عمل کا انتظار

 ووٹر اپنا فرض ادا کرکے الیکشن کے ہنگام سے فارغ ہوا، اب اگلے پانچ برس اس کی حیثیت ایک تماشائی کی سی رہے گی، یا پھر کسی حد تک وہ اپوزیشن کے ہاتھوں ہنگامہ آرائی کے لئے استعمال ہوگا۔ الیکشن میں کامرانی حاصل نہ کرسکنے والی جماعتیں یا اشخاص فطری پر چند روز پریشان رہیں گے کہ آنکھوں میں کامیابی کے خواب سجانے کے بعد کھُلی آنکھوں کے سامنے انہی خوابوں کا بکھر جانے کا عمل تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنے ہاں یہ روایت بڑی راسخ ہے کہ الیکشن ہارنے والوں کی اکثریت اپنی شکست قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ کونسا الیکشن ہے جس میں دھاندلی کا شور نہ اٹھا ہو؟ اب بھی یہی ہورہا ہے، بہت سے لوگوں کو تحفظات ہیں، اور بہت سی پارٹیوں کو اعتراضات ہیں۔ حالیہ الیکشن کے بارے میں الیکشن سے قبل بہت سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، مگر الیکشن کے نتائج نے ثابت کیا کہ اس مرتبہ بہرحال پی ٹی آئی کی ہوا تھی، کہ دوردراز علاقوں میں بھی بڑے بڑے برج گرتے گئے، پی ٹی آئی کلین سویپ کرتی گئی۔ ’’معلق پارلیمنٹ‘‘ کے خدشات کا اظہار ہوتا رہاتھا، مگر نتیجہ کچھ مختلف رہا۔

عمران خان نے اکثریتی پارٹی کے قائد ہونے کے ناطے ’’قوم سے غیر رسمی خطاب‘‘ کر کے اپنے خواب عوام کے سامنے رکھے ہیں، خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں میں انسان خود رنگ بھر سکتا ہے، اپنی محنت ، عزم اور ہمت سے ان کی تعبیر حاصل کر سکتا ہے۔ عمران خان کی باتوں کو اکثر لوگوں نے قابل عمل اور عوام کے دل کی آواز قرار دیا ہے، ابھی ان باتوں کو عملی جامہ پہنانے میں کچھ وقت درکار ہوگا، نئی حکومت کو یقینی طور پر کچھ دن مہلت دی جانی چاہیے۔ اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ زیادہ تر لوگ ان باتوں پر عمل کئے جانے کا انتظار کرنے کے لئے تیار ہیں، دعا گو بھی ہیں، نیک خواہشات بھی رکھتے ہیں۔ سادگی کا اعلان کیا گیا ہے، سادگی کا منظر نامہ بہت وسیع ہے، ایک ایک قدم اور ایک ایک عمل سے اس کا اظہار کرنا ہوگا، مگر یہ مشکل ترین کام ہے۔ بدقسمتی سے اپنے ہاں پروٹوکول اور مراعات وغیرہ کے ضمن میں عیاشیاں اس حد تک خون میں رچ بس گئی ہیں، کہ اُن کے بغیر زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ جب تک بیسیوں گاڑیوں کا قافلہ آگے پیچھے نہ ہو، جب تک سڑکوں پر بے بس عوام کو روک کر صاحب کے لئے راستہ نہ بنایا جائے، جب تک چار سُو ہٹو بچو کی صدائیں سنائی نہ دیں، جب تک ہر قدم پر قومی خزانے سے اخراجات پورے نہ ہوں، ہر ضرورت سرکاری پیسے سے پوری نہ ہو ، لطف نہیں آتا۔ اقتدار میں آنے کا مقصد ہی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر اپنی ذات پر خرچ کیا جائے۔ یہ معاملہ حکمرانوں کا بھی ہے، بیوروکریسی کا بھی اور دیگر مقتدر طبقوں کا بھی۔

