ہیر و- لیڈر

کسی نے سچ کہا ہے کہ ہر ہیرو لیڈر نہیں ہوتا مگر ہر لیڈر ہیر و ہوتا ہے۔ ہیرو ایکشن اور ری ایکشن کی پیداوار ہوتے ہیں اور انکا ایک خاص علاقہ اور وقت ہوتا ہے۔ لیڈڑ ہردو ر میں لیڈر ہی رہتا ہے اور اُسے کبھی موت نہیں آتی بلکہ مرنے کے بعد وہ ہیرو اور آئیڈل بن جاتا ہے ۔اس کے کردارو عمل کا علاقہ وسعت اختیار کرلیتا ہے اور وہ بلا تفریق مذہب ، ملت و ملک لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں۔ و ہ مثالی کردار بن جاتا ہے اور ہر دور کے مورخین اس کے کام اور کردار کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ ایسے لیڈروں سے بھری پڑی ہے جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں ، علمی و عقلی دلائل ، ادبی ، حربی ، فنی اور روحانی قوتوں اور بے مثا ل کارناموں کی وجہ سے عالمیگر انسانی معاشرے کے لیے باعث تقلید ہیں۔

ماضی قریب اور زمانہ حال میں دیکھیں تو انسانی معاشرے میں قائداعظم ؒ جیسا لیڈر اور ہیرو پیدا نہیں ہوا۔ قول و فعل میں یکسانیت ، علم و فضل ، بردباری و تحمل مزاجی ، سیاسی بصیرت اور اصول پرستی، دینی اقدار کی پاسداری اور دور اندیشی ، عالمی حالات و معاملات سے آگاہی ، انسانی ہمدردی اور اعلیٰ اخلاقی صلاحیتوں کی حامل ایسی کسی شخصیت پر نظر نہیں پڑتی۔ کسی نے سچ لکھا کہ کچھ لوگ تاریخ کا رخ بدلتے ہیں اور کچھ جغرافیائی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں مگر قائداعظم ؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف تاریخ کا رخ بدلا بلکہ ایک اسلامی نظریاتی ملک بنا کر دنیا کا جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔

بہت سے دانشور اسرائیل کا پاکستان سے موازانہ کرتے ہیں مگر اسرائیل کسی بھی لحاظ سے ایک نظریاتی ریاست نہیں ۔ صہونی اور اسلامی نظریے میں فرق ہے۔ اسرائیل کے قیام میں جو عوامل کار فرما تھے اور جس نظریے پر اسرائیل کا قیام وجود میں آیا اسے کسی بھی صورت پاکستان سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ۔ قیام پاکستان میں قائداعظم ؒ کو جو مشکلات پیش آئیں اُنکا موازنہ کسی اورسے نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ جو راز آپ اپنے دشمن سے چھپانا چاہتے ہو اُسکا اپنے دوست سے بھی ذکر نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ جو آج آپکا دوست ہے وہ کل دشمن بن جائے ۔ رازوں کی پاسداری اور مشاورت میں فرق ہے۔ قائداعظم ؒمشاورت کے قائل تھے مگر راز کبھی افشاں نہ کرتے تھے۔ قائداعظمؒ نے وائسرائے ہند ، نہرو، گاندھی اور پٹیل سمیت جتنے لوگوں سے مذاکرات کیے اور جس انداز سے کیے وہ مذکرات کی ٹیبل سے پہلے کسی دوست یا دشمن کے سامنے عیاں نہ کیے۔ یہی وجہ تھی کہ مذاکرات کے ہر دور میں قائداعظم ؒ کا میاب ہوئے اور مخالفین کی کوئی چال کارگرثابت نہ ہوئی۔

