کسی بھی نئی ریاست، ملک کو معرض وجود میں آنے کے بعد
ریاستی نظام کو چلانے کے لیے حکومتی ڈھانچہ مرتب کرنا ضرور ی ہے۔ یہ حکومتی
ڈھانچہ اس وقت کی عوامی سوچ کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ یا پھر جس پارٹی کی
حکومت آتی ہے اس کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ وہ چاہیے صدراتی نظام کو بہتر سمجھتے
ہوئے قائم، جمہوری نظام کو ترجیحی دے، فوجی مارشل لاء کو بہتر خیال کرے یا
شہنشاہت کو منظر عام پر لائے۔
پھر وہ ملک اسی سیاسی نظام کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی کرتا ہے، جس کی
پابندی اس ملک کے رہنے والے باشندوں پر لازمی ہوتی ہے۔ اسی قانون کی روح سے
ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں عام آدمی سے لے کر
امراء، حکمران، وڈیرہ شاہی، بیوروکریٹس وغیرہ کو قانون کو یکساں بنیادں پر
لاگو کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ ملک جن میں ان قوانین کا اطلاق صرف عام آدمی پر
ہوتا ہے اور طاقت ور کو رعایت دیتا ہے تو پھر اس ملک کی بنیادیں کمزور ہونا
شروع ہو جاتی ہے اور غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہونا شروع ہو جا تا ہے۔
پھر ایک وقت آتا ہے کہ عوام میں نفرت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے جبکہ
حکمران خواب غفلت میں سونے کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔
یہ حکمران ایک ایسا سسٹم دیتے ہیں جس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس
غربت کو غریب کی کمزوری بنا کر غریب کو بلیک میل کیاجاتا ہے۔ تھانہ کلچر کا
پروان چڑھایا جاتا ہے۔ غریب کو تھانہ کلچر میں پھنسایا جاتا ہے۔ پھر اس
کلچر کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ انصاف کی دھچیاں اڑا دی جاتی ہے اور
انصاف میں عام آدمی سے دور کر دیا جاتا ہے، عام آدمی کو انصاف کے بہانے
بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال بہت سے ممالک میں سے ایک ہمارے
(پاکستانی) نظام کی بھی ہے۔ جسے بیان کرتے ہوئے مجھے دلی دکھ محسوس ہو رہا
ہے۔
وقتی حکمران بڑی دیدہ دلیری سے بادشاہت، حکومت کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں
ان کے ذہن میں دور دور تک یہ نہیں ہوتا ہے کہ کل ہمارے ساتھ کیا ممکن ہے۔
دنیا کو تخلیق کرنے والی ذات (اللہ رب العزت)بھی ہے جوظلم کے نظام کو بالکل
پسند نہیں کرتی۔ جب کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس کے حکمران بھی
مسلمان ہیں لیکن و ہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کریم نے جو ہمیں قانون ضابطہ
حیات دیا ہے اور اپنے پیارے محبوب آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے ذریعے جو تعلیمات دی ہیں ان پرعمل کے بغیر سب کچھ نہ ممکن ہے۔ لیکن
ہمارے یہ سیاسی لیڈر صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر یہودی لابی کی گائیڈ لائن یا
اس کی پیروی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ کب تک؟؟
کسی ملک کے بادشاہ کا چناؤ کیا جاتا ہے، اسے بڑی دھوم دھا م سے بادشاہت کا
شاہی لباس زیب تن کیا جاتا ہے، اس کے باوجود اس بادشاہ کے علم میں ہے ایک
سال کی بادشاہی کے بعد مجھے گھنے جنگل میں چھوڑ دیا جائے گا وہاں میں جیوں
یا مروں اس کا ملک یا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بہت سے بادشاہ آئے
بادشاہی لباش پہن کر تخت پر بیٹھے اور ایک سا ل کی بادشاہت کے بعد نہ بیان
کرنے والی موت کا شکار ہوتے رہے یا۔ بہت سے زرداری اور نواز شریف جیسے اپنی
موت کے انجام سے غافل حکومت کے مزے اُڑاتے رہے، جہاں تک کہ خدائی انداز میں
آگئے اسے مار دو تو اسے چھوڑ دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔اسی ملک کا ایک بادشاہ
