا دیتا ہوں. کم علمی کے علاوہ کسی ہنر کا دعویٰ نہیں..
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب، دشمن آسماں اپنا.
آج کل تقریبا" تمام میڈیا آن لائین آچکا.. جہاں اس کی ان گنت خوبیاں ہیں
وہیں چند خامیاں بھی ہیں اور زندگی کے باقی معاملات کی طرح انہیں بھی
برداشت کرنا پڑتا ہے. پاپ اپس یا اچانک سامنے ابھر آنے والے اشتہارات کہ کئ
دفعہ مضمون میں اور مضموں کی ہوا میں تفریق بھی ممکن نہیں رہتی اور کسی
ایسے ہی ممکنہ غائب دماغی کے لمحے میں ایک اشتہار پر کلک کر بیٹھا جو مجھے
ان حضرت کے کالم پر لے گیا.. ان کے بارے میں میرے جذبات ملے جلے ہیں. میں
ان کے بے محابہ اخلاص اور ایمانداری کی بے تحاشہ قدر کرتا ہوں مگر کئ دفعہ
ان کا تجزیہ اتنا سطحی اور حقیقت سے دور ہوتا ہے کہ ذہن بھول بھلیوں میں
الجھ جاتا ہے حقیقت نگاری زیادہ اہم ہے یا دیانتداری.. کیا حقیقت نگاری اور
دیانتداری ایک دوسرے کے سوا بھی ہو سکتے ہیں؟
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلو بند؟
جس طرح اقبال نے تمام مردوں کو یہ سوال پوچھ کر ایک عجب مخمصے میں ڈال دیا
تھا. مردوں ہی کو اس لۓ کہ خواتین کا ذہن الجھتا کم ہی ہے انہیں انتہائ
وضاحت سے یہ معلوم رہتا ہے کہ کیا، کیا ہے اور کب ہے..
یہ حضرت ایک کیانی صاحب کو جو اس قوم کے ساتھ انتہائ کمینگی کا ہاتھ کر چکے
ہیں (انشاءاللہ کبھی اس پر بھی تفصیل سے لکھوں گا) تقریبا" صلاح الدین
ایوبی ہی کا درجہ عطا فرما چکے ہیں. شاید 5 جولائ کی مطابقت میں ایک مضمون
لکھا جس میں جنرل محمد ضیاءالحق کو ایک انتہائ بردبار، شریف النفس اور قوم
کا خیرخواہ کے طور پر پیش کیا..
جنرل ضیاءالحق جس نے 5 جولائ 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ
الٹ کر اقتدار پرقبضہ کر لیا تھا. یہ وہی ضیاءالحق ہے جس نے اردن میں
تعیناتی کے دوران جتنے فلسطینی مارے اسرائیلیوں نے بھی نہیں سوچا ہو گا..
وہی محمد ضیاءالحق جسے بھٹو نے انتہائ منکسرالمزاج اور مسکین سمجھتے ہوۓ
دوسرے بادشاہوں کی طرح اس کی باری سے پہلے ہی ترقی دے کر جنرل بنا دیا. بہت
سے سینیر جرنیلوں کو نظرانداز کر کے.. جس طرح ایوب خان سمجھتا رہا کہ زلفی
بیٹا (وہ بھٹو کو پیار سے یہی کہتا تھا) اس کا انتہائ وفادار ہے جب تک کہ
بھٹو نے اس کی جڑیں پوری طرح نہیں کاٹ دیں جو پھر حضرت ضیاءالحق نے اس کے
ساتھ بھی بالکل یہی سلوک کیا. لکھنے چلیں تو دفتر بھر جائیں کتابوں کی
کتابیں لکھی جائیں مگر نہ دل ناتواں میں اتنا زور ہے نہ جگر میں اتنا حوصلہ
کہ محلاتی سازشوں، شکستگئ عہدوپیمان اور حرص و ہوس کی شرمناک داستانیں لکھ
سکوں.
5 جولائی ہے تو توجہ مرکوز رکھتے ہیں ان صاحب کی مدح سرائی بحق ضیاءالحق پر.
فرماتے ہیں کہ ضیاءالحق ایسا برا بھی نہیں تھا. اس میں برائیاں تھیں تو
خوبیاں بھی تھیں مجسم اخلاق تھا سراپا شجاعت تھا اور بھارت پہ قابو بھی کۓ
رکھا اپنے تدبر اور حکمت عملی سے..