منہ کو لگی ہوئی چھڑوانا کارِ آسان نہیں۔ اس کے لئے جہاں خود سربراہِ حکومت کو اپنا کردار ثابت کرنا ہوگا، وہاں اپنی ٹیم پر بھی کڑی نگاہ رکھنی ہوگی، یہ الیکٹ ایبلز کی اکثریت مفاد پرست ہی ہوا کرتی ہے، جدھر کی ہوا ہوتی ہے یہ بھی ادھر کو ہی ہولیتے ہیں۔ کسی قانون ضابطے کی پابندی اِ ن لوگوں کے لئے کسی مصیبت سے کم نہ ہوگی۔ سادگی اختیار کرنے کے لئے غیر ضروری مراعات میں کمی کرنا ہوگی۔ اگر سادگی کے اعلان پر ابتدا میں عمل ہوگیا، تو کامیابی کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ اگر حکومت اپنے اخراجات کم کر کے مفادِ عامہ پر لگانے کا تہیہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ صرف پانچ برس میں ملک کی کایا نہ پلٹ جائے۔ کھربوں روپے کے قرض تو ہم نہ جانے کب اتار سکیں گے، قسطیں تو سود کی مد میں ہی ادا کی جارہی ہیں، قرض کم نہیں ہوتا، بلکہ مزید لیا جارہا ہے، پٹرول اور دیگر چیزیں مہنگی کرکے عوام پر مزید بوجھ لادا جارہا ہے، مگر اپنے خرچ کم کرنے کا کبھی کسی کو خیال نہیں آیا۔

اب عمران خان کو حکومت مل رہی ہے، ماضی میں ان کے کچھ اقوال وافعال ایسے تھے جنہیں مخالفین تو تنقید کا نشانہ بناتے ہی تھے، عام لوگوں کے لئے بھی پریشانی کا موجب ہوتے تھے، جن میں ’’یُو ٹرن‘‘ کا طعنہ ان کی ذات کا حصہ بن چکا تھا۔ جس اسمبلی کو جعلی قرار دیتے تھے اسی کے ممبر رہے۔ دھرنے کے دوران غیر حاضر رہنے کے باوجود پارٹی نے اپنے واجبات وصول کئے۔ عمران خان کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاسوں میں جانا چاہیے تھا، اگر وہ نواز شریف کو اسمبلی سے غیر حاضر رہنے کا طعنہ دیتے ہیں، تو خود اپنے عمل پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح پہلے الیکٹ ایبلز کی نفی ہوتی رہی اور آخر میں آکر خوب بھرتی کر لی گئی۔ ان کے اِرد گرد کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جو نیب کو مطلوب ہیں۔ جب گزشتہ دور میں عمران خان نے دھرنوں کا آغاز کیا تھا تو یہ خیال عام پایا جاتا تھا کہ اگر عمران کی حکومت آگئی تو مخالفین بھی یہی کام کر سکتے ہیں۔ اب یہ توقع دوسروں سے رکھنے کا جواز نہیں کہ وہ دھرنے نہ دیں، یا ہڑتالیں نہ کروائیں، ان کاموں سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، یا بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے، کیونکہ یہ کارِ خیر آپ بھی کر چکے ہیں۔ تاہم مخالفین کے جائز مطالبات سننے اور ان کا اطمینان بخش جواب دینے (مثلاً دھاندلی کے الزام زدہ حلقے کھلوانے) سے مخالفین کا غصہ بھی قدرے ٹھنڈا ہو جائے گا۔

کوئی کرنا چاہے تو سب کچھ ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران کی پہلی تقریر کے بعدقوم میں خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں، ناکام ہو جانے والے لوگوں کا غیظ وغضب کم ہونے میں وقت لگے گا، قوم کا ذہن بنانے میں بھی وقت درکار ہے۔ اب حاصل شدہ کامیابی کی ایک ہی صورت ہے، وہ ہے اپنے ظاہر کئے گئے خوابوں میں رنگ بھرا جائے، اپنے منصوبوں پر عمل کیا جائے۔ عوام کو جس قدر فائدہ ہوگا، اسی قدر آپ کو کامیابی نصیب ہوگی، مخالف سیاستدانوں کے معاملات کاجائزہ لینا بھی ضروری ہے، مگر مفادِ عامہ ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ جو عادتیں مسلسل تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں، انہیں ترک کرنے کی ضرورت ہے، تبدیلی لانی ہے تو بہت سے معاملات میں خود کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ دو چار ماہ میں قوم کے تیور بھی بدلنا شروع ہو جائیں گے، اﷲ تعالیٰ قوم کو مزید امتحانات سے محفوظ رکھے، قوم کئے گئے اعلانات پر عمل کی منتظر ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424568 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.