الیکشن 2018ء انتخابی مہم کو ختم ہوئے بارہ گھنٹے سے
زیادہ ہوگئے۔ صرف چھ گھنٹے بعد پاکستانی قوم اپنے نئے حکمراں کا انتخاب کر
نے کے مرحلہ شروع کردے گئی اورکل اس وقت تک بڑی حد تک گرد چھٹ چکی ہوگی،
نئی قیادت کے کچھ کچھ آثار نمایاں ہونے شروع ہوجائیں گے، پانچ سال پرانی
سیاست کے بادل پاکستان سے مکمل طور پر رخصت ہوچکے ہوں گے، نئی روشنی ، نئی
صبح کا آغاز انشاء اللہ ہوجائے گا۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایسا پہلی
مرتبہ ہورہا ہے کہ انتخابات کا تسلسل کے ساتھ تیسری مرتبہ جمہوری روایت
قائم و دائم ہے اور تیسری مرتبہ ایک جمہوری حکومت نئی جمہوری حکومت کو
اقتدار منتقل کرے گی۔ 2002ء ، 2008، 2013ء کے بعد اب 2018ء کے انتخابات جو
کل منعقد ہورہے ہیں ملک میں ایک نئے جمہوری حکومت کو جنم دیں گے۔ پاکستان
میں اب تک 12انتخابات ہوچکے ہیں 13ویں انتخابات 2018ء کے کل ہونے جارہے
ہیں۔ انتخابات کا تاریخی جائزہ کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان میں 1947سے 1958ء
تک برائے راست انتخابات نہیں ہوئے تاہم پہلا انتخاب مارچ1954میں ہو ا، یہ
انتخاب مشرقی بنگال اسمبلی کے انتخابات جن میں پہلی بار بالغ رائے رہی کی
بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے ۔ان انتخابات میں جگتو فرنٹ (متحدہ محاذ ) نے
کامیابی حاصل کی، حکومت مولوی فضل حق کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی۔
دوسرا غیر جماعتی انتخاب مارچ 1962ء میں ہوئے یہ بھی بالواسطہ انتخابات تھے
، تیسرا انتخاب سب سے اہم تھا جو مشرقی اور مغربی پاکستان کی بنیاد پر ہوا
، ان انتخابات کے بعد پاکستان دو لخت بھی ہوگیا، یہ انتخابات7 ستمبر 1970ء
میں ہوئے سابقہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پاکستان
پیپلز پارٹی کامیاب ہوئیں، لیکن اقتدار کی رسہ کشی، بھارت کی مداخلت کے
باعث پاکستان دو لخت ہوگیا، موجودہ پاکستان پر پاکستان پیپلز پارٹی کی
حکومت قائم ہوئی، ئی انتخابات پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے،
انہیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ پھر
چوتھے انتخابات7مارچ1977ء کے تھے، ان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور نو
ستاروں (پاکستان قومی اتحاد) کے درمیان مقابلہ ہوا، پاکستان پیپلز پارٹی
کامیاب تو ہوگئی لیکن ملک میں سیاسی استحکام قائم نہ ہوا، فوجی مداخلت ہوئی
اور ملک فوجی حکمراں کے رحم و کرم پر چلا گیا، پانچویں غیر جماعتی
انتخابات25 فروری1985ء میں ہوئے ، پاکستان مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی،
چھٹے انتخابات12اکتوبر1988ء میں ہوئے جن کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی
کی حکومت معرض وجود میں آئی، ساتویں انتخابات24اکتوبر 1990کو ہوئے اور آئی
جے آئی کی حکومت قائم ہوئی، آٹھویں انتخابات1993اکتوبر16ء میں ہوئے جن میں
پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور حکومت بنائی، نویں
انتخابات3فروری 1997ء میں ہوتے ہیں اور ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ
(نون) اقتدار میں آجاتی ہے، اب پرویز مشرف کا دورشروع ہوتا ہے ، دسویں
انتخابات10اکتوبر2002ء میں منعقد ہوتے ہیں جن میں ایک نئی مسلم لیگ (ق) جنم
