ہم کچھ بڑے غم کسی بھی طرح شیئر نہیں کرسکتے، کیونکہ ایسے
دُکھ جس پر گزرتے ہیں، اس کا صرف اسے ہی اندازہ ہوسکتا ہے، غم زدہ فرد کے
احساس کو ہم صرف محسوس کرکے دکھ کے رسمی الفاظ ہی ادا کرسکتے ہیں۔ سوشل
میڈیا کے ذریعے متعارف ہونے والے بھائی طارق شاہ سے مسلسل رابطے میں ہوں۔
انہوں نے مجھے کچھ تصاویر ای میل کیں۔ میں پہلے سمجھا کہ یہ اپنے بچوں کی
تصاویر ہمارے اخبار میں لگوانا چاہتے ہیں، اس لیے بار بار وہ اُن کی تصاویر
بھیج رہے ہیں۔ میں نے اُن تصاویر کو پہلے ہی متعلقہ شعبے کے ایڈیٹر کو
ارسال کردیا تھا۔ یہ میری 29برس کی صحافتی زندگی کا پہلا اور آخری سبق ہے
کہ کسی کے کام میں مداخلت نہ کرو اور کسی کو اپنے کام میں مداخلت نہ کرنے
دو۔ کئی عالمی نشریاتی اداروں اور ملکی میڈیا کے موقر جرائد سے وابستگی نے
مجھے کئی تجربوں سے آشنا کیا ہے۔ چونکہ ایک عمر اس دشت کی سیاحی میں گزر
چکی ہے، اس لیے سیکڑوں ای میلز کے مقابلے میں کسی نئے قاری کی ای میل یا
رابطے کو اب ترجیح دیتا ہوں۔
حاجی طارق شاہ کو میں نے ابتدائی طور پر نظرانداز کیا، کیونکہ میں سیکڑوں
تصاویر یا آرٹیکل کی سفارش نہیں کرسکتا، اس کے لیے ہر ادارے کا جداگانہ
نظام ہے، لیکن گذشتہ دنوں حاجی طارق شاہ کی زوجہ اور میری پیاری دکھیاری
بہن نے جب مجھے فون کیا تو میرے پیروں سے زمین نکل گئی کہ نادانستگی میں
مجھ سے کیا کوتاہی ہوگئی۔ انہوں نے تصاویر بھیجنے کی وجوہ بتاتے ہوئے کہا
کہ ان کے چار بچے (تین بیٹیاں اور ایک بیٹا) اگست 2012 میں ایک ٹریفک حادثے
میں اﷲ تعالی کو پیارے ہوگئے تھے۔ حسینہ شاہ، شمائلہ شاہ، مشال شاہ عرف
کاشی اور عائشہ شاہ کی اگست2018 میں چھٹی برسی ہے، لیکن ان کی یادیں اب بھی
تازہ پھولوں کی طرح ان کی خوشبوں میں زندہ ہیں۔ مجھے روتے ہوئے بتایا گیا
کہ 21 اگست 2012 سے لے کر اب تک یہ چھ سال ہم نے کیسے گزارے، اس کا اندازہ
زمین پر رہنے والا انسان نہیں کرسکتا۔ اف، صرف اﷲ جانتا ہے کہ ہم نے کیسے
گزارے ہیں۔ ہر رشتے سے بڑھ کر سب سے پیارا رشتہ اولاد ہے۔ بچے جب اچانک
بچھڑ جاتے ہیں، وہ بھی ایک نہیں چار، ایک ساتھ ایک ہی دن، اﷲ جانتا ہے ہم
ان کی یادوں پر زندہ ہیں۔ کبھی ان کی سالگرہ تو کبھی ان کی برسی ہمارے جسم
کا ایندھن بنی ہوئی ہیں، اﷲ کسی کو ایسا دکھ نہ دکھائے،جو قابل برداشت نہ
ہو۔ کیونکہ جس درد سے میں گزر رہی ہوں، کوئی مجھ سے آکر پوچھے۔ میری بڑی
بیٹی حسینہ شاہ جس نے دس سال میرے ساتھ گزارے تھے، پیدائش سے لے کر وفات تک
اس کی ہر حرکت اور ہر بات میری ذہن میں نقش ہے۔ میری دوسری بیٹی شمائلہ شاہ
جو آٹھ سال کی تھی، تیسرے نمبر پر بیٹا مشال شاہ عرف کاشی اور چھوٹی بیٹی
عائشہ شاہ جو لگ بھگ تین سال کی تھی۔ یہ چاروں بچّے میرے جسم میں بلڈ
سرکولیشن کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ ہم چاہ کر بھی ان کو Ignore نہیں کرسکتے،
کیونکہ یہ چاروں میرے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم یادوں کی وجہ
سے ان کی سالگرہ اور برسی پر زندہ ہیں۔21اگست 2012 منگل کی رات کو اسلام
آباد سے جی ٹی روڈ پشاور کے مین روڈ پر کھڑی مکسچر مشین سے ٹریفک حادثے سے
چاروں بچوں کی ناگہانی موت واقع ہوگئی تھی۔
حاجی طارق شاہ نے بتایا کہ میں ہرسال اپنے چاروں بچوں کی سال گرہ اور برسی
بھی کرواتا ہوں یہ میں صرف ان کے پیار اور نہ ختم ہونے والی محبت میں کرتا
ہوں، اپنی بڑی بیٹی حسینہ شاہ کی سالگرہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں
مناتا ہوں اور شمائلہ شاہ اور مشال شاہ کی سالگرہ ان کی آخری آرام گاہ پر۔
