پہلے جے یو آئی اور پھر ایم کیو ایم کی
حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کی صورت حال
اب معتدل ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی پنڈت بھانت بھانت کی بولیاں
بولنے میں مصروف ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتیں جو 2008ء کے انتخابات
اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بعد صدر زرداری اور وزیراعظم کی
قیادت میں متحد تھیں کے بدلے تیوروں نے اگرچہ صورت حال خاصی کشیدہ کر دی
تھی۔ پہلے مولانا فضل الرحمن کی علیحدگی اور پھر حکومت کی ایک اور اہم
اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی حکومت سے ناراضگی نے حالات کو بڑی حد تک
ڈانواں ڈول کیا لیکن دونوں ہی جماعتوں نے واپسی کا راستہ بھی کھلا رکھا جس
پر چلتے ہوئے ایم کیو ایم دوبارہ حکومتی بینچوں تک پہنچ گئی ہے اور جلد یا
بدیر کابینہ میں بھی حسب سابق شامل ہوگی جبکہ مولانا فضل الرحمن کی لاؤ
لشکر سمیت واپسی کی امیدیں تاحال قائم ہیں۔ جے یو آئی اور پھر ایم کیو ایم
کی علیحدگی کے بعد ایک بار پھر ان ہاؤس یا پھر مکمل طور پر تبدیلی کا شور
مچا لیکن ہمارا مؤقف یہی رہا کہ دونوں جماعتوں نے سندھ اور بلوچستان کی
صوبائی حکومتوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے بجائے”کچھ دو کچھ لو“ کی حکمت
عملی کے تحت اپنی اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے حکومت کو موقع دیا ہے۔ ایم کیو
ایم کی دوبارہ”ہاں“ کے بعد یہ مؤقف پچاس فیصد تو ثابت ہوچکا جبکہ قوی امید
ہے کہ رہی سہی کسر بھی جلد پوری ہوجائے گی لیکن تمام صورت حال انتہائی واضح
ہونے کے باوجود ”کچھ نہ کچھ “ ہونے کے دعوے تواتر سے جاری ہیں اور اس سلسلہ
مسلم لیگ ن کی جانب حال ہی پیش کئے جانے والے چودہ نکاتی ایجنڈے پر عمل کی
تیزی سے گزرتی ڈیڈ لائن ہے۔
مسلم لیگ ن کا نیا ایجنڈا اور پھر اس کے اعلان کے وقت انتہائی جارحانہ لہجہ
اور سب سے بڑھ کر حکومت کو اس پر عمل کے لئے واضح ٹائم فریم یقینی طور پر
فرینڈلی بننے کے بعد میاں نواز شریف کا ایک نیا انداز تھا لیکن اس کے پس
منظر کے محرکات میں وہ نہیں جو پیش کئے جارہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے پیپلز
پارٹی اسے سیاسی طور پر مکمل طور پر پچھاڑنے منصوبہ بندی کرچکی تھی۔اگر
متحدہ قومی موومنٹ حکومت میں واپس نہ آتی تو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت یا
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کو کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس
صورت میں متبادل ق لیگ کی صورت میں موجود تھا اور ڈوبتی ناؤ بچانے کے لئے
پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ”بائے بائے“ اور مسلم لیگ ق کو”خوش
آمدید“ کہنے کی تیاریاں بھی کر چکی تھی، البتہ وقتی طور پر حالات ضرور
مدوجزر کا شکار تھے کہ بیک وقت مرکز اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی
اکھاڑ پچھاڑ شاید کچھ زیادہ ہی ہلچل کا سبب بنتی جو پیپلز پارٹی کے لئے
اتنا پریشان کن نہ ہوتا کہ اسے تو صرف نئے چہروں کے ساتھ چلنا تھا البتہ
مسلم لیگ ن کے لئے یقینی طور پر کسی بھی صورت قابل قبول اور قابل برداشت نہ
ہوتی کہ وفاق کے بعد اپنے ہی گھر میں اپوزیشن کا کردار اسے سیاسی طور پر
بہت پیچھے لے جاتا،یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں جہاں ایک طرف
چھوٹی جماعتوں کے مطالبے کے باوجود وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد
لانے سے کتراتی رہی جبکہ دوسری جانب یہ تحریک آنے کی صورت میں یوسف رضا
گیلانی کو ووٹ دینے یا نہ دینے بارے بھی مبہم بیانات کا سلسلہ جاری رہا جس
کا مقصد”تمام کشتیاں جلانے“کے بجائے دیکھو اور غور کرو کی پالیسی تھی اور
اس پالیسی کا سب سے بڑا محرک اسی صورت حال کا خوف تھا جو پیپلز پارٹی اور ق
لیگ کے ممکنہ اتحاد کے بعد سامنے آتی۔
