آج ووٹر کا دن ہے۔ بالآخر! نگران حکومت، الیکشن کمیشن،
فوج، عدلیہ، میڈیا خاص طور پر عوام کے امتحان کا وقت آن پہنچا۔ ملک میں ایک
ساتھ قومی اور صوبائی نشستوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔تقریباً 10کروڑ 59لاکھ
رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے
جس طرح انتخابی مہم چلائی ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ جوق در جوق ووٹ
ڈالنے نکلیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو، آندھی آئے یا طوفان لوگوں کو نکلنا
چاہیئے۔ وہ بے خوف و خطر ہو کر ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس بار پولنگ بوتھ کے
باہر اور اندربھی مسلح فوج تعینات ہے تا کہ ووٹر آزادی سے ووٹ ڈالے۔یہ
معتبر اور قابل فخر قومی ادارہ ہے۔ اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کی
قوم کے لئے قربانیاں ہی قربانیاں ہیں۔اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر
کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ سب امیدوار اس کے لئے برابر ہیں۔فوج اور دیگر
قانون نافذ کرنے والے افسران اور اہلکاروں کی موجودگی میں ووٹرپر کوئی دباؤ
نہیں۔ لوگ تعمیر و ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
سی پیک کے تسلسل یا اسے روکنے کے لئے فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ووت کس کو ڈالیں۔
امیدوار اعلیٰ اخلاق و کردار کا مالک ہو۔ اپنے حلقے اور قومی مفاد کا شعور
رکھتا ہو۔ نیک نام ہو۔ اس کا ماضی کا ریکارڈ اچھا ہو۔ ملک و قوم کے لئے کچھ
کر گزرنے کا عزم رکھتا ہو۔ لوگ نظم و ضبط کا مظاہرہ کر کے ایک مثال قائم کر
سکتے ہیں۔ ووٹر کے پاس ووٹ امانت ہے۔ آج اس امانت کی پاسداری کا دن ہے۔ کسی
پارٹی یا برادری یا علاقائی یا فرقہ بندی نفرت یا تعصب سے بالا تر ہو کر
ووٹ ڈالنے کا یہی دن ہے۔ آج برادری ازم ، نفرت اور تعصب کی سیاست دفن کی جا
سکتی ہے۔ آج ہر کوئی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہر ایک کی اہمیت ہے۔
لوگ انتخابی جائزے پیش کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے ہیوی ویٹ جہانگیر ترین کی
نا اہلی کے بعد فروری 2018کو لودھراں نشست پر ضمنی الیکشن ہوا تو مسلم لیگ
ن کے غیر معروف امیدوار نے جہانگیر ترین کے بیٹے کو 27ہزار ووٹوں سے شکست
دی۔اس نشست پر مسلم لیگ ن کی کامیابی بڑا سیٹ اپ تھا۔ آج کا ووٹر کیا فیصلہ
کرتا ہے۔ یہ پتہ چل جانے میں زیادہ دیر نہیں۔ الیکشن کے بعد کیا ہو گا۔؟
آئیندہ حکمران کون ہو گا۔؟15ویں پارلیمنٹ کا وزیر اعظم کون ہو گا۔ ؟کیا سب
پارٹیاں انتخابی نتائج تسلیم کر لیں گی۔ اگر نتائج تسلیم نہ کئے گئے تو کیا
ہو گا۔ ؟کسی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے 172سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا
ہوتی ہے۔جو کل نشستوں کا 51فی صد بنتی ہے، ورنہ معلق پارلیمنٹ ہو گی۔پھر
اتحاد راج کریں گے۔ نتائج کے بعد نئے اتحاد بنیں گے جن میں آزاد امیدوار
بھی اہم کردار ادا کریں گے۔اگر اکثریتی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت نہ دی
گئی تو کیا ہو گا؟۔ ایک اہم سوال اس سے پہلے بھی پوچھا جا رہا تھا۔ کیا
انتخابات ہوں گے۔؟ بر وقت ہوں گے۔ ملتوی ہوں گے۔ ؟۔ چہ مہ گوئیاں ۔ سر
گوشیاں۔ قیاس آرائیاں۔ سیاستدان بہت کچھ سیکھ سمجھ چکے ہیں۔ فوج اور عدلیہ
نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ صورتحال بدل دی۔ کوئی بہانہ اور حیلہ بازی کام
نہ آئی۔اور الیکشن کا دن آن پہنچا۔ اب اس کے بعد کی باتو ں پر غور ہو رہا
ہے۔ اگر کسی ایک پارٹی کو دو تہائی کامیابی نہ ملی تو کس کے ساتھ کون سے
پارٹی اتحاد کرے گی۔ انتخابی خونریزی بھی ہوئی۔ معصوم لوگ دہشتگردی کا
نشانہ بنے۔ بلیک واٹر، راء ، موساد، سی آئی اے، کے جی بی، ایم آئی سیکسیا
