سوشل میڈیا اور انتخابی ضابطہ اخلاق

انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں ، انتخابی امیدواروں، الیکشن ایجنٹو ں کے علاوہ میڈیا جس میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے نیز بین الا قوامی میڈیا اور الیکشن کو مانیٹر کرنے والے صحافیوں کے لیے پاکستان الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کیاجس میں تمام امور پر سیر حاصل ہدایات شامل ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں ، سیاست دانوں، میڈیا نے اس ضابطہ اخلاق کو جس بھونڈے طریقے سے اور جس دیدہ دلیری سے بے ضابطہ اور نے وقعت بنا یااس کی مثال نہیں ملتی۔عام گفتگومیں، پریس کانفرنسیز میں، جلسوں میں ، تقریروں میں چھوٹے سے لے کر بڑے سیاستداں تک نے جس قدر بیہودہ، نازیبا، نامناسب ، غیر موزوں زبان استعمال کی اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ۔ بعض بعض سینئر اہم عہدہ پر رہنے والے، عمر رسیدہ، پارٹی میں اہمیت رکھنے والوں نے نازیبا ، بیہودہ گفتگو کر کے ماحول کو پرگندہ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ تربیت اور سیکھنے کا عمل گھر سے شروع ہوتا ہے اس کے علاوہ یہ دفتر، سیاسی جماعت کے سربراہ سے نیچے منتقل ہوتا ہے، گھر کا سربراہ اگر اپنے گھر میں غلط زبان استعمال کرے گا ، تو تڑاخ سے بات کرے گا، گالم گلوچ کرے گا تو اس گھر کے دیگر لوگ خصوصاً بچے اس کے نقش قدم پر ہی چلیں گے، ان کی زبان بھی وہی ہوگی ، دفتر میں آفیسر اپنے ماتحت کے ساتھ اگر خراب زبان استعمال کرے گا تو وہ ماتحت کم درجہ کا ہی کیوں نہ ہو ایک وقت آئے گا کہ اسے اسی زبان میں جواب دے گا،جمہوری نظام میں سیاسی جماعت اہم تربیت گاہ ہے لیکن سیاست کے کھلاڑیوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

موجودہ انتخابات گواہ ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے بیہودہ گوئی ، بد زبانی اور نازیبا زبان کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

ابتدا سیاسی جلسوں میں مخالفین کے لیے غلیظ زبان کے استعمال سے ہوئی، دونوں جانب سے اس کا استعمال کیا گیا۔ کئی سیاسی کھلاڑی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ، کئی کو سزا ہوئی ، بعض کو عدالت نے طلب کیا ہوا ہے، یار لوگ معزز عدالت کے سامنے تحریری مافی مانگتے ، توبہ تلا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن زبان وہی بیہودہ، ناشائستہ، لغو، غیر مہذب رویے اور فضول گوئی ، ھرزہ سرائی سے باز نہیں آتے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ لیڈر اپنی سرشت ، اپنی خو نہیں بدلے گا ، وہ اپنی زبان کو لگام نہیں دے گا تو اس کے ورکر اسی کے نقش قدم پر چلیں گے۔ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلیٰ نے ناشائستگی کی تمام حدود عبور کر ڈالیں۔ عدالت نے بلایا تو آئیں بائیں شائیں۔ الغرض الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کی پامالی میں سیاستدان سر فہرست ہیں۔ میڈیا پیچھے رہنے والا کب تھا، اس کی تو روٹی روزی کا سوال تھا، ہر چینل نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائیں۔ رہی سہی کثرسوشل میڈیا نے پوری کردی۔ ٹی وی چینلز پر تو پھر پیمرا کی تلوار موجو د ہے اور وہ ٹی چینلز پر غلطی کرنے والے صحافیوں کے خلاف ایکشن لیتا رہا ہے۔، جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود، ڈاکٹر عامر لیاقت کے خلاف ایکشن لیا گیا۔ لیکن سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرل کرنے والی اٹھارٹی موجود نہیں۔ وہاں تو اخلاقیات کی تمام حدود کراس کی گئیں، گالیاں تک لکھنے پر فخر محسوس کرتے نظر آئے، اور افسوس کی بات یہ کہ پڑھے لکھے ، سمجھدار بعض کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ، تعلیم یافتہ ، خاندنی ، اپنی جماعت اور لیڈر کی محبت میں اتنے آگے نکل گئے کہ انہیں یہ بھی خیال نہ رہا کہ یہ جملے ان کے مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کے اپنے گھر کے افراد، ان کی مائیں بہنیں بھی پڑھیں گی لیکن لیڈر کی محبت اس قدر غالب کہ اچھے اور برے میں تمیز کھو بیٹھے۔

