اہم بات:
دشمن سازشی اور مکار ہوتو زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔پاکستان کا
دشمن محض دشمن ہی نہیں ،بلکہ پڑوسی بھی ہے۔ اور وہ ہر ایسا حربہ اختیار
کرنے پر یقین رکھتا ہے ۔جس سے پاکستان کے سماج ،سیاست ،مسلمہ نظریات کو
نشانہ بنا سکے۔ اس لئے بیس سال پہلے ہندوستان نے ایٹمی پاکستان کیساتھ
اپنامحاذ تبدیل کردیا ۔سرحدوں پر لڑی جانیوالی روایتی جنگ ہمارے ہمارے سماج
میں لے آیا۔ثقافت کو اپنے رنگ میں رنگنے کے بعدہمارے طرز سیاست کی خرابیوں
سے بھی استفادہ کیا ہے۔اُن نظریات کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں
چھوڑی ۔جنکی بدولت پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ہندوستان کی چھیڑی اس جنگ
کے منفی اثرات نے ہماری معیشت کو بُری طرح نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کو جتنا
نقصان تین بڑی کھلی جنگوں سے نہیں پہنچایا جاسکا۔اُس سے کہیں زیادہ نقصان
پاکستان کے اندر سے مملکت اور عوام کو پہنچایا گیا۔ مشرقی پاکستان والا
نسخہ پھر سے استعمال کرتے ہوئے ’’سرحدوں سے اندر‘‘محاذ کھولا گیاہے۔ یہی
وجہ ہے کہ مسلح افواج کو اپنوں میں سے دشمن کے چھوڑے آلہ کاروں کیخلاف مشکل
ترین جنگ لڑنا پڑی ہے۔اس دوران حفاظتی نقطہ نظر سے مسلح افواج کی دیرینہ
روایات کے برعکس اقدامات کئے گئے ۔ان اقدامات سے فوج ایک طرح سے مورچہ بند
ہوکر رہ گئی ہے ۔جس سے عوام کایساتھ میل جول تقریباََختم ہواہے۔ایک سنجیدہ
رائے میں فوج اور عوام کے درمیان میں اگر خلیج پیدا کرنے کی کوششیں ابتدائی
مرحلے میں ہی ناکام بنانے میں مذید کوتاہی کی ۔تو اسکے انتہائی خطرناک بلکہ
ہولناک نتائج سامنے آئیں گے۔
اسوقت صورتحال یہ ہے کہ داخلی چیلنجز کیوجہ سے مسلح افواج کو ناصرف ایک
طویل اور مشکل ترین جنگ لڑنے پر مجبور کردیا ۔بلکہ حفاظتی تدابیرکے تحت
اُٹھائے گئے اقدامات سے یوں لگتا ہے ۔جیسے افواج ’’مورچہ بند‘‘ہوگئی
ہیں۔چنانچہ قومی دن ہوں ،یا ریاستی اہمیت کے اہم دن ۔یا عمومی حالات ۔۔مسلح
افواج اور عوام میں ایک خلیج سی حائل ہوگئی ہے۔یہ سب سکیورٹی نقطہ نظر سے
لازمیباور کی جاتی ہے۔مگراس نئی طرز کی صورتحال سے روایتی
دشمن(ہندوستان)فائدہ اُٹھاسکتاہے۔اس کیلئے میڈیا سب سے آسان ہتھیار ہے۔پہلے
ہی اُس نے محاذ ہماری سرحدوں سے اندر پھیلا دیا۔جبکہ اُسکے آلہ کاروں میں
مقامی لوگوں کے علاوہ کلبھوشن جیسے ماہر کاریگر بھی سرگرم ہیں ۔جو پاکستان
کو اندر سے کمزور کرنے کیلئے کارروائیاں منظم کرتے ہیں۔ان حالات میں اگر
دفاعی اداروں اور عوام میں میل جول کا تسلسل قائم کرنا ناگزیرہے۔
فوج اور عوام کامیل جول
نائن الیون کے بعد پیدا ہونیوالے حالات نے آزادکشمیر میں قومی/ریاستی اہمیت
کی سرگرمیوں کو تقریباََ ختم ہی کردیا تھا۔ ان حالات میں ’’سپیشل کیمونیکشن