آتا ہے جسے اپنی موت کے علاوہ آنے والی نسل کا بھی احساس یا ادراک تھا۔ جب
اس کو بادشاہی لباس پہنایا گیا تو اس نے ملکی، ریاستی امور کو نا صرف بہتر
انداز میں چلایا بلکہ اس نے ساتھ ساتھ اس جنگل کو بھی قابل استعمال لانے کے
لیے ایک پار ک کی منصوبہ بندی میں تبدیل کرتے ہوئے ایک بہترین سیر گاہ بناہ
دیا۔ بادشاہ کی بادشاہت کا ایک سال اختتام پذیر ہوا تو حسب روایت اس کو بھی
جنگل میں لوگ چھوڑنے گئے تو وہ لوگ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ جنگل اب
جنگل نہیں رہا وہ ایک خوبصورت پارک، سیر گاہ میں تبدیل ہو چکا تھا وہا ں اب
زندگی گزارنا اور بھی آسان ہو گیا تھا۔ لیکن میرے پیارے ملک پاکستان کے
حکمرانوں نے فرعونیت میں زندگی گزار دی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ملزم اور
قومی مجرم نوازشریف کی ہے جو اڈیالہ جیل گیا اور چند دن کے بعد ہی رونا
دھونا شروع کردیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل الیکشن چھبیس جولائی دوہزار اٹھارہ کا الیکشن پاکستانی تاریخ کا
انوکھا الیکشن تھا۔ یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کا مہنگاترین (تقریباًبیس
ارب روپے) تھا۔ اس الیکشن کو کامیاب اور شفاف بنانے کے لیے نگران حکومت نے
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ اس کے باوجود کہ پاکستانی معیشت ابتر ہو چکی
ہے، شائد نگران حکومت سمجھتی تھی کہ جتنا شفاف الیکشن ہوگا اتنا ہی بہتر
حکومتی نظام ہوگا۔ اس الیکشن کو غیر متنازعہ اور شفاف بنانے کے لیے کم و
بیش چار لاکھ فوج، پولیس، ٹیچرز، ڈاکٹرز اور سول گورنمنٹ اداروں کے ملازمین
کو اس میں شامل کیا گیا الیکشن کے رزلٹ کو بغیر کسی تاخیر کے RTS رزلٹ
ٹرانشمین سسٹم متعارف کروایا گیا تاکہ فارم پنتالیس کو اسی وقت آن ائیر چیف
الیکشن آفس پاکستان تک پہنچا دیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی دھاندلی کا شبہ
باقی نہ رہے۔ اس الیکشن کی نگرانی کے لیے دنیا کی بہترین فوج کے جوان
تعینات کیئے گئے جنہوں نے انتہائی مستعدی سے ملکی فریضہ کو سر انجام
دیا۔الیکشن سنٹر، پولنگ بوتھ پر کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہونے دیا۔
اس الیکشن میں بعض جگہ کچھ ایسا بھی دیکھ کر صدمہ سا ہوا کہ ہم کیسی قوم
ہیں کہ اپنے نمائندے کا انتخاب۔۔۔ ایک ایف۔ اے، بی۔ اے کو منتخب کرنے کے
لیے اٹھارہ سال سے اوپر ہر شہری ان پڑھ یا پی ایچ ڈی ہے وہ اپنا ووٹ دے کر
اپنی رائے کا اظہار کرے گا۔ اب موازنہ کریں پی۔ ایچ۔ ڈی اور ایف۔ اے، بی۔
اے امیدوار۔۔ پھر میں نے دیکھا سابقہ آرمی چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف
صاحب بھی لائن میں اپنی باری کاانتظار کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ایک
امیدوار بڑے پرٹوکول کے ساتھ پولننگ بوتھ پر اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ ڈسپلن
کی زندہ اور انتہائی معتبر مثال سابقہ آرمی چیف باہر لائن میں ہے اور حاضر
سروس فوجی سپاہی اندر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ لیکن سابقہ آرمی چیف کو
کوئی پروٹوکول نہیں۔۔ تو پھر ہر جگہ اور ہرمحکمہ میں ایسا کیوں نہیں؟
ستر سالہ پاکستانی تاریخ میں ایک ایسا شفاف الیکشن ہوا جس کی کوئی مثال
نہیں۔ اس سے پہلے تقریباً سارے الیکشن دھاندلی زدہ قرار پائے۔ دو ہزار تیرہ
کا الیکشن، چار حلقوں کی دھاندلی کا رونا روتے پانچ سال کا عرصہ گزر گیا
لیکن کوئی خاطر خواہ فصلہ نہ ہو سکا۔دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تین بڑی
پارٹیاں حصہ لے رہی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) جس کا پانچ سالہ دور بادشاہت اور
کرپشن ختم ہوا، پیپلز پارٹی جس نے اپنا پانچ سالہ دور حکومت میں کرپشن کو