اردو کی معروف ویب ’’ہماری ویب‘‘ کے ادارے ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام ایک روزہ ورکشاپ بعنوار ‘‘ سوشل میڈیا اور انتخابی ضابطہ اخلاق‘‘ پر ایک روزہ ورکشاپ 22جولائی 2018کراچی میں منعقد کیا گیا ۔ جس کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا سے وابسطہ احباب کو سوشل میڈیا کے لیے لکھنے کی مشق اور برقی میڈیا اور ویب پر خبر ارسال کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے رہنمائی کرنا تھا۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب آن لائن لکھنے والوں کا ایک ادارہ ہے جو عرصہ دراز سے آن لائن لکھنے والوں کی رہنمائی کررہا ہے۔ ہماری ویب پر اس وقت مضامین اور کالموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ راقم کو اس رائیٹرز کلب کا صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ورکشاپ میں شہر کراچی کے آن لائن لکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ورکشاپ میں آگاہی فراہم کرنے اور اظہار خیال کرنے والوں میں سینئر لکھاریوں کے علاوہ نوجوان لکھاری بھی شامل تھے۔ کالم نگار سلیم اللہ شیخ نے سوشل میڈیا اور اخلاقیات کے حوالے سے طویل مقالہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار کی مانند ہے جس کے جہاں مثبت اثرات ہیں وہاں منفی اثرات بھی ہیں، ہماری ویب رائیٹرز کلب کی نائب صدر اور جامعہ اردو کی استاد محترمہ ثنا ء غوری نے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ معروف کالم نگار محمد ارشد قریشی نے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم ہر اس چیز پر ہی عمل گزیں ہوں جو ہم پر قانوں بنا کر لاگو کردی جائے ہمیں اپنے طور پر بھی کچھ ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ کالم نگار عطا تبسم، شیخ خالد زاہد، اعظم عظیم اعظم ، ڈاکٹر شبیرا حمد خورشید، محمد شارق خان، سلمان علی اور خواجہ مصدق رفیق نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ راقم نے صدارتی خطاب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کا بطور خاص ذکر کیا جس میں تمام لوگوں کے لیے ہدایات موجود ہیں ۔ لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ تمام قوانین، ضابطے ، پابندیاں تو موجود ہیں لیکن ان پرعمل کا فقدان ہے۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی عام انسان نہیں کرتا، ووٹر نہیں کرتا بلکہ ذمہ دار لوگ ، سیاستداں ، عہدیداران ، لکھنے والے اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ الیکشن کی مہم کا مرحلہ اختتام کو پہنچ چکا ہے ۔ 25جولائی کو جو بھی نتیجہ ہوگا وہ ہمارے سامنے ہوگا ۔ کامیابی حاصل کرنے والے خوشیاں منائیں گے اور پیچھے رہ جانے والے خواہ کوئی بھی ہوں گے ماضی کی طرح نتیجے کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ اللہ کرے جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے جو بھی حکمرانی کے مسند پر براجمان ہو ملک و قوم کا ہمدر اور بھلائی کا پیکر ثابت ہو۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1272117 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More