دیگر ایجنسیاں کیا کھیل کھیلتی رہیں۔ تمام دہشتگردی بھارت کرتا ہے۔وہ سی
پیک کا دشمن ہے۔ پاکستان کو ناکام سٹیٹ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کو
دنیا سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے۔ ملک میں افراتفری اور انتشار کو ہوا دینے
یا خانہ جنگی کی صورتحال کے قیام کے لئے حکمت عملی طے کی گئی ہے۔کچھ
پارٹیوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا اور کچھ کو نہیں۔ ایسا ہی 2013کے
انتخابات میں بھی ہوا۔ تا کہ ملک کی پارٹیوں اور سیاستدانون کو دو خانوں
میں ڈال کر ان کو آپس میں لڑایا جائے۔ عوام ایک دوسرے پر ہی ٹوٹ پڑیں۔ ایک
دوسرے کا بے دردی سے خون بہائیں۔ تا کہ الزام بھی ان پر ہی آئے ۔ کوئی کسی
دشمن طاقت پر انگلی نہ اٹھا سکے۔پاک فوج اور ادارے دشمنوں کو ناکام بنانے
کے لئے الرٹ ہیں۔ انہیں مزید الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی دشمن پر
کڑی نظر رکھنے ، ہر مشکوک فرد یا چیز کوفوری قانون نافذ کرنے والے اداروں
کے نوٹس میں لانے کی ضرورت ہے۔ ملک و قوم کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں فوج
نے پیش کی ہیں۔ فوج کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ کوئی ان قربانیوں یا شہداء کا
سودا کرے۔ فوج ایک بار پھر میدان میں ہے۔ قدرتی آفات میں اس نے ہمیشہ کردار
ادا کیا ۔ اب انتخابات میں بھی وہ امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کر رہی
ہے۔ جان کی بازی لگا رہی ہے۔ توقع ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے۔
اب ایک بار پھر گیند سیاستدانوں کے کورٹ میں ہے۔ اگرسیاست و جمہوریت کوخدمت
سمجھ کر دیکھا جائے۔ اور اسلام کے شوریٰ کے نظام کو سمجھا جائے تو یہ نظام
اسلامی نظام سے قریب تر ہے جہاں پارلیمنٹ میں تمام فیصلے باہمی مشاورت سے
قرآن و سنت کے مطابق کئے جائیں۔ جہاں اقلیتوں کو مکمل تحفظ ہو۔سب کے ساتھ
انصاف ہو۔ مدینہ کی ریاست اس کا آئینہ دار تھی۔ کیا پھر کبھی مسلمانوں کو
مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست نصیب ہو گی؟۔انتخابات کے بعد سیاستدانوں کی
بالغ نظری کاایک بڑا امتحان ہو گا۔ یہ امتحان ان کی کامیابی یاشکست پر
ردعمل اور ان کے لب و لہجہ سے ظاہر ہو گا۔ ان کا تکبر اور غرور یا ندامت یہ
سب ثابت کرے گا۔ اگر انہوں نے ناکامی کی صورت میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر
الیکشن کو قبول نہ کیا تو یہ بھی ان کی اہلیت کا پتہ دے گا۔یہ وقت نفرت اور
تعصب یا انتشار و بالا دستی کی سیاست ختم کرنے اور سب کو مل کر چلنے کا وقت
ہے تا کہ ملک و قوم ترقی کرے۔ یہ معاملہ مسلہ تہذیب و ثقافت کا ہے۔ تمدن کا
ہے۔ جس سے انسانیت چھلکتی ہے۔ احترام انسانیت ظاہر ہوتا ہے۔ جو جس قدر نیک
اور ہمدرد اور امن پسند ہے وہ اسی قدر دوسرے کو بھی ایسا ہی سمجھے گا۔
القاب و آداب کا بھی یہی تقاضا ہے۔سیاست اور سفارت میں امکانات کو دیکھا
جاتا ہے۔ ملک و قوم کے مفاد میں ایک ساتھ بیٹھ کر قومی مفاد کے فیصلے ضروری
ہیں۔ عفو و در گزرسے کام لینے والے عظیم لوگ ہوتے ہیں۔تلخیاں، دوریاں اور
نفرتیں پیدا کرتی ہیں۔ اسی سے تصادم ہوتے ہیں۔ باتیں دلوں میں گھر کر لیتی
ہیں۔ نسل در نسل ، خاندان در خاندان یہ دشمنیاں منتقل ہوتی ہیں۔ زمانہ
جاہلیت کی یہی نشانیاں ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں ایک دوسرے
کا احترام کیا جائے۔ دوسرا آپ کو شعور ی یا غیر شعوری طور پر تکلیف دیتا
ہے، گزند پہنچاتا ہے، آپ کا استحصال کرتا ہے۔ آپ کو ناداں،بے وقوف سمجھتا
ہے، آپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنے مفاد کے لئے آپ کے جذبات اور
وقار کو مجروح کرتا ہے، تو صبر اور تحمل ہی اس کا جواب ہو گا۔ ہمارے
خیالات، افکار فضا میں معلق رہتے ہیں۔ یہ ہم پر ہی برستے ہیں۔ اچھی سوچ کا
اچھا صلہ ملتا ہے۔انسان پر اپنی ہی سوچ برستی ہے۔
|