قائداعظمؒ کے بعد حسین شہید سروردی ایسی شخصیت تھے جنہیں قائداعظم ؒ کا پاکستان چلانے اور اسے عظیم تر بنانے کا ہنر آتا تھا۔ مگر مفاد پرست سیاستدانوں اور ہوس پرست بیورکریسی نے اس ہیرو اور لیڈر کی قدرنہ کی اور ایک نایاب ہیرا مفاد پرستی کی دلدل میں پھینک دیا ۔ آخری ایام میں جناب حسین شہید سہروردی نے ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے مشرقی اور مغربی پاکستان متحد رہ سکتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ عالمی سطح پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ اگر اس منصوبے کا توڑ نہ کیا گیا تو بہت جلد ملک دو لخت ہو جوئے گا جسکا ذمہ صرف بنگالیوں پر نہ ہوگا ۔ کچھ مغربی پاکستانی سیاستدان اور بیوروکریسی اس حادثے کے رونما ہونے میں معاون کردار ادا کرے گی ۔ آخر میں لکھا کہ ہو سکے تو خود آکرملاقات کرویا پھر کسی جگہ آکر مجھے بلالو ۔ مگر ایوب خان طاقت کے نشے میں مدہوش تھا ۔اُسے اب ملک کی کم اور اپنی اولاد کی زیادہ فکر تھی ۔

حسین شہید سہروردی کے بعد بہت سے حکمران آئے مگر کوئی لیڈر نہ آیا اور نہ ہی کوئی ہیرو پیدا ہو۔ بے نظیر کے دونوں ادوار اور نوازشریف کے تینوں ادوار میں ملک کمزور ، معیشت تباہ اور ملکی وقار پر کرپشن بد یانتی ، جابرانہ طرز حکمرانی ، اقربا پروری ، آئین و قانون سے انحراف اور امتیازی عدل و انصاف کے دوہرے معیار کے بد نما داغ لگے جنہیں خود غرض اور لالچی صحافتی اور دانشوورانہ حلقوں نے سیاست کا حسن اور طریق حکمرانی کے ماتھے کا جھومر قرار دیکر ہر کرپٹ اور بد یانت سیاستدان اور حکمران سے چرب زبانی اور خوشامندانہ قلمکاری کا بھر پور معاوضہ وصول کیا۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صحافی ارب پتی ہیں اور اُن کی بیرون ملک وسیع جائیدادیں ہیں۔ مملکت خدادا کو کمزور کرنے اور کرپشن کا بازار سجانے میں جس قدر سیاستدانوں کا ہاتھ ہے صحافتی حلقے اُس سے دو قدم آگے ملک دشمنوں کے آلہ کار اور ملکی اداروں پر حملہ آور ہونے والی قوتوں کے صلاح کار ہیں ۔ زرداری اور نواز شریف کی سیاست اور قومی و ملکی خدمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ دیگر سیاستی جماعتیں محض پریشر گروپ ہیں جن کی سیاست ذاتی مفادات اور لوٹی ہوئی دولت سے حصہ داری تک محدود ہے۔

بھارتی خفیہ اجنسی راء نے چار سپیشل سیل کھول رکھے ہیں جن کی برانچیں سری نگر ، جموں ، کارگل ،کابل ، ایران اور مشرقی وسطی کے ممالک میں ہیں۔ ان میں ایک سیل کشمیر کے معاملات کو دیکھتا ہے اور آزادکشمیر کی نوجوان نسل کو پاک فوج، اسلامی روحانی اقدار اور دو قومی نظریہ کے خلاف سوشل میڈیا پر متحرک رکھے ہوئے ہے۔ دوسراسیل کارگل سے گلگت بلتستان اور ملحقہ چینی صوبوں پر کام کرتا ہے اور شمالی علاقوں میں فرقہ واریت ، مذہبی تعصب ، دہشت گردی اورسی پیک منصوبے کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے اور پاکستان کی ملی اور دینی یکجہتی کو پامال کرنے پر ہر طرح کے وسائل سے حملہ آور ہے ۔ پاکستانی میڈیا کا ایک مخصوص حصہ اس سیل کی معاونت کرتا ہے اور شمالی علاقوں کے آئینی حقوق اور اُسے پاکستان کا صوبہ بنانے کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی بھارتی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

تیسرا سیل جموں سے آپریٹ کرتا ہے اور پنجاب میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ایران ، افغانستان اور خلیجی ریاستوں میں قائم سیل پاکستان میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کو فنڈز مہیا کرتے ہیں جن کی کاروائیاں کسی بے ڈھکی چھپی نہیں ۔ کلبھوش یادو اور دیگر دہشت گردوں کی پاکستان میں کاروائیاں دنیاکے سامنے ہیں مگر میاں نواز شریف اور اُس کی حکومت نے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

