الیکشن یا سلیکشن۔ ۔۔۔۔۔۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیرہویں انتخابات اختتام پزیر ہوچکے ہیں، عوام کی بڑی تعداد نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا تاکہ اپنی پسندیدہ قیادت سامنے لائی جاسکے جو ملک وقوم کے مفاد میں قانون سازی، اصلاحات، رفاہ عامہ کے کام اور بنیادی انسانی ضروریات اور عدل و انصاف کی بلا تفریق فراہمی جیسے کام سر انجام دے سکے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کی نا اہلی اور مختلف اداروں کی مداخلت کے سبب یہ انتخابات نہ صرف متنازع ہو چکے ہیں بلکہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر الیکشن سے زیادہ سلیکشن کی منظر کشی کرتے نظر آرہے ہیں۔

اس سے پہلے کہ میں الیکشن اور سلیکشن کی بحث میں الجھوں میں پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ انتخابات کا خلاصہ پیش کرنا چاہوں گا
1st elections : 1954 (indirect elections) = PML
2nd elections : 1962 (non-party based elections)
3rd elections : 1970 = AL
4th elections : 1977 = PPP
5th elections : 1985 = PML (non-party based elections)
6th elections : 1988 = PPP
7th elections : 1990 = IJI
8th elections : 1993 = PPP
9th elections : 1997 = PMLN
10th elections : 2002 = PMLQ
11th elections : 2008 = PPP
12th elections : 2013 = PMLN

اقوام عالم کی ترقی میں صاف شفاف انتخابات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، اس قوم کو ترقی کرنے کا کوئی حق نہیں جو اپنے نمائندگان کے انتخاب میں کوتاہی برتے۔ صاف شفاف انتخابات کسی بھی ملک کی اولین ترجیح ہوتے ہیں، ان کے انعقاد میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل معافی جرم کے مترادف ہے۔ مہذب معاشرے انتخابی نتائج کو تہ دل سے قبول کرتے ہوئی عنانِ سلطنت منتخب شدہ نمائندگان کے سپرد کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اگلی جمہوری مدت تک اپنے نمائندگان کے شانہ بشانہ ملک و ملت کی ترقی کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اپنے اداروں کو مضبوط کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، ہمارے چند ادارے تو اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی ادارہ ان کے سامنے ٹک ہی نہیں پاتا اور باقی تمام اتنے ناتوان کہ اپنے پاوءں پر کھڑے ہونے سے بھی قاصر۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کے الزامات نئے نہیں ہیں، یہ سلسلہ 1962 کی سلیکشن سے 2018 تک کی سلیکشن تک درجن بار دھرایا گیا ہے۔ یہاں پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہوں ، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا محترمہ بینظیر بھٹو سب ہی اس سسٹم کا شکار ہوئے ہیں۔

ہر بار اس قوم کا مینڈیٹ بڑے دھڑلے سے کبھی حب الوطنی تو کبھی ملک کے لئے عالمی خطرہ تو کبھی تبدیلی کے نام پر چوری کیا جاتا ہے، اور اگلی مرتبہ چوری کے تدارک کے وعدوں اور دعوئوں کے سہارے معاملات کو دبا دیا جاتا ہے۔ اگلی بار پھر برسوں پرانی کہانی نئے کرداروں کے ساتھ دہرائی جاتی ہے اور یہی سلیکشن اس قوم پر مسلط کر دی جاتی ہے۔

میرا سوال یہ ہے آخر کب تک ہم اپنے ساتھ ہونے والے اس دھوکہ کو برداشت کریں گے اس ملک میں کب ادارے با اختیار ہونگے تاکہ ایک صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے اور اس قوم کی جان سلیکشن سے ہمیشہ کے لئے چھوٹ جائے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک بائیو میٹرک سسٹم کے تحت الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنا رہے ہیں تاکہ ان کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے جبکہ ہم آج بھی برسوں پرانے فرسودہ نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں آخر کیوں؟ ؟؟ افریقی ممالک میں تو نادرا کا نظام بہت بااعتماد اور نا قابل تسخیر سمجھا جاتا ہے پھر وطنِ عزیز میں ہر بار اس نظام پر سوال کیوں اٹھتے ہیں آخر کیوں نادرا بہت سے ممالک میں اپنی مثال آپ کے تحت خدمات سر انجام دے رہا ہے جبکہ پاکستان میں آج بھی نادرا کی کارکردگی ؟؟؟؟؟

خدارا اس کیوں کو سمجھئیے اور اس کے حل کے لئیے آواز بلند کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور با اختیار پاکستان میسر ہو، جس کا ہر ادارہ انتہائی مضبوط اور فعال ہو ہم لولی لنگڑی جمہوریت اور ڈنگ ٹپائو نظام کے تحت اس ملک کو مستحکم نہیں کر سکتے اور اب مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔۔۔۔
 

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.