آرگنا ئز یشن‘‘ (SCO)کے تحت مختلف قسم کی سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ جنکا
آغازموجودہ سیکٹر کمانڈر کرنل مقبول احمد کے پیش رو کرنل محمد علی ندیم نے
2014میں یوم آزادی پاکستان پرایک سرگرمی منظم کرکے کیا۔پھر نیلم ،لیپہ ویلی
سمیت آزادکشمیر کے دیگر اضلاع کے دُور افتادہ مقامات میں کھیلوں کی
سرگرمیاں ،بچوں کی تعلیمی ضروریات پر توجہ دی گئی۔لیکن اب یہ سرگرمیاں ؟؟؟پاک
فوج کے تحت ریاست میں سارا سال میڈیکل کیمپس،امدادی کارروائیوں کا سلسلہ
جاری رہتا ہے۔مگرسپیشل کیمونیکشن آرگنا ئز یشن کی سرگرمیوں کا اندازاتنا
منفرد رہا۔کہ نوجوان نسل کو بطور خاص اپنی فوج کیساتھ رغبت میں اضافہ
ہوسکتاہے۔تاکہ دشمن کسی سوچ /نظریہ کی آڑ میں ہماری نئی نسل کو فوج سے دُور
نہ کرسکے۔۔
قومی دن اور قابل عمل2 تجاویز
’’شہدائے وطن میڈیا سیل ‘‘کی تجویزکیمطابق قومی/ریاستی دنوں پر مکمل چھٹی
کا رواج ختم کردیا جائے ۔اور تمام سرکاری محکمہ جات کو اس امر کا پابند
بنادیا جائے ،کہ وہ آزادحکومت کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر مقبوضہ کشمیر
کی صورتحال کے حوالے سے اظہار یکجہتی/ ہندوستانی بربریت کیخلاف احتجاجی
سرگرمیوں میں لازمی شرکت کریں گے ۔اور قرار دیا جائیکہ نائب قاصد سے لیکر
سیکرٹریز تک سبھی سرکاری ملازمین کی شرکت ضروری ہوگی ۔نیز سرکاری تعلیمی
ادارہ جات میں بھی خصوصی تقریبات کے علاوہ ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا تو
اس حکمت عملی کا سب سے بہترین اثر یہ ہوگا ۔کہ عوامی سطع پر بھی ’’تحریک
مزاحمت سے عملی بے رغبتی ‘‘کا تدارک ہوسکے گا اور پھر باشندگان ریاست بھی
سرگرمیوں کا حصہ بننے لگیں گے ۔
2۔جن اواروں میں فوجی اور سول افسران و اہلکاران یکساں خدمات انجام دیتے
ہیں ۔ براہ راست ریاست کے خواص و عوام سے تعلق بھی ہے ۔ اُن میں سرفہرست ’’
سپیشل کیمونیکشن آرگنائزیشن/سگنلزکور+ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ +آرمی میڈیکل کورکے
علاوہ حاضر سروس/سابق فوجیوں/شہداء خاندانوں کو فوج کیساتھ منسلک رکھنے
والے ادارے‘‘آرمڈ سروسز بورڈکے ذریعے قومی /ریاستی دنوں پر ایسی سرگرمیاں
منظم کرنے کا ٹاسک دیا جانا چاہیے۔جن سے آزادکشمیر میں دشمن کی کوئی چال
کامیاب نہ ہوسکے ۔
توجہ طلب نکتہ
آزاد کشمیر میں شروع کی گئی سرگرمیاں ہر سال وسعت اختیار کرنے میں رکاوٹ
کہاں سے آرہی ہے؟ ؟؟ سکیورٹی ایشوزکی آڑ میں قومی سرگرمیوں سے جان چھڑانے
کی کوئی سوچ ہے تو الگ بات۔۔۔۔اور دشمن تو یہی چاہے گا۔پاک فوج اور عوام
میں ’’نادیدہ سی‘‘دیوار حائل رہے ۔تاکہ زہریلے پروپگنڈؤں میں آسانی ہو۔
سنجیدہ حلقوں کے نزدیک سب سے زیادہ ہمیں اس بات کو سمجھنے ،ادراک کرنے کی
