قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران دہشت گردی
اور تشدد کے دوران انتخابی عمل مکمل ہو گیا۔ 13جولائی کو مستونگ میں دہشت
گردی کی المناک واردات ہوئی جس میں 128پاکستانی شہید اور 200سے زیادہ زخمی
ہوئے۔ عام انتخابات کے دوران جب پولنگ جاری تھی، کوئٹہ میں دہشت گردی ہوئی۔
جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکاروں سمیت 31شہری شہید ہوئے۔ لا
تعداد زخمی ہوئے۔ اس دہشتگردی کا مقصد الیکشن کو سبوتاژ کرنا تھا۔ تا کہ
لوگ خوفزدہ ہوں۔ وہ ووٹ ڈالنے نہ نکلیں۔ مزید یہ کہ دنیا میں پیغام جائے کہ
پاکستان کے انتخابات پر امن نہ تھے۔ دہشتگرد نگران حکومت اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ چیلنج ملک و قوم کے لئے ہے۔
انتخابی تشدد کے دیگر واقعات ہوئے۔ گولیاں بھی چلیں۔ اکا دکا سیاسی کارکنوں
میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ جو اشتعال انگیزی کا شاخسانہ تھیں۔ نئی نسل تعلیم
یافتہ ہے۔ وہ بہت کچھ سمجھتی اور جانتی ہے۔ دنیا پر اس کی نظر ہے۔ سوشل
میڈیا نے مزید آسانیاں پیدا کی ہیں۔ مگر ایک بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے
کہ اب برداشت اور صبر کا کچھ فقدان نظر آ رہا ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی
ہو تو مفید ثابت ہو گی۔ مگر کئی وجوہات سے تربیت کا نظام ناقص ہے۔ والدین
کے پاس وقت نہیں۔ دادا دادی یا نانا نانی کے بچے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔ کیون
کہ اب اکثر گھرانوں میں شادی ہوتے ہی میاں بیوی اپنا الھ گھر بسا لینے کو
ہی ترقی سمجھتے ہیں جو ایک فیشن سا بن رہا ہے۔ بہر حال یہ الگ موضوع ہے۔
بات انتخابی تشدد کی وجوہات میں سے برداشت پر غورکی ہے۔ جو کہ تعلیم و
تربیت اور اشتعال انگیزی پر سوال اٹھاتی ہے۔ جو بہت آگے نکل جاتی ہے۔
الیکشن میں جو بھی اکثریت لے۔ آخر کار سب کو ماضی کی تمام تلخیوں کو بھول
کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے۔ ایک گلی محلے میں رہنے والے اگر انتخابی
سیاست کی وجہ سے الجھ گئے یا تلخی ہوئی تو اسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ یہ
سب سیاست کے فریب کی وجہ سے ہوا ہو گا۔ ہر کسی کا نکتی نظر مختلف ہو سکتا
ہے۔ اختلاف رائے کا ہر کسی کو حق ہے۔ مگر اس اختلاف کو دشمنی اور عداوت میں
نہیں بدلا جا سکتا۔ یہ کسی انتقام کی طرف نہیں جا سکتا۔ تعلیم یافتہ
معاشروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ کسی کے ساتھ اصولی اختلاف ہو سکتا ہے۔
مگر اپنی آراء کے اظہار کے بعد اس پر ہی اصرار کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ مجلس
میں آپ اپنی رائے دیں۔ مگر اپنی رائے کو ہی مقدم اور درست نہ سمجھیں۔ یہی
حال ووٹ کا بھی ہے۔ آپ نے ووٹ ڈال دیا۔ ضروری نہیں کہ جسے آپ نے ووٹ ڈالا ،
وہی کامیاب ہو، یا وہی کامیابی کا مستحق ہے۔ اگر کوئی دوسرا کامیاب ہوا ہے
تو اسے قبول اور تسلیم کریں۔ یہی نہیں اس کے ساتھ تعاون بھی کریں۔ یہ جاننے
کی کوشش کریں کہ آپ کے انتخاب کو کیسے شکست ہوئی۔ کچھ تو بات ہو گی۔ کچھ
بھی ہو اکڑ اور انا پرستی جہالت ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں برداشت کا دامن
تھامنے میں ہی بہتری اور بھلائی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ظلم اور ناانصافی کو
کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مگر ظالم کا ہاتھ ظلم سے نہیں روکا جا
سکتا۔ نہ ہی مار دھاڑ یا تشدد یا دہشت گردی یا دہشتگردی میں تعاون مسائل کا
حل ہے۔ بات ہمیشہ بات سے ہی بنتی ہے۔ ہر مسلے کے حل کے لئے قواعد و ضوابط
ہیں۔ ان کو ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک گھر یا گاؤں یا شہر یا ملک کے لوگ
آپس میں ہی الجھ جائیں، لڑ پڑیں، تو باہر کے دشمن کو ہاتھ ڈالنے ، ماحول
خراب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسے کہ کوئٹہ میں دہشتگردی ہوئی۔ انتخابات کے
دوران تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ یہ این اے
266کا حلقہ ہے۔ جس میں جمال تارکزئی، حافظ حسین احمد، آغا حسن ایڈوکیٹ،
محمد یونس، زین العابدی خان خلجی، میر ریاض احمد شاہوانی اور پرنس احمد علی
احمد زئی امیدوار تھے۔ یہ کوئٹہ شہر کی نیا حلقہ ہے ۔ اس پرسابق وزیراعظم
میر ظفر اﷲ خان جمالی کئی بار کامیاب ہوئے۔
ملک کا اگلا وزیراعظم چاہے شہبا زشریف ہوں، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری
یا کوئی اور ہو، سب کے سامنے بہت زیادہ چیلنجز ہیں۔ جن میں مہنگائی، بے
روزگاری، روپے کی قدر میں کمی، درآمدات میں کمی، پیداوار میں کمی، تعلیم،
صحت کے مسائل سرفہرست ہیں، عدل و انصاف کا نظام بھی اصلاحات طلب ہے۔
جمہوریت کے بارے میں بھی اصلاح کی گنجائش ہے۔ مگر سب بڑی کامیابی ملک
دشمنوں کو ناکام بنانا ہو گی۔ جو سب کے تعاون سے ممکن ہے۔ تمام ادارے ایک
صفحہ پر ہوں تو منزل آسان ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ فضول ہے کہ ملک میں بالادستی
کسی کی ہو گی۔ بالادستی صرف ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ہو۔ اس کے لئے
پارلیمنٹ، عدلیہ، مسلح افواج، بیوروکریسی ، میڈیا سب نے تعاون کرنا ہے۔ یہ
فیصلہ بھی کرنا ہے کہ کیا سب ملک کی ترقی چاہتے ہیں یا اسے عدم استحکام اور
انتشار کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ کون کیا چاہتا ہے اور کون اشتعال پھیلا
رہا ہے اور کون عفو و در گزر سے کام لینے کا حامی ہے، یہ سب جان لیں گے۔
اگر لوگ مل کر ، سب کو اعتماد میں لے کر ، مشاورت سے معاملات نپٹا رہے ہیں
تو یہ کہنا درست ہو گا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے کامیاب ہو
چکے ہیں۔ یہی پاکستان کی کامیابی ہو گی۔ یہی پاکستان کی جیت ہو گی۔
|