لیتی ہے۔ اب گیارویں انتخابات8جنوری 2008ء میں منعقد ہوتے اورپاکستان پیپلز
پارٹی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، بے نظریر کی شہادت ہوجاتی
اور آصف علی زرداری صاحب ملک کے صدر منتخب کرلیے جاتے ہیں جو اپنے پانچ سال
مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اب مرحلہ بارہویں انتخابات کا آتا ہے جن
کاانعقاد 11مئی2013ء میں ہوتا ہے، ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پھر سے
اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ، چارسال بعد میاں نواز شریف پاناما
لیکس کی زد میں آجاتے ہیں اور عدالت سے نااہل ہوجاتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ
(ن)صدارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے، یہاں تک کہ انہیں 10سال کی سزا ہوجاتی
ہے اور وہ اپنی بیٹی مریم جن کو 7سال کی سزا ہوجاتی ہے اڈیالہ جیل چلے جاتے
ہیں، میاں صاحب کی نااہلی پھر جیل کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت
قائم رہتی ہے یہاں تک کہ حکومت اپنی پانچ سال کی مدت مکمل کرلیتی ہے اور
مرحلہ تیرہویں (13) انتخابات کا آجاتا ہے ، یہ انتخابات 2018ء جولائی
کی25یعنی آج منعقد ہونے جارہے ہیں۔
2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن)
کی حکومتیں قائم ہوتی ہے جب کہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت
قائم ہوتی ہے ، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوجاتی ہے، جب
کہ بلوچستان میں ابتداء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ حکومت
قائم ہوتی ہے لیکن بلوچستان کی حکومت ختم ہوکر پاکستان پیپلز پارٹی اور
دیگر جماعتوں کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ ہر صورت میں 2013ء کے
انتخابات میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اپنی پانچ سال کی مدت مکمل کی، اور
ملک تیرہویں انتخابات کے انعقاد کی جانب بڑھ گیا جس کے تمام تر انتظامات
مکمل ہوچکے ہیں، انتخابی مہم زور شور سے چلنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ
چکی ہے۔ اس دور مختلف قسم کے حالات سے بھی ملک کو دوچار ہونا پڑا، دہشت
گردی کے واقعات بھی ہوئے جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں قیمتی
جانیں بھی گیں۔ بعض پاکستان دشمن قوتیں انتخا بات کو کسی بھی طرح ملتوی
کرانے کی سازش بھی کرتے رہے ، شکر ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں
ہوئے اور انتخابت اپنے شیڈول کے مطابق اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔
پاکستان کا نیا حکمراں کون ہوگا؟ اس کا سو فیصد جواب آج رات تک مل جائے گا
۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ ہمارے ملک کا نیا حکمراں جو وزیر اعظم ہوگا انہیں
سیاسی جماعتوں میں سے ہوگا جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تین سیاسی
جماعتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا
نیا وزیر اعظم انہیں تین سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت کا سربراہ
ہوگا۔ ویسے تو انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد بے شمار
ہے۔ ان سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو حسب ذیل سیاسی جماعتوں کے امیدواران