ضرورت ہے کہ ابتداء سے لیکراب تک مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے جتنے
مراحل بھی آئے ۔ہر بار نئے سرے سے تحریک کا آغاز ہوا ۔اور ہر مرحلے میں
وادی کشمیر کے اضلاع میں اسکے اثرات و نتائج محسوس کئے گئے ۔جبکہ آزاد
کشمیر میں عوامی سطع پر تحریک کیلئے عوامی سطع پر کسی موثر کردار پر کبھی
کسی سوچ کو محسوس نہیں کیا ،اور عوامی سطع پر بھی صورتحال کشمیرکاز کیلئے
واجبی سی بھی مثبت سرگرمی نظر نہیں آئی ۔صرف اقتدار پر براجمان قائدین
’’تحریک آزادی کشمیر ‘‘کے تناظر میں پیر پنجر جیسی پشنگوئیاں کرتے نظر آئے
ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیرکاز کی تقویت کیلئے سرگرمیوں کو بڑھایا اور
پھیلایا جائے ۔چھٹیوں کا تصور ختم کرتے ہوئے سرکاری مشینری کو مکمل طور پر
سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے ۔کشمیرکاز کیلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف
اپنے اپنے سیاسی جھتوں کوان سرگر میو ں میں مکمل طور پر شرکت کیلئے ویسی
حکمت عملی اپنائیں ،جیسی ووٹ کی خاطر اپنائی جاتی ہے ۔محض لفاظی سے بات
نہیں بن سکتی ۔اور تاریخ میں روشن باب بھی سوالیہ نشان ہوسکتا ہے
آخری بات:
ہندوستان یہ نہیں مانتا کہ وہ جبراََ ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہے۔وہ
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بھی دوسرا رنگ دیتا ہے ۔اور ساتھ ہی مقبوضہ
کشمیر کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیکر بدلہ لینے کیلئے بلوچستان
سمیت پاکستان میں اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔یقینی طور پر آزادکشمیر بھی اُسکی
سازشوں سے بچا نہیں ہو سکتا۔ آرمڈ سروسز بورڈ (سولجربورڈ)کو قومی سرگرمیوں
کے سلسلے میں فعال کرنے میں کیا امر مانع ہوسکتا ہے ؟؟ اگر ’’ آرمڈ سروسز
بورڈ‘‘کے ڈائریکٹر جنرل توجہ کریں تو لاکھوں سابق فوجیوں سمیت لواحقین
شہداء پر مشتمل سرگرمیاں ممکن بن سکتی ہیں ۔بس ذرا ’’قومی جذبے‘‘کام میں
لانے کی ضرورت ہے قومی سرگرمیاں کس قدر اہم ہیں ،اب دوبارہ دہرانے کی ضرورت
نہیں ۔تاہم مری گریژن اگر توجہ کرے اور تمام فارمیشنز کو پابند کیا جائے تو
لواحقین شہداء ہر اول دستہ کے طور پر سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔فارمیشن
سطع پر سرگرمیوں کا ایک نمونہ گذشتہ سالوں میں برگیڈئیر اعجاز الرحمان
تنویر نے شروع کیا تھا۔شجر کاری مُہم ،مکانات ،مکتب سکول تعمیرات،سڑکات
،میڈیکل کیمپس اور لواحقین شہداء کی ویلفئیرجیسے اہم اور ذمہ دارانہ کام
ہوئے۔تسلسل قائم کئے بغیر اہداف حاصل نہیں ہوتے ۔بس ذراماضی کی روایات
بڑھانے پر توجہ کی ضرورت ہے ۔قومی مقاصد کیلئے ’’یوم شہداء ‘‘کی تقریبات کا
آغاز مندرجہ بالا دلائل کو تقویت دیتا ہے۔ |