اگر مجھے ذرا سا بھی شک ہوتا کہ یہ صاحب کوئ نشہ کرتے ہیں تو میں اس تخریب
کو ان کے کمزور لمحوں کی 'تخلیق' سمجھ کر در گزر کر دیتا مگر یہ باریش
منکسرالمزاج مرنجاں مرنج صحافی جیسا کہ میں نے عرض کیا 'اندازے کی غلطی'
میں اپنا ثانی نہیں رکھتے. جو لوگ 50 اور 60 کی دھائیوں میں پیدا ہوۓ ان کا
بچپن اور پھر جوانی بھٹو اور ضیاءالحق کی چالاکیوں بدمعاشیوں اور سازشوں کا
براہ راست یا بالواسطہ شکار ہوتے گذرا.. انہوں نے بھٹو کی بدمعاشیاں
ضیاءالحق کے صاحب کردار ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کی ہیں اسی طرح جیسے
انہوں نے مشرف کی بدمعاشیاں اور مکاریاں کیانی کے صلاح الدین ایوبی ہونے کے
ثبوت میں پیش کی ہیں..
طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
بھٹو اپنی نوعیت کا ایک انتہائ ذہین فطین اور شاطر آدمی تھا اور اس کی
نوعیت کے سیاستدان پورے برصغیر تو کیا پوری دنیا میں بہت کم ہوں گے اس نے
اپنی رعونت اور منافقت سے اپنی تباہی کے سب سامان پیدا کۓ (کیانی کی طرح
بھٹو کی تفصیل بھی کسی اور محفل میں ). ابھی ہم مرد مومن مرد حق پر اپنی
توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو منافقت، محلاتی سازشوں، احسان فراموشی، کمینگی اور
ظلم میں اپنا کوئ ثانی نہیں رکھتا تھا.. ضیاءالحق نے بظاہر اپنے لبوں پر
تبسم رکھتے ہوۓ اور روایتی 'رواداری' کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے مخالفین کے
ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا اس کی مثال شمالی ہندوستان کی خوں آشام
تاریخ میں بہت کم ملتی ہے.. اس نے بھٹو کے بوۓ ہوۓ مذہبی زہر کے پودے کی
نشوونما کر کے اسے ایک تناور درخت میں تبدیل کر دیا. اس نے مذہبی منافرت،
فرقہ وارانہ، علاقائی، اور نسلی تعصب پورے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلا
دیا. کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کا بانی ضیاءالحق ہمارے منافق معاشرے کے
منافقوں کے لۓ ایک مسیحا تھا.. اس نے اسلامی شعائر اور اسلامی سزاؤں کو اس
معاشرے میں نفرت منافقت اور ٹھٹھے کی ایک انمٹ مثال بنا دیا.
ضیاءالحق نے مذہبی انتہاء پسندی اور ظلم کا جو بیج بویا اس کے تناور درخت
آج زہریلے پھل دے رہے ہیں جو ہمارا معاشرہ کھانے پر مجبور ہے. سنی، شیعہ،
پنجابی، پختون، مہاجر، سندھی انتہا پسند سب ضیاءالحق کے زمانے میں پروان
چڑھاۓ گۓ. کوڑھ مغز بددیانت ذہنی اپاہج سیاستدان بھی ضیاءالحق ہی کی دین ہے
آج جس کرپشن کا عفریت ہمیں نگل رہا ہے اس کی بنیاد ضیاء ہی نے رکھی. معاشرے
میں جھوٹ، جرائم اور حرام کاری کو عروج ضیاء کے زمانے ہی میں ملا. قوم کے
نوجوانوں سے امید، مواقع، آزادی اور مستقبل چھین لیا گیا اور ہیروئین کے
سمگلروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو شیروانیاں پہنا کرہمارے سروں پر بطور
رہنما مسلط کردیا گیا اور ابھی تک وہ منافق ہمارے سینوں پر مونگ دل رہے
ہیں..
جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق ہے میں زیادہ کچھ نہیں کہتا مگر اس دور کے کئ
سکینڈلز جو صحافیوں اور میڈیا پرضیاء حکومت آہنی شکنجے سے نکل کر سامنے آ
سکتے تھے، سائیں سچا کی کتاب Snake eyes اورGeorge Crile III کی بیسٹ سیلر
کتاب Charlie Wilson's War جو امریکہ کے سینیٹراور افغان جنگ (جسے بے شمار
مسلمانوں کو فریب دینے کے لۓ جہاد کہا گیا تھا) کے بارے میں ہے اور انتہائ
خوبصورت سماجی طور پر بہت متحرک امریکی حسینہ جوآن ہیرنگ جسے مردمومن، مرد
حق، ضیاءالحق، ضیاءالحق نے پاکستان کی اعزازی کونسل جنرل بھی بنا رکھا تھا
کی (غیر) اخلاقی حرکات، اوراوجھڑی کیمپ کے حادثے کے پس منظر میں ایرانیوں
کو بیچے جانے والے سٹنگر میزائیل اور اس حاصل ہونے والی رقم کی سپہ سالار
اعظم اور ان کے نائبین میں تقسیم کے بارے میں تحقیق کریں. اس دور میں ہونے
والی بے شمار بزنس ڈیلز جن میں لاہور کے ایک انتہائ اہم ہوٹل کی خریدوفروخت
جس میں شہنشاہ صاحب کے خاندان کے پیسے بنانے کے واقعات شامل ہیں..
اپنے اقتدار کو طول دینے کے لۓ ضیاءالحق نے امریکی جنگ لڑی اور اسے دھوکہ
دھی اور منافقت سے اسلامی جہاد کا نام دیا مذہبی تنظیموں، مساجد، مدرسوں کو
اسلحہ اور جرائم کا گڑھ بنا دیا گیا.. اسامہ بن لادن جیسے عفریت اور انتہا
پسند اسلامی بیانیہ کو یہیں سے عروج ملا.. ضیاءالحق اس قوم پر بھٹو کے
سوشلزم سے َ-جو کہ ایک منافقانہ نعرہ اور سوشلزم کی بھونڈی ترین شکل تھی -
نجات پانے کے لۓ ہم پرامریکیوں کی طرف سے مسلط کیا گیا تھا. اس نے ایک
نظرئیے سے جس نے مغرب کی نیندیں اڑا رکھی تھیں جان چھڑا کر ہم پر ایک اور
نظریہ مسلط کر دیا جس نے اب ہماری نیندیں اڑا رکھی ہیں..
ضیاءالحق ہی کے دور میں فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں انتہائ شدید کمی
آئی. اس میں کاروباری عناصر نے زور پکڑا اور فوج بھی باقی طبقوں کے ساتھ مل
کر مال بنانے کی دوڑ میں نہ صرف شامل ہوئی بلکہ. سب سے آگے نکل گئی. ایک
پروفیشنل ایجنسی ایک انتہائی طاقتور 'حساس ادارہ' بن گئ جس نے باہر زیادہ
بزنس نہ ہونے اور بے انتہاء ریسورسز ہونے کی وجہ سے اپنے ہی شہریوں اور
اداروں کو فتح کرنا، ان کی دن رات نگرانی کرنا اور سر کش عناصر کوجو ان کے
احکامات یا طریقے کے مطابق نہیں چلتے تھے، کنٹرول کرنا شروع کر دیا.
ضیاء کی خوش قسمتی اور پاکستان کی بدقسمتی سے روس نے افغانستان میں اپنی
فوجیں اتار دیں اور ضیاء کو من مانی کرنے کا لائیسنس مل گیا. جسے میرے فاضل
کالم نگار دوست ضیاء کی حکمت عملی فرما رہے ہیں وہ دراصل انڈیا پر امریکی
دباؤ تھا امریکی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے غلاموں کی توجہ جو روس سے ان کی
جنگ لڑ رہے ہیں انڈیا کے کسی قدم کی وجہ سے بٹے اور امریکیوں کو کوئ نقصان
اٹھانا پڑے.
ضیاءالحق نے بددیانت اور بے ایمان سیاستدانوں کی ایک فوج ظفر موج تیار کی
جس نے آج تک اس ملک پر اپنا کنٹرول ختم نہیں ہونے دیا پچھلی 3 نسلوں اور
شاید آنے والی تین نسلوں پر ضیاء کی سازشانہ اور منافقانہ پالیسیوں کے
اثرات رہیں گے جنہوں نے پاکستان کو تباہی اور اس کی تین نسلوں کو بربادی کے
دھانے پر لا کھڑا کیا.
میں پاکستان کے اور بین الاقوامی علمی اور تحقیقی حلقوں کو دعوت دیتا ہوں
کہ اس دور کے حقائق، حالات اور واقعات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں..
کتابیں لکھیں اور مختلف Stakeholders کو اس میں شامل کریں تاکہ تاریخ کے اس
انتہائ اہم دور کے بارے میں ہمیں، آیندہ آنے والی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ
آگاہی ہو - |