عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی نوجوان نسل کے
خواب چکناچور کر دیئے ۔ مگر نوجوان نسل کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ کیونکہ
ایک سازش کے تحت بیس سال لگے ہیں ان کے ذہن بنانے میں اور ہر اُس امر کی
وضاحتیں پیش کرنے کے لئے تیار کرنے میں جن امور پر پچھلے پانچ سال انہوں نے
منتخب حکومت کو شدید تنقید اور گالیوں کا نشانہ بنایا ۔کہانی بہت دلچسپ ہے
اور کوشش کروںگا کہ کم سے کم وقت میں اپنی تمام کہانی بیان کروں مگر اس کے
لئے مجھے کچھ اقساط بنانی پڑیں گی تا کہ میں اپنے پوائنٹس کی بہتر وضاحت کر
سکوں ۔
پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ انتخاب کا وقت شام چھے مقرر تھا ۔ مقررہ وقت پر
پولنگ بند کر دی جاتی ہے ۔شام سات بجے رزلٹ شروع ہوتا ہے ۔ رات آٹھ بجے تک
عمران خان ایک سو کی لیڈ سے آگے جا رہے ہوتے ہیں۔شاہ محمود قریشی ملتان اور
خان صاحب کراچی والی سیٹ جیت چکے ہیں اور پی ٹی آئی باقی وفاقی حلقوں میں
آٹھ فیصد نتیجے میں سو سے زیادہ سیٹوں پر آگے ہے۔ آر ٹی ایس سسٹم کام کرنا
چھوڑ چُکا ہے ۔ ہر حلقے کے چنندہ پولنگ اسٹیشنز اندر سے بند کر لئے گئے ہیں
اور مخصوص پارٹی کے کارکنان باہر نکال دیئے گئے ہیں ۔ ذرائع سے خبر ملی کہ
قصور اور اس طرح کے مختلف قصبوں میں رات دس بجے بھی ووٹ کاسٹ ہو رہے ہیں۔
نجی چینل اور کچھ کارکنان کی طرف سے ویڈیوز بھی بنائی گئیں مگر چینلز پہ
ویڈیوز آن ائیر کرنے پر پابندی رہی۔ اب یہ پابندی کس طرف سے تھی اس بارے
حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پولنگ سٹیشنز بند ہونے پر کئی حلقوں میں
مخصوص پارٹی کے کارکن جنہیں باہر نکال دیا گیا تھا ہمت دکھاتے ہوئے کچھ
ویڈیوز بنانے میں کامیاب ہوئے جن میں کُچھ اہلکاروں کو بیلٹ بوکس تحریکِ
انصاف کے ایم این اے ۔ اور ایم پی اے کی دو گاڑیوں میں رکھتے ہوئے دیکھا
جاسکتا ہے ۔ کارکنان نے ہمت کر کے ویڈیو بناتے ہوئے وہ بیلٹ باکس اُن
گاڑیوں سے نکلوائے بھی اور گنتی بھی کروائے ۔ یہاں سے مسلم لیگی امیدوار
جیت گئے جو پہلے ہار رہے تھے ۔اس رات بہت سے واقعات ہوئے مگر سب سے عجیب و
غریب واقعہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کے باعث
الیکشن کمیشن تک رزلٹ نہیں پہنچ رہے تھے مگر میڈٰیا ہائوسز فرفر نتیجے سُنا
رہے تھے اور پی ٹی آئی بہت تیزی سے آگے جا رہی تھی ۔ پاکستان مسلم لیگ اور
دیگر جماعتوں کے شور شرابے کے باوجود الیکشن کمیشن مدلل وضاحت میں ناکام
رہا۔ رات تین کی پریس کانفرنس میں چئرمین الیکشن کمیشن نے پہلا حتمی نتیجہ
سُناتے ہوئے اعتراف کیا کہ آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کی وجہ سے ہماری ویب
سائٹ تک نتائج نہیں پہنچ رہے ۔ اور الیکشن کمیشن نے اس پریس کانفرنس میں
سوفٹ ویئر میں وائرس آنے یا ممکنہ سائبر حملہ ہونے کا اشارہ بھی دیا ۔ یہاں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس نتائج نہیں ارہے تو میڈیا
ہائوسز کو کون نتائج بھیج رہا ہے ۔خیر یہ وقت بھی گزرا اور پاکستان تحریکِ
انصاف تیزی سے اپنے ہدف کی طرف بڑھتی رہی ۔
صبح ہوئی تو پورے پاکستان میں سوشل میڈیا پر دھاندھلی کے بھر پور الزامات
کے پوسٹ گردش کر رہے تھے ۔ عوام اداروں اور تحریکِ انصاف کو انتخابات دو
ہزار اٹھارہ میں دھاندھلی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے ۔ کچھ حلقوں میں دوبارہ
گنتی کی درخواستیں قبول ہوئیں جہاں تحریکِ انصاف کے امیدوار جیتے تھے مگر
دوبارہ گنتی کے بعد واضع فرق سے شکست ذدہ ہوئے ۔ سوشل میڈیا پر تین دن میں
دھاندلی کے متعلق سینکڑوں ویڈیوز اپلوڈ ہو چُکی تھیں۔ جن میں کُچھ دوہزار
تیرہ اور کچھ دوہزار آٹھ کے انتخابات کی بھی تھیں ۔ مگر بہت سی ویڈیوز اپنی
صداقت اور دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کا طوطی بول رہی تھیں۔
تیسرے دن کراچی قیوم آباد کچرہ کُندی سے دھواں اُٹھتا دیکھا گیا جہاں بہت
سے بیلٹ بوکس جل رہے تھے ۔ ان میں سے کچھ بیلٹ پیپر بچا لئے گئے جن پر پی
پی پی اور دوسرے امیدواروں کے نشان پر مہریں نصب تھیں۔ خیر عوام کے بھرپور
احتجاج کے بعد کُچھ چینلز نے یہ خبر نشر ہوئی ۔ اس سے پہلے مختلف گندے
نالوں سے بیلٹ پیپرز اور کارڈز بھی ملے تھے جن کی خبروں کو دبا لیا گیا تھا
۔مگر عوام چپ نہیں تھے ان کا ووٹ چوری ہو چُکا تھا ۔ کیمروں نے مناظر قید
کر لئے تھے ۔ پانچ سال دھاندھلی کا رونا رونے والی جماعت تاریخ کی سب سے
بڑی دھاندلی سے حکومت بنانے کی طرف گامزن تھی ۔ مگر پانچ سال اس جماعت کے
پیروکار دھاندھلی کی وضاحتیں پیش کر رہے تھے اور گالیاں بھی دے رہے تھے ۔۔
|