اوڑھنا بچھونا بنا کر پھر پچھلی حکومت کے ساتھ سندھ میں کرپشن کا دامن نہ
چھوڑا، تیسری بڑی پارٹی تحریک انصاف (چیئرمین عمران خاں) مد مقابل تھی۔
الیکشن کمپین کے دوران مسلم لیگ (ن) اپنا رونا روتی رہی، ایوین فیلڈ اور
دیگر الزامات کا ثبوت پیش نہ کرنے کی بنا پر نواز شریف، مریم صفدر(بیٹی
نواز شریف)، کیپٹن (ر) صفدر (داماد نواز شریف) اور حنیف عباسی ایفنڈرین
مافیہ کے لقب والااڈیالہ جیل پابند سلاسل ہو گئے۔ پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین
زرداری کی بدولت کرپشن کے ریفرنسز کا جواب دے رہی تھی۔ تحریک انصاف ملک
وقوم اور عام آدمی کے انصاف کے لیے لڑ رہی تھی۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف
کو غیر متوقع طور پر کامیابی نصیب ہوئی۔ اب یہ پارٹی بغیر اتحاد کے اپنا
وزیر اعظم بنانے کے قابل ٹھہری (ممکن ہے وزیر اعظم عمران خاں ہو)۔کے پی کے
میں بھی بغیر اتحاد کے حکومتی پوزیشن میں، سندھ اور پنجاب میں مستحکم
اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔
تحریک انصاف کو یہ جیت اللہ کی طرف سے ایک خاص نعمت عطا ہوئی ہے۔ یہ الیکشن
کے رزلٹس دیکھ کر مجھے انیس صد پنسٹھ اور انیس صد اکہتر کی جنگوں کا وقت
یاد آگیا،پینسٹھ کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی فوج کے مقابلے میں مٹھی
بھر پاکستانی فوج کو کامیابی عطا فرمائی۔ بھارت کے سپاہی خود کہنے پر مجبور
تھے کہ اس جنگ میں اللہ کی طرف سے غیبی مدد ہم نے خود دیکھی ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کو ملنے والی کامیابی کوئی عام کامیابی نہیں اس میں
اللہ کریم کی خاص رحمت، مظلموں کی دعائیں سنیں گئی ہیں۔تکبر اور فرعونیت کا
سورج غروب ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اکہتر کی جنگ کا پلیٹ فارم بھی نظر آرہا ہے۔
جو بیانیہ نواز شریف کی نااہلی سے شروع ہوتا ہے، جس میں عدالتوں، فوج اور
ملک کے سیکورٹی اداروں اور دفاع کی آخری لکیر آئی۔ ایس۔آئی کے خلاف جنتا ہو
سکا بکواس کیا، نوازشریف کے وزیر، مشیر اسمبلی فلور پر، پریس کانفرنس کی
شکل میں، میڈیا ٹی وی ٹاک شو پر جو کچھ کہتے رہے وہ قابل بیان نہیں۔ ان
تمام کی بکواس سے ملک اور قومی اداروں سے دشمنی صاف عیاں ہو گئی۔ سانحہ
ماڈل ٹاؤن میں ظلم و بربریت کی کہانی۔ بنگلہ دیش، حسینہ واجد، شیخ مجیب
الرحمن بننے کے ڈائیلاگ۔اب جولائی دوہزار اٹھارہ کے الیکشن پر بھی اسی قسم
کا پلیٹ فارم تیار ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے عمران خاں کو سیاسی بصیرت
اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے حق حکمرانی اداکرنا ہو نگے، نہیں تونواز
شریف نے وہ حالات پیدا کر دیئے ہیں جو ملک دشمنی کے لیے کافی ہیں۔ اللہ
تعالیٰ ہم سب کو متحد رکھیں اور نئی سیاسی حکومت کو عقلی، شعوری اور سیاسی
بصیرت میں ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین۔قارئین ذرا سوچیں ایسے حالات میں رہتے ہوئے ہم سب کو کیا کرنا ہو گا
اور ہماری کیا اولین ترجیح ہونی چاہیے جبکہ پچیس پچیس سال حکومت کرنے والے
پاکستان کے خلاف ہوں۔ اپنی ناجائز جائیداد کے تحفظ اور اپنی بادشاہت کے
بچاؤ کے لیے ملک توڑنے کے منصبوے بنا رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملک
پاکستان کے لیے متحد رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور نئی بننے والی حکومت کو
حسد، بغض سے پاک ملک مفاد پالیساں مرتب کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم
دنیا میں بہترین قوم بن کر ابھریں اور ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے، اور
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرے۔ لوگ دوسرے ممالک سے پاکستان میں نہ
صرف نوکری بلکہ انوسٹمنٹ لے کر آئیں۔ اللہ حافظ |