سب سے اہم سیل سی پیک منصوبہ کو سبوتاژ کرنے اور کالا باغ ڈیم مخالف پاکستانی سیاسی لیڈروں کی سرپرستی کرتا ہے اوراس ضمن میں بھارت سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے ۔نوائے وقت کے کالم نگاروں جناب اثر چوہان اور ڈاکٹر اجمل نیازی نے متعدد کالموں میں ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کے نام لیکر کالم لکھے مگر نہ حکومت اور نہ ہی عوام پر اس تبنہہ کا کوئی اثر ہوا۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی بلیک میلنگ ، کرپشن اور سیاسی جماعتوں ، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے سیاسی اتحاد ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کو اپنی کرپشن او رلوٹی ہوئی قومی دولت کی حفاظت کے لیے ایسے مہروں کی ضرورت ہے جو اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر ان کو کرپشن کو قومی خدمت اور وطن فروشی کو ملکی حفاظت کا نا م دیکر قوم کو بیوقوف بنانے کا فریضہ سر انجام دیں ۔ اسطرح یہ سیاستدان بھارت اور پاکستانی حکمران جماعتوں سے دولت اکھٹی کرتے ہیں اور اُسے بیرون ملک محفوظ کر دیتے ہیں۔

پاکستان دنیا میں بے مثال ملک ہے جس کے سیاسی رہنما عوام کو غربت ، بیماری ، جہالت ، بھوک اور قحط سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں اور عوام اپنی ذلت و رسوائی اور بھیانک موت مرنے یا پھر بھارت اور اُس کے اتحادیوں کی غلامی میں جانے کو تیار ہیں۔

قوم پرستوں اور قوم فروشوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اور نہ ہی ان کی میکا ولین سیاست اور شاہانہ لائف سٹائل متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔نیو ورلڈ آڑڈر اور اکھنڈ بھارت کا جو نقشہ بھارت، اسرائیل اور مغربی طاقتوں بشمول امریکہ نے ترتیب دے رکھا ہے اُس کے مطابق پاکستان کے لیے دو آپشنز رکھے گئے ہیں۔ اوّل گلگت بلتستان، چترال اور ملحقہ افغانستان کے دو صوبوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کی جائے تاکہ چین کو پاکستان سے الگ کر دیا جائے۔ اس ریاست کے قیام پر آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور دیگر نے کھل کر لکھا جنہیں بیرونی قوتوں نے ہر طرح کی امداد فراہم کی ۔یہ گروپ بیان کردہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کے کشمیر ڈیسک کا حصہ ہے۔ پہلی آپشن میں گریٹر بلوچستان اور پختونستان کے علاوہ سندھو دیش اور جناح پور بھی شام ہیں مگر بڑی سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کی نظر صرف اسلام آباد پر ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے پروفیسر سرجن داس نے 2001ء میں کشمیر اور سندھ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس کا دیباچہ پروفیسر غلام محمد لاکھو شعبہ تاریخ سندھ یونیورسٹی جامشورو نے تحریر کیا ۔ پروفیسر لاکھو لکھتے ہیں کہ اس مضمون پر تحقیق کے لیے پروفیسر سرجن داس نے امریکہ اور لند ن کا سفر کیا جس کے لیے اہل کشمیر اور سندھ ان کے مشکور ہیں۔

سرجن داس کی کتاب دو قومی نظریہ پر حملے سے کم نہیں۔ سرجن داس اور پروفیسرلاکھوکے مطابق سندھ اور کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں اور دونوں خطوں میں جبر و ظلم کے حالات یکساں ہیں جسکا ذمہ پاکستان پر ہے۔ پروفیسر لاکھو کا دیباچہ 2009؁ء کے اردو ایڈیشن میں شائع ہوا جس سے ثابت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ملکی حالات سے کس قدر بے خبر ہیں یا پھر انہیں ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی سے کوئی غرض نہیں ۔اگر کوئی صحافی یا دانشور بھارت میں ایسی تحریرلکھتا تو اب تک اُس کی راکھ گنگا میں بہہ چکی ہوتی ۔

نیوورلڈ آرڈر میں پاکستان کے لیے دوسر آپشن نان نیو کلیر اور ڈی ویپانا یئز ڈ پاکستان ہے ۔ یہ پاکستان ایک فیڈریشن پر مشتمل ہو گا اور تمام صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خود مختاری حاصل ہوگی۔دیکھا جائے تو پاکستان کے خلا ف ہر آپریشن پر کام ہو رہاہے اور بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صورت ان آپشننر میں حصہ داری کا فریضہ سر انجام رہی ہیں۔

