پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آج تک جتنی بھی دفعہ عوام
کو اپنی رائے کے اظہار اور اپنے نمائندوں کو چننے کا موقع ملا ہمیشہ اس کو
دھاندلی شدہ قرار دیا گیا آج تک ہم سے الیکشن کے معاملات درست طریقے سے
نہیں چلاۓ گۓ آخر ایسا کیوں کون سی ایسی طاقت ہے جس سے ہمیشہ عوامی راۓ کی
توہین کی گئی کون سی ایسی غلطی ہے جس سے ہمارے منتخب نمائندوں کو مشکلات سے
ہمکنار رہنا پڑا۔ لاکھوں کروڑوں لگا کر یہ معاملا ہمارے ملک ہر پانچ سال
بعد آتا ہے اور بعض اوقات تو اس سے بھی پہلے۔ لیکن ہر دفعہ اس کی شفافیت پر
سوال اٹھتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ اگر ایسا کہوں کے ہر دفعہ الیکشن پر لگنے
والا میرا ٹیکس کا ضائع جاتا ہے تو مجھ پر کئ سوالات آئیں گے کے آپ کے پاس
کیا ثبوت ہے تو میں آج اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے یہ بات کرنا چاہتا
ہوں کہ میرا پیسہ الیکشن پر ضائع کیا جاتا ہے۔ اور اس کا ثبوت میری غیور
عوام ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کیوں آج مجھے اور میری عوام کو شعور نہیں دیا
گیا تا کہ میرے اور میری عوام کے ذہن میں ایسا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ لیکن
کوئی تو وجہ ہے۔ اور دوسری طرف ایک ہی نمائیندہ ایک سے زائد حلقوں میں
امیدوار ہوتا ہے۔ اور جب وہ ایک سے زائد حلقوں میں کامیاب ہو جاتا ہے تو
اسے حکم جاری کیا جاتا ہے کہ جناب آپ کو ایک سے زائد جو سیٹیں ہیں وہ
چھوڑنی پڑھیں گی۔ تا کہ وہاں دوبارہ الیکشن کروایا جا سکے۔ کیا یہ مزاق
نہیں کیا یہ اس حلقہ کے عوام کی رائے کی توہین نہیں۔ کیا یہ پیسہ، وقت اور
افرادی قوت کا ضیاع نہیں۔ وہ عوام جو بمشکل اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرتی
ہے کیوں اس پر ایک ہی حلقہ میں کئ کئ دفعہ الیکشن کے خرچ کا بوجھ ڈالا جا
رہا ہے۔ اس غریب عوام کے پیسے کے ساتھ چند مخصوص لوگوں کو نوازنے کے لیئے
طرح طرح کے ڈرامے رچائے جا رہے ہیں۔۔ کیا آج تک بحثیت ایک قوم تبدیلی کرنے
کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ کیوں آج تک ہم نے اپنے قانونی صفحات میں دنیا کی
ترقی کو سراہتے ہوئے تبدیلی نہیں کی جبکہ اشد ضرورت ہے۔جناب یہ اقبال اور
قائد کا پاکستان ہے جہاں میرے قائد نے فرمایا کہ جس نے چاۓ پینی ہے وہ اپنے
گھر سے پیئے عوام کا پیسہ عوام پر استمعال ہو گا اسمبلی کے نمائندوں کے
کھانے اور چاۓ پر نہیں۔ لاکھوں کڑوروں بلکہ اربوں کہوں تو غلط نہیں ہو گا
گزرنے والے الیکشن میں نمائندوں نے اخراجات کئیے اور جب یہی لاگ ٹیکس ادا
کرتے ہیں تو تو ہزار روپوں میں ہوتا ہے یہ سب معاملہ معذرت کے ساتھ میرے
ایوان بالا میں بیٹھنے والے تمام افراد کا ہے جب میں اخبارات اور اشتہارات
میں پڑھتا ہوں تو الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کی جانب سے ایک بہت ہی دل
فریب ضابطۂ نظر آتا ہے۔ لیکن جب میں عمل کے پہلو کی جانب بڑھتا ہوں تو
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ضابطۂ میں جو رقم طے کی جاتی ہے اتنی رقم
تو صرف ہمارے نمائیندے اپنے حلقہ میں جو الیکشن حال کھولتے ہیں کرسیاں ہی