اور چھوٹی بیٹی عائشہ شاہ کی سالگرہ میں مسجد نبوی میں مناتا ہوں۔ پچھلے چھ
برس سے یہی کرتا چلا آرہا ہوں۔ میرے فیملی ممبرز جو UAE اور مختلف ممالک
میں رہائش پذیر ہیں، وہ سب ان کی سالگرہ اور برسی پر آتے ہیں اور میرے دکھ
میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اﷲ سب کو ایسے غم سے بچا کر رکھے، کیونکہ مجھے
ان کے درد کا اندازہ ہوچکا ہے۔ میری بہن اور حاجی طارق شاہ نے حکمرانوں کو
ایک پیغام بھی دیا کہ خداراروڈ سیفٹی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ہم جیسے
والدین ایسے حادثات سے بچ سکے۔ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ
افراد روڈ سیفٹی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک روڈ
کی عدم سیفٹی ہے۔ پلیز روڈ سیفٹی کو یقینی بنایا جائے۔
میں گنگ ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں، میں ان کے غم کو کم نہیں کرسکتا۔ میں ان
کی ذہنی حالت کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ معصوم بچوں سے محبت کا یہ
نظارہ میرے لیے بالکل نیا تھا۔ میں ایک ساتھ چار معصوم بچوں کی وفات پر رو
بھی نہ سکا، کیونکہ میری تمام توجہ تو ملک میں ہونے والی دہشت گردی، سیاسی
اکھاڑ پچھاڑ اور مختلف قسم کے معاملات پر مرکوز رہی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ
ایک قیامت تو روز ہماری سڑکوں پر گزرتی ہے۔ میں کرپشن و بیڈ گورننس کے عادی
ان سماجی دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھانے پر توجہ نہیں دے سکا۔ حاجی طارق
شاہ کے دوست احباب قریباً ہر برس ان والدین کے غم میں برابر کے شریک ہوتے
ہیں۔ میں ہکا بکا تھا کہ یاس زدہ والدین مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ میں ان کے
لیے کیا کرسکتا ہوں تو اس کا جواب جو انہوں نے دیا، اُس نے میری آنکھوں سے
آنسو رواں کردیے۔ میں نے اپنے گریبان میں جھانکا تو نظر آیا کہ میں روہنگیا
کے مسلم بچوں، شام و عراق کے تڑپتے معصوموں، افغانستان کے شہزادوں اور اپنے
ملک کے بن کھلے پھولوں پر بے دھڑک بے خوف ہوکر لکھتا ہوں، لیکن ان معصوم
بچوں کے قاتل سماجی دہشت گردوں پر میرا قلم کیوں خاموش رہ گیا۔ کیا ہر برس
حسینہ، شمائلہ، مشال اور عائشہ کی برسی پر حاجی طارق اور ان کی زوجہ ہمیں
یاد کراتے رہیں گے کہ آج میرے بچوں کی برسی اور سالگرہ ہے۔ یہ بچے پھول تھے
جو جنت (باغ) میں لگادیے گئے ہیں، لیکن ان کی خوشبو سے جنت تو مہک رہی ہوگی،
مگر ان کے والدین کے اجڑے چمن کا کیا ہوگا۔ یہ اپنے بچوں کی خوشبو و محبت
سے محروم ہوگئے۔ کیونکہ کسی کرپشن زدہ، نااہل اور لاپروا انسان کی وجہ سے
پورا خاندان اجڑ گیا۔
آہ، میرے بچو! میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے نوحہ لکھنا نہیں آتا کہ لفظوں
کو کوزوں میں بند کرسکوں، میں گریباں چاک کرکے ماتم نہیں کرتا کیونکہ آپ سب
شہید ہو اور شہید کبھی مرا نہیں کرتے، بس یہ میرے چند بیکار سے آنسو ہی ہیں
جو ہر لفظ کے ساتھ میرے چہرے پر بہہ رہے ہیں۔ میرے بچّے مجھے حیرانی سے
دیکھ رہے ہیں کہ بابا جانی کو کیا ہوا۔ کیا پھر کسی دہشت گردی کے واقعے میں
قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ کیا پھر سیاست دانوں نے رسمی بیانات دے کر شب
کو پارٹیوں میں رقص و سرود کا بندوبست کیا ہے۔ ہائے میرے بچو، تمہیں کیا
معلوم کہ یہاں تو چھ برس سے ایک ایسی دنیا اجڑی ہوئی ہے جس کا مداوا تو
قدرت ہی کرسکتی ہے، وہ بھی انہیں صبر و برداشت کی قوت دے کر۔۔۔ ہم سب آپ کے
غم میں برابر کے شریک ہیں۔ دعا ہے کہ ایسا غم اﷲ تعالیٰ کسی کو نہ دکھائے۔
(آمین) |