تنقید٬ فقرے٬ بدلحاظ طعنہ زنی، نعرہ بازی اور گالیاں
انتخابات کے شروع ہونے سے لے کر اب تک ہر پالیٹیکل پارٹی دوسری پارٹی کو
دینے میں مصروف ہے۔ سوال یہ کہ آپ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں کیا وہ اس
بات کی دعوت دیتی ہے کہ ایک دوسرے کی تذلیل میں لگے رہو؟ سر بازار ایک
دوسرے کے گریبان پکڑ کر کھڑے ہو جاؤ؟ یاد رکھیں! آپ کی اپنی اخلاقی پستی ہی
آپ کے لیڈر کو بدنام کرنے کا باعث بنتی ہے۔واقعی کوئی دودھ کا دھلا نہیں
ہوتا ہر انسان میں اچھائی و برائی کا پہلو ضرور ہوتا ہے اب چاہے وہ حکمران
ہی کیوں نہ ہو۔ ہم ساری سیاسی جماعتوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ کون کس وقت
کیا اچھا اور کون برا کرتا ہے۔ مگر اپنی جماعت کی غلطی ماننے سے انکار کر
جاتے ہیں محض ذات پات یا تعلق کی بنائپر۔ حالانکہ کوئی مانے یا نہ مانے
برائی ہمیشہ برائی ہی رہتی ہے۔ ہم ان بنیادوں پر اپنے آپس کے تعلقات کو
بگاڑ بیٹھتے ہیں لڑتے جھگڑتے ہیں اور اکثر اوقات نتیجہ دوستیاں بھی توڑ
دیتا ہے۔ لہذا التجا ہے کہ اپنے آپس کے تعلقات کو سیاسی بحث کی بنیاد پر
خراب نہ کریں۔ ہمارا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے اور اسلام میں اس
چیز کی ممانعت ہے کہ اپنے حکمران کا مذاق اڑایا جائے انہیں تمسخر کا نشانہ
بنایا جائے۔اسلام اپنے لیڈرز کی عزت کرنے اور ان کے حکم کی تعمیل کا حکم
دیتا ہے بشرط یہ کہ وہ پانچ وقت کا نمازی ہو اور شریعت کے خلاف کسی امر کی
دعوت نہ دے۔
دوسری طرف دھاندلی، دھاندلی اور پھر دھاندلی پانچ سال پہلے سنائی دینے والا
فقرہ آج پھر ہر ایک کی سماعت سے ٹکرا رہا ہے اور انتخابات دوبارہ کرنے کی
مہم چلانے پر اتفاق کی کوشس بھی کی جا رہی ہے۔ تو سنیں! دھاندلی تو ہر بار
ہوتی ہے اس بار ہی سب کو ٹو دی پوائنٹ ایکشن کی سوجی تھی!!! حالانکہ الیکشن
کمیشن دو سیاسی جماعتوں نے منتخب کی تھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے۔یہ
الیکشن کمیشن پی-ٹی-آئی کی نہیں تھی لیکن خان صاحب نے یہ ضرور کہا ہے کہ
ہماری طرف سے یہ جو حلقہ کہیں گے ہم مدد اور انوسٹیگیشن کیلئے تیارہیں۔
بہرحال الیکشن کے بعد موجودہ حالات میں عمران خان کو جو برتری حاصل
ہوئی۔پاکستان میں اکثریت کی توقعات پر اتری ہے۔یہ ماننے والی بات ہے کہ
ماضی کو چھوڑ کر حال پر غور کریں تو خان صاحب کی تقریر نے لوگوں کے دل میں
جگہ بنائی ہے پر ہاں سمجھنے والے باشعور لوگوں کے۔۔۔۔۔
انہوں نے کہا کہ 22 سال کی جدوجہد کے بعد اﷲ نے مجھے کامیابی دی۔کمزور طبقے
کو اٹھانے کیلئے ہماری نئی پالیسیز بنیں گی۔ ہر قانون کی بالادستی قائم
کریں گے۔قائداعظم کا پاکستان بنانے کی کوشش کریں گے جو کوئی بھی غلطی کرے