تقسیم کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ تو کدھر گیا میرے معزز الیکشن کمیشن کا ضابطۂ۔
ہمارے ہاں ایک بند کمرے میں چند لوگوں کی جانب سے عوام کے اوپر ایسے قوانین
مسلط کر دیئے جاتے ہیں جن کے بارے عوام کو ذرا برابر بھی آگاہی نہیں دی
جاتی۔ یہی ہمارا الیکشن کمیشن بھی کرتا میرا حق بنتا ہے کہ میں سوال اٹھاؤں
اور پوچھوں کہ میرا پیسہ کیا درست استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن میں یہ بھی
جانتا ہوں کہ جب اس طرح کے تلخ سوالات پوچھوں گا بہت سی نظروں میں مجھے برا
سمجھا جائے گا لیکن اپنے حق کی خاطر مجھے یہ سب بھی منظور ہے۔ یہ کیسا
قانون ہم چلا رہے ہیں جس کا شعور ہی عوام کو نہیں۔ ابھی جو الیکشن گزرا اس
پر کتنی ورکشاپس کروائی گیئں الیکشن کمیشن کی طرف سے تا کہ عوام درست طریقے
سے اپنے ووٹ کو کاسٹ کر سکے صرف بجلی کے بلوں پر طریقہ پرنٹ کر دینا ہی
کافی نہیں۔ کیوں آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی مسترد ووٹوں کی کثیر تعداد
سامنے آئی۔ مجھے اس کا بھی جواب چاہیئے کہ ہر دوسرا شخص الیکشن نتائج پر
انگلی کیوں اٹھاتا ہے اور اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک مکمل اور تسلی
بخش جواب وضع کیوں نہیں ہوتا جس سے سوال اٹھانے والا خود کو مطمئن کر
سکے۔کیوں آپ کا RTS کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ اور جواب ملتا ہے کہ وجہ لوڈ
تھی بلکہ میں کہوں تو وجہ غفلت اور عوام کے پیسے کا احساس نہ ہونا ہے۔ تو
خدارا آپ اہل بصیرت تو کمال ہو لیکن تھوڑا حساس بھی ہو جاؤ۔ اور ذمہ داری
اور جواب دہی کو بھی اپنا لو۔ ناکہ اپنی اپنی سیٹس کے نشہ میں عوام کے پیسہ
کو ضائع کرو۔ کیوں کہ شاید یہ دکھی عوام ابھی تو آپ جواب لینے سے قاصر ہے
لیکن کل روز آخرت آپ جواب دہ ہوں اور معاملہ بہت سخت ہو گا تو آج ہی جواب
دہی کی عادت اپنا لو کل آسان ہو جائے گا۔ کیوں کہ کل روز آخرت مقام اور
مرتبہ صرف تقوی میں ہو گا۔ اور نظام میں ضروری ترامیم اور قبول کرو اپنی
غلطیاں۔ تو بیٹھو اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا نظام ترتیب دو
جو ان کو ان تمام مشکلات سے بچائے جو سب ہم نے برداشت کی۔ اور خفاظت کرے ان
کی ان تمام وباؤں سے جن سے ہمیں گزرنا پڑا۔ اور ترمیم کرو کے کوئی شخص بھی
ایک سے زیادہ قومی یا صوبائی پر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اگر کوئی لڑنا چاہتا
ہے تو بعد میں جس نشست کو وہ چھوڑے گا بعد ادھر الیکشن کے تمام اخراجات کا
ذمہ دار وہ شخص ہو گا نہ کہ کوئی اور۔ کیونکہ اس میں عوام کا کیا قصور جو
دوبارہ اس کا پیسہ خرچ کیا جائے۔ اور جو ضابطۂ جاری کیا جائے گا اس پر سختی
سے عملدرآمد کروایا جائے گا۔ اور الیکشن کے بعد اس کی جانچ پڑتال بھی ہو
گی۔ اور جو بھی آئیندہ قانون بنایا جائے گا اس کے بارے ایک آگاہی مہم سے
عوام کو مطلع کیا جائے گا اور عملی مشقیں بھی کروائی جائیں گی۔ تاکہ عوام
کو اپنے قوانین کی مکمل سمجھ ہو۔ اور ماضی کی تمام غلطیوں کو بھلا کر ایک
ترقی یافتہ قوم بننے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ اللہ میری اس ارض پاک کو
شاد باد رکھے پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد |