پاکستان میں عمران خان کی22 سالہ جدوجہد کامیاب ہوگئی ہے
،کرکٹ سے استعفی دینے کے بعد1996 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی
بنیاد رکھی تھی اور آج 2018 میں وہ وہاں کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر ی
ہے ۔ہر چند کہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی
حکومت بننا اور وزیر اعظم کے منصب پر عمران خان کا فائز ہونا یقینی ہے ۔
پاکستان کے انتخابات کا ڈھانچہ ہمارے ہندوستان سے کچھ مختلف ہے ،ہمارے یہاں
انتخابات کے وقت تک حکومت برقرار رہتی ہے اور شکست کے بعدوزیر اعظم یا وزیر
اعلی کے منصب پر فائز افراد صدر یا گورنر کو اپنا استعفی سونپتے ہیں جبکہ
وہاں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے سے قبل منتخب حکومت بر طرف ہوجاتی ہے۔
ایک عبوری حکومت تشکیل دی جاتی ہے جس کا ایک عبوری وزیر اعظم بھی تمام
پارٹیوں کے اتقاق رائے سے منتخب ہوتاہے ۔اسی طرح ہمارے یہاں لوک سبھا اور
ودھان سبھا کے انتخابات ایک ساتھ نہیں ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ دونوں
انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں جسے وہاں کی اصطلاح میں قومی وصوبائی اسمبلی
انتخابات کہاجاتاہے ۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں کل 342 سیٹیں ہیں جس میں سے 70 سیٹیں خواتین
اور مذہبی اقلیتوں کیلئے ریزرو ہیں۔276 سیٹوں پر ووٹنگ ہوتی ہے جس میں
حکومت سازی کیلئے 137 سیٹیں درکار ہوتی ہیں ۔پاکستان کی گذشتہ حکومت کے پاس
کل 199 ممبران تھے جس میں 178 سیٹیں پاکستان مسلم لیگ نون کی تھی۔ بقیہ
سیٹیں دوسری اتحادی پارٹیوں کی تھیں ۔25 جولائی 2018 کے عام انتخابات نتائج
میں عمران خان واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ۔تاہم دیگر
پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے وہ حکومت بنائیں گے اور پاکستان کے نئے وزیر
اعظم بنیں گے ۔
پاکستان کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر وہاں کی اکثر اہم سیاسی جماعتوں نے
سنگین اعتراض جتاتے ہوئے اسے واضح دھاندھلی کہاہے ۔مسلم لیگ نو ن کے سربراہ
شہباز شریف ،متحدہ مجلس عمل کے قائد مولانا فضل الرحمن اور پی پی پی کے
سربرہ بلاول بھٹوسمیت متعدد پارٹیوں کے سربراہ نے تنائج قبول کرنے سے انکا
ر کردیاہے ۔متعدد تجزیہ نگاروں کا یہ بھی مانناہے کہ عمران خان فوج کا مہرہ
ہیں ،پی ٹی آئی کی جیت اور عمران خان کا وزیر اعظم بننا پہلے سے طے تھا
۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل جو سروے آرہے تھے اس میں نواز شریف کی
پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کی جیت کو واضح اکثریت سے دکھایاجارہاتھا لیکن
عین انتخابات سے قبل سروے میں تبدیل ہوگئے ۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں صرف دو مرتبہ منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل
کی ہے ،پہلی مرتبہ 2008 میں جیت کر حکومت بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی
نے اپنی مدت مکمل کی ،اس کے بعد 2013 میں نوازشریف کی پارٹی نے جیت حاصل
کرکے 2018 تک آئینی مدت مکمل کی ہے ۔ اب پاکستان کی کمان عمران خان کے
ہاتھوں میں ہے ۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ نواز شریف کی حکومت میں ہندوپاک
کے رشتے کافی بہتر ہورہے تھے ،ان کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی
مودی حکومت نے بھی اپنے انتخابی ایجنڈا کے خلاف رشتہ بہتر بنانے کی پہل کی
تھی ،اسی مقصد کے پیش نظر وزیر اعظم نریند رمودی غیر رسمی طور پر پاکستان
تشریف لے گئے تھے تاہم وہاں کی فوج کیلئے یہ ناقابل برداشت تھا اس لئے
انہیں پناما کیس میں پھنساکر پہلے وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے تاحیات نااہل
قراردیاگیا اور پھر جیل کی سلاخوں میں بند کردیاگیا ۔دوسری جانب عمران خان
کو اس مقصد کیلئے تیار کیاگیا اور مکمل مداخلت کے ساتھ انہیں حکومت سازی کا
موقع فراہم کیاگیا ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح عمران خان کا بھی
وہاں کی فوج استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے یا پاکستان کی روایت سے ہٹ
کرعمران خان فوج کا استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تاہم یہ بات
یقینی ہے کہ وہاں ہر حکومت فوج کے ہی رحم وکرم پر ہوتی ہے ،کبھی فوج بغاوت
کرکے براہ راست حکومت پر قابض ہوجاتی ہے تو کبھی عدلیہ کا سہار ا لیکر
منتخب حکومت کے سربراہ کو جیل کی سلاخوں میں بند کردیتی ہے ،سابق وزیراعظم