موجود حالات میں پاکستانی عوام کے پاس صرف اور صرف ایک ہی سیاسی آپشن باقی ہے کہ وہ ایک پلے بوائے ھیر و اورسخت گیر لیڈر عمران خان کو سیاسی میدان میں آزما کر ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچانے کا بندوبست کریں ۔ عمران خان عالمی شہرت یافتہ ہیرو اورمشہور لیڈی کلر ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ باتیں انتہائی اہم ہیں ۔اوّل کرکٹ کے کھیل میں عمران نے انتہائی لگن، انتھک محنت اور جذبہ حب الوطنی سے مقام بنایا ۔ دوئم حسین عورتوں کا سیلاب اُس کی مردانہ وجاہت ،خوشبو اور دلکشی سے آیا ۔ وہ کبھی کسی عورت کے پیچھے نہیں گیا بلکہ عورتیں مکھیوں کی طرح شہد کی اس بوتل کو چومنے خودچلی آئیں ۔ ہالی ووڈ سے بالی ووڈ اور لالی ووڈ سے جرمنی اور ہانگ کانگ تک کوئی نامور اور حسین عورت عمران کے سحر سے نہ بچ سکی ۔ ہانگ کانگ ٹیلی ویژن کی اناؤنسرنے کہا کہ عمران خان زبردست وطن پرست ہے۔ عمران خان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں مگر اچھی بات یہ کہ وہ کرپٹ ، جھوٹا ، مکار اور وطن دشمن نہیں۔ وہ نواز شریف اور زرداری کی طرح لومٹری اور شیر جیسی خصوصیات کا حامل نہیں اور نہ ہی عوام کو بیوقوف اور غرض مند قرار دیتا ہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی خامی دوستوں پر اندھا اعتبار اور اعتماد ہے۔ تزک تیموری میں امیر تیمور لکھتا ہے کہ میری کامیابی کا راز امیروں اور سرداروں سے مشاورت اور پھر سوچ وو چار کے بعد میرا حتمی فیصلہ تھا ۔ لکھتا ہے کہ محمود غزنوی نے میدان میں ایک بڑا پتھر رکھوا دیا ۔ امیروں نے کہا کہ اس پتھر کی وجہ سے گھوڑے بھدک جاتے ہیں۔ محمود نے کیا یہ میرا حتمی فیصلہ ہے پتھر یہیں رہیگا اور بہت جلد گھوڑے اس کے عاری ہو جائینگے ۔
علامہ اقبال ؒ نے قائداعظم ؒ کی سوانح حیات صرف ایک شعر میں سمودی۔ اقبال ؒ نے کہا
نگاہ بلند، جان پر سوز ، سخن دلنواز
یہی ہے رخت سفرمیرکا رواں کیلے

گو کہ عمران خان کی سیاسی سوچ اس سطح پر نہیں مگر اُس کے خمیر میں ان خصوصیات کی طرف مائل ہونے کا مادہ موجود ہے ۔ جہاں تک عمران خان کا روحانیت کی طرف جھکاؤ کا تعلق ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تنقید آسان ہے مگر حقائق کی خبر مشکل ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھی دھنکا بابا کے پاس جاتے تھے ۔ ایوب خان پیر آف دیول شریف اور بابالعل شاہ کا مرید تھا۔ قائداعظم ؒ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسر موہانی سے تنہائی میں کیا گفتگو کرتے تھے کسی کو پتہ نہیں ۔ سلطان العارفین کشمیر کی آزاد ی کے حق میں کیوں نہیں اور سلطان الہند کی حکمرانی کے کیا راز ہیں یہ سب جاننے کے لیے دل کی آنکھ کھولنا ضروری ہے ۔ بخارا کے مجذوب نے دو اناروں کے بدلے میں عام مزدوربلبن کو ہندوستان کی بادشاہی لکھ کر دی اور پاک پتن والے بابانے دلی کے مسافر شمس الدین کو چار پشتوں کی باد شاہی کا راز بتایا تو مفلوک الحال مسافر پریشان ہوا۔
نہ چھیڑان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدبیضألیے پھر تے ہیں آستینوں میں

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100569 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.