گا قانون اسے پکڑے گا کوئی امیر، غریب، بڑا، چھوٹا جو بھی اس ملک کے قانون
کے خلاف جائے گا اسکے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔میں پاکستان کو مدینہ کی
فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہوں۔ ہم نے سرمایہ کاری کیلئے ماحول فراہم کرنا
ہے۔عوام کے ٹیکسز کو اپنی شان و شوکت کیلئے خرچ نہیں کیا جائے گا اور وعدہ
ہے میرا عوام کے ٹیکس کی حفاظت کروں گا اپنیخرچ ہم کم کریں گے۔ پرائمنسٹر
ہاؤس ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کیلئے استعمال کریں گے۔سادگی سے چھوٹی سی جگہ لیں
گے جہاں پرائمنسٹر رہے گا۔ ہم سارے گورنمنٹ ہاؤسز کو پبلک کیلئے استعمال
کریں گے۔جتنے بھی صاحب اقتدار لوگ ٹیکس پر شان و شوکت اپناتے ہیں میں اسے
بدل دونگا۔اینٹی کرپشن،نیب اور ایف-بی-آر کو مضبوط کریں گے۔ مثال بن کر
دکھائیں گے۔ چین سے تعلقات مزید مضبوط کریں گے۔ہر طبقے کے ساتھ آپکو انشااﷲ
کھڑا ہوکر دکھاؤں گا۔مزید انہوں نے دھاندلی کے متعلق وضاحت کی جب 2013 کا
الیکشن ہوا تو چار سو پوٹیشنز تھیں جس میں کہا گیا دھاندلی ہوئی ہے اور چار
سو پوٹیشنز الیکشن کمیشن کے پاس تھیں۔ میں نے کہا کہ صرف چار کھول لو۔
چارسو میں سے چار سیمپل لے لو تاکہ 2018 کا الیکشن ٹھیک ہو مگر کسی نے میری
بات نہیں مانی اور اب سب میری مخالفت کر رہے ہیں۔اور کہا کہ جس حلقہ میں
کہیں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے وہ تیار ہیں انوسٹیگیشن کیلئے۔ انہوں نے کہا کہ
میں سمجھتا ہوں یہ سب سے شفاف اور تاریخی الیکشن ہیں۔میرے لئے دعا کریں کہ
جو وعدے آپ سے کئے ہیں وہ پورے ہوں۔
اس تقریر نے ہمارے دلوں میں ایک امید جگائی ہے اسی پاکستان کی جس کا خواب
علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے اسکی تکمیل کو یقینی بنایا۔میں نے اس
شخص کی آواز میں پاکستان کا اور اسکے لوگوں کی حالت کا احساس ضرور محسوس
کیا یہ ایسی آواز تھی جو دل سے نکلی تھی۔ یہ ایسی تقریر تھی جس میں خود کو
رعایا کا غلام تسلیم کیا گیا۔ یقینا ایک حکمران اپنی عوام کی خدمت میں جُتا
رہتا ہے اسکے مفاد کی سوچتا ہے۔ خان صاحب کے الفاظ نے اکثریت کے دلوں کو
جیت کر بجھی شمعوں کو پھر سے جلانے کی امید دلائی ہے۔ آپ نہ کسی برا کہیں
اور نہ کسی اور لیڈر کی ذلت کا باعث بنیں۔ اس امید کی شمع کو روشن رکھیں اس
لو کو مدھم نہ ہونیں دیں۔
دعا ہے کہ اس تقریر کا ایک ایک لفظ نئے پاکستان پر پورا اترے اور اگر عوام
واقعی متحد ہوچکی تو اس لیڈر کے ذریعے قرض اتریں گے، غریبوں کے روزگار
کیلئے دروازے کھلیں گے، پالیسیاں بدلیں گی، وی-آئی-پی کلچر بدلے گا، قانون
کی حفاظت ہوگی اور پھر ضرور ہمارا پاکستان بھی بدلے گا۔ انشااﷲ۔ (حَفِظَ
اﷲُ بَلَدْناَ)
|