ذو الفقار علی بھٹوکو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور دوسرے سابق وزیر اعظم
نواز شریف جیل کی سلاخوں میں بند ہیں ۔
عمران خان نے الیکشن کے دوران کچھ اسی انداز کی تقریر کی جس طرح ہندوستان
میں بی جے پی لیڈران اوروزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر ہوتی ہے ۔انہوں نے
نوازشریف کو ہندوستان اور راء کا ایجنٹ ،غدارتک کہا،کئی طرح کا سنگین الزام
بھی عائد کیا ،کشمیر کے مسئلہ کو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ
بنایا،جذباتی ایشوز کو چھیڑ کرعوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ،نریندر
مودی اور ہندوستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کی لیکن یہ ضرروی نہیں ہے
کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی ان کا یہ رویہ برقررررہے گاکیوں کہ اس طرح
کے ایشوز کو ووٹ حاصل کرنے کا ایک اہم ہتھکنڈہ ماناجاتاہے جسے دونوں ملک کی
سیاسی پارٹیاں اپناتی ہیں۔بہت ممکن ہے جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے
اپنی پالیسی تبدیل کی اسی طرح عمران خان بھی خود کو بد ل لیں گے لیکن دونوں
ممالک کے رشتے بہتر ہوجائیں گے یہ کہنا مشکل ہے ۔ اس تناظر میں عمران کی
سابقہ بیوی ریحان خان کا یہ تبصرہ دلچسپ ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے
چینل زی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاہے کہ عمران خان کے رومانٹک تعلقات سب سے
زیادہ ہندوستان سے ہیں ۔اپنی کتاب میں انہوں نے عمران خان کی ذاتی زندگی کے
بارے میں انکشاف کرتے ہوئے یہاں تک لکھ رکھاہے کہ وہ کئی ہندوستانی بچوں کے
باپ ہیں ،اس کے علاوہ ان کا یہ بھی مانناہے کہ عمران کی پشت پر کسی کا ہاتھ
ہے ،انتخابات میں مکمل طور پر دھاندھلی ہوئی ہے ۔
25 جولائی 2018 کو پاکستان کے عام انتخابات میں کئی طرح کی تبدیلی سامنے
آئی ہے ،پہلی مرتبہ وہاں کی پارلیمنٹ میں کوئی تیسری پارٹی حکومت بنائے گی
اب تک صرف نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ نو ن یا آصف علی زرداری کی پاکستان
پیپلزپارٹی کی حکومت بن رہی تھی ۔اس مرتبہ مذہبی سیاسی رہنما کی کارکردگی
زیادہ بہتر نہیں رہی ہے ،جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن اور
جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سراج الحق کے اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ
بچانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔مذہبی جماعتوں کے وفاق متحدہ مجلس عمل کو
بھی کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے اور صرف 12 سیٹوں پر محدود ہوگئی ہے ۔
پاکستان کا ایک مذہبی طبقہ بھی عمران خان کے خلاف ہے ،ان کا کہناہے کہ
عمران خان کی ذاتی زندگی شریعت کے خلاف ہے ،ان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد
ملک میں عریانیت اور فحاشیت کو بہت زیادہ فروغ ملے گا،ان کی پارٹی تحریک
انصاف کی ریلیاں خواتین کے ڈانس اور ناچ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے ایسے
میں ان سے یہی امید کی جاتی ہے ان کی حکومت بننے کے بعد اس طرح کی چیزوں کو
مزید بڑھاوا ملے گا۔
پاکستان الیکشن 2018 کے نتائج سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ ممبئی حملہ
کے ملزم جس حافظ سعید کے نام پر ہندوستانی چینل دسیوں اشتعال انگیز خبریں
چلاتے ہیں، مختلف ہندوستانیوں کو ان سے جوڑ کر دہشت گرد ٹھہرادیتے ہیں اور
مسلمانوں کو ان سے جوڑ کر انتہاء پسند ثابت کرتے ہیں ان کی وہاں کوئی اہمیت
نہیں ہے اور وہاں کی عوام نے انہیں بالکلیہ مسترد کردیاہے ۔حافظ سعید نے
انتخابات سے قبل اﷲ اکبر تحریک (اے اے ٹی) کے نام سے ایک پارٹی بنائی تھی
،پورے ملک میں انہوں نے 265 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن ایک بھی
سیٹ پر انہیں کامیابی نہیں ملی ہے ۔ شکست کھانے والوں میں ان کے بیٹے اور
داماد بھی شامل ہیں ۔
بہر حال پاکستان میں اب ایک تیسری پارٹی حکومت بنارہی ہے ،عمران خان وہاں
کے وزیر اعظم بن رہے ہیں،ایک پڑوسی ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم انہیں
مبارکباد پیش کرتے ہیں اوریہ امید وابستہ رکھتے ہیں کہ وہ نفرت کی سیاست
ترک کرکے محبت کی سیاست کو ترجیح دیں گے ،ہندوپاک کے رشتے میں تلخیاں
پیداکرنے کے بجائے اسے بہتر بنانے اور مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے ۔یہی
دونوں ملک کی عوام چاہتی ہے اور اسی پالیسی میں دونوں ملکوں کی ترقی کا راز
مضمر ہے ۔ایک مرتبہ بھر عمران خان کو مبارکباد ۔
|