کچھوا اور خرگوش کی کہانی آج کے دور میں چین اور
امریکہ جیسی ہی لگتی ہے امریکہ خرگوش کی طرح لمبی لمبی چھلانگ لگاتے لگاتے
آخری منزل قریب آنے سے پہلے سویا تو نہیں لیکن اپنی طاقت انتی کم کر لی ہے
کہ اب اس سے مزید سفر طے کرنا مشکل ہورہا ہے ۔جبکہ چین کچھوے کی چال چلتے
چلتے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے چکا ہے چین جہاں امریکہ کے مقابلے
اپنی پالیسی جنگ کی بجائے کاروبار پر عمل پیرا ہے دنیا کے تمام ممالک میں
چین شراکت داری بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے دنیا کے تمام براعظموں میں شاید
ہی کوئی ملک ایسا ہو جو چین کے ساتھ تجارت سے وابستہ نہ ہو۔
چینی صدر شی جن پنگ 19 جولائی کو اپنے طویل دورے پر نکلے تھے جہاں انہوں نے
متحدہ عرب امارات، سینیگال، روانڈا ، اور جنوبی افریقہ کا سرکاری دورے کرنے
ہیں ۔چینی صدر شی جن پنگ 21 جولائی کو افریقہ کے دورے پر پہنچے جہاں انہوں
نے سب پہلے افریقی ملک سینیگال سے آغاز کیا صدر شی بنگ سینیگال میں دو دن
قائم کریں گے اس دورے کو عالمی سطح پر اس لیے اہم سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ
کی افریقہ میں دلچسپی کم ہو رہی ہے تو دوسری جانب چین کا اثر افریقہ میں
بڑھ رہا ہے۔صدر شی بنگ جب سینیگال کے دارالحکمومت ڈاکار پہنچے تو سینیگال
کے صدر میکی سال نے ہوائی اڈے پر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا جبکہ
سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں شہری موجود تھے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں
دونوں ممالک کے پرچموں والی جھنڈیاں پکڑی ہوئی تھیں اور ایسی ٹی شرٹس پہن
رکھی تھیں، جن پر صدر شی پنگ اور صدر میکی سال کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں۔
چین سینیگال میں اب تک 100 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ جس
میں دارالحکومت ڈاکار اور سینیگال کے دوسرے سب سے بڑے شہر طوبہ کے مابین
آمد و رفت کو تیز رفتار بنانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی ہے اور ساتھ
ہی ڈاکار کے نواح میں ایک صنعتی پارک بھی قائم کیا گیا ہے‘چینی صدر سینیگال
کے دورے کے بعد جنوبی افریقہ جائیں گے ، جہاں شی جن پنگ برکس ریاستوں کی
ایک کانگریس میں شرکت کریں گے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس گروپ میں
برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے۔ چین ان ممالک پر
مشتمل عالمی بنک کے مقابلے برکس بنک کا منصوبہ بنا چکا ہے یہ دورہ اس کے
لیے بھی پیش رفت ثابت ہوگا
چینی صدر 2015 میں بھی افریقہ کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ افریقہ جبوتی میں
چین کا واحد فوجی اڈا بھی قائم کیا ہے جو چین سے باہر کسی اور ملک میں قائم
کیا گیا ہے چین کا یہ اڈا امریکہ کے فوجی اڈے کے قریب ہے جہاں سے امریکہ
مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنی بڑی اور اہم فوجی کارروائیوں کے لیے
استعمال کرتا ہے۔چین اس اڈے کے ذریعے افریقہ اور اس کے مغربی علاقوں میں
امن کے قیام اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیے جانے والے اقدامات میں
معاونت فراہم کرنے کے لیے قائم کیا تھا لیکن اصل میں چین اپنی افریقہ میں
سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیے یہ فوجی اڈا قائم کیا تھا۔ چین افریقہ میں
سن 2002 سے 2009 تک اپنی سرمایہ کاری پچاس کروڑ سے بڑھا کر نو اعشاریہ تین
ارب ڈالر تک لے گیا تھا جو اب موجودہ دور میں اس سے کئی گناہ بڑھا چکا ہے ،
چین کے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ میں تمام براعظم شامل ہیں چین افریقی کے کئی
ممالک میں اس وقت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی کے بڑے منصوبے مکمل کرنے
والا ہے، جن کے لیے سستی شرائط پر مالی وسائل چین نے مہیا کیے ہیں۔ افریقہ
میں چین کے اس اثر و رسوخ پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح
چین افریقہ میں بیسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کی وجہ سے
کئی افریقی ممالک بہت زیادہ چین کے مقروض ہو رہے ہیں۔
اگر یہ افریقی ممالک مستقبل میں قرضوں کے طور پر مہیا کردہ رقوم چین کو
واپس کرنے کے قابل نہ ہوئے، تو وہ مجبور ہو جائیں گے کہ اپنے بہت سے اہم
سٹریٹیجک منصوبوں کے اکثریتی ملکیتی حقوق بیجنگ کے حوالے کر دیں۔جیسے
امریکہ نے کئی ممالک کو اپنے پنجوں میں دبا کر ان سٹریٹیجک معاملات میں
اپنی پالیسی دیتا ہے
|