آج ہونے والے انتخابات میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں ۔
۱۔ تحریک انصاف(PTI)
۲۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)(PML(N)
۳۔پاکستان پیپلز پارٹی(PPP)
۴۔ پاکستان مسلم لیگ (ق)(PML(Q)
۵۔ گرینڈ پارٹی لائنس(GDA)
۶۔متحدہ قومی مومنٹ (پاکستان ) (MQMP)
۷۔ عوامی نیشنل پارٹی(ANP)
۸۔ عوامی مسلم لیگ(AML)
۹۔بلوچستان نیشنل پارٹیBNP)
۱۰۔ متحدہ مسلم عمل(MMA)
۱۱۔ پاک سرزمین پارٹی(PSP)
۱۲۔ اللہُ اکبر تحریک(AT)
۱۳۔ تحریک لبیک پاکستان (TKP)
قومی اسمبلی کی272 نشتوں کے لیے انتخابی معرکہ آج ہونے جارہا ہے ۔صوبوں کے
ا عتبار سیٹو کی تقسیم اس طرح ہے۔
۱۔ اسلام آباد 3
۲۔ خیبر پختونخواہ 51
۳۔ پنجاب 141
۴۔ سندھ 61
۵۔ بلوچستان 16
قیاس کیا جارہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا یوں تو پلڑا بھاری ہے لیکن وہ
شاید اس پوزیشن میں نہ ہو کہ تن تنہا حکومت قائم کر سکے اس کے مقابلے میں
دو بڑی جماعتیں اگر اتحاد کر لیتی ہیں تو تحریک انصاف کو مشکل میں ڈالا
جاسکتا ہے۔ جب کہ تحریک انصاف کے سربراہ اپنی انتخابی مہم میں یہ کہہ چکے
ہیں کہ وہ کسی سے اتحاد نہیں کریں گے۔ اگر وہ اپنے اس بیان پر سختی سے قائم
رہتے ہیں تو حکومت سازی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ نون لیگ اپنی اتحادیوں کے
ساتھ مل کر بھی حکومت سازی کرسکتی ہے۔ تجزیہ نگار کی جانب سے نون لیگ کو
دوسری جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تیسرے نمبر کی جماعت تصور کیا جارہا
ہے۔ آصف علی زرداری کا یہ بیان بھی سب کے سامنے ہے ۔وہ کہہ چکے ہیں کہ ان
کے بخیر مرکز میں حکومت کوئی نہیں بنا سکتا۔ وہ سیاست کے حوالے سے عقاب کی
نظر رکھتے ہیں ، بہت دن پہلے وہ اپنی اس رائے کااظہار کرچکے ہیں۔ پاکستان
مسلم لیگ (ن) جن حالات اور واقعات سے گزری ہے، اس کے سربراہ میاں نواز شریف
، ان کی بیٹی مریم نواز، داماد صفدر پھر حنیف عباسی کو عمر قید کا ہوجانا،
کئی رہنماؤں کا نا اہل ہوجانے کے باوجود انتخابات میں نون لیگ نے جس طرح
مقابلہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے، اگر وہ دوسرے نمبر پر آجاتی ہے تو وہ اس
کی جیت ہی ہوگی۔ ملک میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، اکثر احباب تبدیلی چاہتے
ہیں، دونوں جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ تین تین باریاں
لے چکی ہیں، اگر عوام کی صاف شفاف خواہش کے نتیجے میں ملک میں تبدیلی آجاتی
ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ اس بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ہر صورت
میں انتخاب کا عمل صاف ، شفاف ہونا چاہیے، انتخابی مہم تو گزرچکی ، اب وہ
وقت لوٹ کر نہیں آسکتا، ممکن ہے کہ کسی جماعت کے ساتھ انصاف نہ ہوسکا ہو۔
وہ اپنی جگہ لیکن انتخابی عمل میں کسی بھی قسم کی جانبداری نہیں ہونی
چاہیے۔ انتخابی عملہ انتہائی غیر جانب دار رہے، پولنگ اسٹیشن کے باہر اور
اندر جو فورسیز کے اہل کار موجود ہوں وہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔
کسی کے ساتھ ذیاتی نہ ہو۔ اس صورت میں قوم جو بھی فیصلہ کرے اسے سب کو کھلے
دل سے قبول کر تے ہوئے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت سازی کا حق
دیا جانا چاہیے۔ ملک کسی بھی قسم کی سیاسی چبقلش ، افراتفریح کا متحمل نہیں
ہوسکتا۔
|