ہر جگہ دھاندلی کا رونا پیٹا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی پہلی
دفعہ نہیں ہو رہا بلکہ ہر بار انتخابات کے بعد ایسی ہی صورتحال پید ا کی
جاتی ہے ۔سابقہ انتخابات کے نتائج بھی تیسرے روز ملے تھے اور اس بار سرکار
ی سسٹم کے فیل ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہوا ۔ویسے تو تمام پارٹیوں نے مضبوط
اپوزیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن عمران خان کو ابھی بھی سادہ اکثریت
کیلئے ایم کیو ایم کا ساتھ چاہئے ۔ اور چھبیس حلقوں کی دوبارہ گنتی کی
منظوری بھی دے دی گئی ہے جس کے بعد اور زیادہ تحریک انصاف پر کٹھن وقت ہو
سکتا ہے ۔لیکن ان سارے حالات و واقعات میں سب سے زیادہ جو شخص تکلیف میں
نظر آتا ہے وہ مولانا فضل الرحمٰن ہے ۔ ان انتخابات میں لوگوں نے وڈیرہ
شاہی اور ڈکٹیٹروں کو پوری قوت سے رد کر دیا ہے اور اس میں ان کیلئے عبرت
بھی ہے ۔ متحدہ مجلس عمل کے بڑے بڑے برج گر گئے ، سراج الحق اور مولانا فضل
الرحمٰن جیسے لوگ بری طرح ہارے ہیں ۔جب انسان کے ہاتھ سے اقتدار اور طاقت
اس طرح چھن جائے تو اس کی حالت ایک پنجرے میں مقید اس بے بس پنچھی کی مانند
ہو تی ہے جو چیخنے اور پھڑپھڑانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ۔ نواز شریف تو
جیل میں تھا اس کی آہ و گریہ محدود ہو گئی لیکن مولانا فضل الرحمٰن تو آزاد
ہی پھڑ پھڑائے جا رہے ہیں ابھی ان کو پنجرے میں ڈالنا باقی ہے ۔ایک حساب سے
ان کی یہ آہ و پکار جائز بھی ہے کیوں کہ منسٹرز انکلیو اب انہیں خالی کرنا
پڑے گا اور پھر کشمیر کمیٹی کے چئیر مین تھے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے
اور اس کے ساتھ ساتھ جو انہیں کشمیر میں ہونے والے مظالم پر نہ بولنے کے
پیسے ملتے تھے وہ بھی بند ہو جائیں گے ایک طرح سے ساری حرام کمائی کے درواز
ے بند ہو نے جا رہے ہیں اور یہ سب مولانا فضل الرحمٰن کو گلے میں پھندہ نظر
آنے لگا ہے ۔ جب آپ اقتدار میں ہوں تو الگ بات ہوتی ہے اور جب آپ سے طاقت
چھن جائے تو زندگی یکسر بدل جاتی ہے ۔ مجھے ہنسی اس بات پہ آتی ہے کہ ن لیگ
نے وفاق میں ساٹھ سے زیادہ سیٹیں نکالیں اور پنجاب میں بھی اکثریتی سیٹوں
پر کامیاب ہوئے لیکن اس کے با وجود دھاندلی کا رونا پیٹ رہے ہیں ۔ جو ساٹھ
سیٹوں پر ان کے نمائندے منتخب ہوئے ہیں وہ ٹھیک ہیں اور جہاں سے ناکام ہوئے
ہیں وہاں دھاندلی ہوئی ہے عجیب بات ہے ویسے ۔اور پھر انہی کے بیچ میں اے
این پی کے محمود اچکزئی بھی کھڑے ہو کر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے اور
انتخابات کو کالعدم کروانے کی بات کر رہے ہیں ان لوگوں نے عوام کو کیا سمجھ
رکھا ہے سوچ کر عوام کی معصومیت پر رشک آتا ہے ۔ محمود اچکزئی کو متحدہ
مجلس عمل کے شیخ صلاح الدین نے ہرایا ہے اور وہ متحدہ مجلس عمل کے ساتھ
کھڑے ہو کر دھاندلی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ، پہلے آپس میں مل کر اس پر
فہم تو کر لیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی کس نے کی ہے؟ پی ٹی آئی ایک ہوا بن
چکی تھی اور ایم کیو ایم جو دھاندلی کا رونا رو رہی ہے اس کے نمائند ے ستر
، 70 ہزار کی لیڈ سے ہارے ہیں ، میرا سوال ہے ایم کیو ایم سے کہ انہوں نے
اس وقت دھاندلی کا رونا کیوں نہیں رویا جب ان کے نمائندے ایک ایک لاکھ کی
لیڈ سے منتخب ہو اکرتے تھے ؟ اگر دھاندلی ہوتی تو وہی ان کی عوام آج سڑکوں
پر ہوتی کہ ہمارا ووٹ کہاں گیا؟ پیپلز پارٹی اتنی غیر ذمہ دار ہو سکتی ہے
سوچا نہیں تھا ، اس بار سندھ میں پیپلز پارٹی نے پہلے سے زیادہ سیٹیں جیتیں
ہیں اور وہ سندھ میں حکومت بنانے کیلئے کوششیں بھی کر رہی ہے لیکن وہ بھی
دھاندلی کا رونا پیٹ رہی ہے ، لیاری جہاں سے یہ لوگ قتل و غارت گری کروایا
کرتے تھے بلاول بھٹو زرداری تیسرے نمبر پر آ کے ہارا ہے جبکہ وہاں کی عوام
پی ٹی آئی کی جیت پر خوشیاں منا رہے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مرتبہ
کہا تھا کہ جس دن پیپلز پارٹی لیاری سے ہار گئی اس دن پیپلز پارٹی ختم ہو
جائے گی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ دھاندلی نہیں ہوئی ، کہیں کہیں ہوئی ہو گی
لیکن سارا الیکشن ہی مسترد کر دینا غلط ہے ۔میں اپنے حلقے NA115 اور PP126
کی بات کرنا چاہوں گا کہ یہاں بھی ہر دوسرے بندے کے منہ میں تحریک انصاف کی
آواز تھی ۔ اور دوپہر کو ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ غلام بی بی بھروانہ قومی
اسمبلی کی سیٹ جیت رہی ہے ، کیونکہ عمران خان سے امیدیں لگی ہوئیں ہیں ۔
اگر میں اپنے حلقے کا جائزہ لوں تو شیخ یعقوب کی بیوی راشدہ یعقوب جو پی ٹی
آئی کی امید وار تھی ایسے لوگ ہیں جو لوگوں کے پیسے کھا جاتے تھے ، کوئی
مزاحمت کرتا تو اسے ناحق کیس میں پھنسا دیتے اور پھر اسے حوالات سے نکال
تھپڑ مارتے تھے وہی لوگ آدھے صوبائی اسمبلی کے امید وار معاویہ اعظم کے
ساتھ مل گئے اور آدھے قومی اسمبلی کی امیدوار غلام بی بی بھروانہ کے ساتھ
مل گئے ۔اب عوام کو اپنی امیدیں کچھ ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں جب سابقہ غنڈہ
مافیا سے جان چھڑانے کیلئے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا ۔ اب عوام کو
وہی مافیا تحریک انصاف کے امیدواروں کے دائیں بائیں نظر آ رہا ہے ۔ ایسا
لگتا ہے کہ خراب خوراک نئی پیکنگ میں دی جا رہی ہے ۔اگر عمران خان نے بلا
تفریق مافیا کا خاتمہ نہ کیا تو عمران خان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ
آئندہ انتخابات میں ان کی اور ان کی پارٹی کی حالت فضل الرحمٰن سے بھی بری
ہو گی ۔ |