مسلم لیگ ن جانتی تھی کہ پیپلز پارٹی اس کے پتوں سے نہیں ڈرتی اور اگر اس
نے کوئی واضح دھمکی دی تو پھر وہ ”انتقاماً“ ق لیگ کو ساتھ ملا لے گی جبکہ
دوسری جانب وزیر اعظم گیلانی یا حکومت کو گھر بھیجنے کی کوششوں میں ایم کیو
ایم کی جانب سے مخالفت کا ڈر بھی اسے جارحانہ اعلان سے روکے رہا۔ ممکن
تھا”کبھی ہاں، کبھی ناں“ والی پالیسی ابھی کچھ دیر مزید چلتی لیکن جب وزیر
اعظم گیلانی اور چودھری برادران کی لاہور میں ملاقات اور مشترکہ پریس
کانفرنس کے بعد تمام ”خدشات“ سچ ثابت ہوتے دکھائی دیئے تو اس نے کھل کر
سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور پھر وہ پریس کانفرنس ہوئی جس میں میاں نواز
شریف نے اپنی جماعت کے چودہ نکاتی ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کو
اس پر عمل کے لئے بہتر گھنٹے کا وقت دیا جس میں سلمان تاثیر کے قتل کے بعد
تین دن کی توسیع کر دی گئی۔اس پریس کانفرنس میں میاں نواز شریف کا انداز
انتہائی جارحانہ تھا اور یہی متحدہ کی حکومت میں مشروط واپسی کے باوجود
”جاوے ای جاوے“کی پیش گوئیوں کا سبب بنا ہوا ہے اور دعوے یہ کئے جارہے ہیں
کہ مسلم لیگ ن اب کی بار حکومت کو ٹف ٹائم دے گی اور اگر اس کے پیش کردہ
ایجنڈے پر عمل نہ ہوا تو سیاسی دمادم مست قلندر یقینی ہے۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اگرن لیگ کی اس ڈیڈ لائن پر کوئی
جارحانہ بیان یا رد عمل سامنے آتا تو بات مانی جاسکتی تھی لیکن یوسف رضا
گیلانی نے نہ صرف اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ وہ حسب سابق اپنی مفاہمانہ
پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نائن زیرو کے ہیرو بن گئے جس کے بعد جہاں حکومت کی
رخصتی کے امکانات ختم ہوگئے وہیں ان کی اپنی وزارت عظمیٰ بھی محفوظ ہوچکی
ہے جس کے بعد ایسی پیش گوئیوں پر سوائے ہنسنے کے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا
کہ یہ سلسلہ پہلے بھی بارہا زور پکڑنے کے باوجود دم توڑ چکا ہے۔ رہ گیا یہ
سوال کہ نئی صورت حال کے بعد قاف لیگ کے سپنوں اور مسلم لیگ ن کے ایجنڈے کا
کیا ہوگا یا پھرن لیگ حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد کیا کرے گی؟
تو اس کا جواب بڑی حد تک واضح ہے جس کی تہہ تک جانے کے لئے اگرچہ ایم کیو
ایم اور پیپلز پارٹی کی ”صلح“ کی شرائط سامنے آنے کا انتظار کرنا ہوگا لیکن
سردست اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے ق لیگ کے مقابلے میں زیادہ خفت مسلم لیگ ن
ہی کو اٹھانا پڑے گی کہ اس کے پاس موجودہ پوزیشن پر رہنے کا واحد راستہ
”فرینڈلی“ نہ ہونے کے دعوے کو سچ ثابت کرتے ہوئے ایوان کے اندر اور باہر
وہی انداز ہے جس کا مظاہرہ میاں نواز شریف کی متذکرہ پریس کانفرنس کے دوران
دیکھنے میں آیا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو یقین ہو کہ یہ سلسلہ بدستور جاری رہے
گا لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے کیونکہ باضابطہ جواب نہ دینے کے باوجود
حکومت نے ایجنڈے میں سر فہرست پٹرولیم قیمتوں میں حالیہ اضافہ از خود واپس
لے کر جہاں ن لیگ کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور اب وہ یہ کہنے کے قابل ضرور
ہوگئی ہے کہ وہ خود عوامی مسائل سے آگاہ ہے لہٰذا اس نے یہاں بھی دو طرفہ
تیر چلا ہے۔ ایک طرف تو یہ اضافے کی واپسی کا یہ اعلان ایم کیو ایم کی رضا
مندی کا سبب بنا ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن سے اس ایشوء پر سیاست کرنے کا
موقع چھین لیا گیا ہے جبکہ دوسرے مطالبات کی باز گشت وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ بالکل اسی طرح دم توڑ جائے گی جس طرح ماضی قریب اور بعید میں کئے گئے
ن لیگی اعلانات ہوئے ہیں جس کے بعد یقینی حد تک امکان ہے ن لیگ بھی سیاسی
افراتفری میں لگائے گئے نعروں کو بھول کر حسب سابق فرینڈلی کردار کے ساتھ
”پرانی تنخواہ“ پر کام کرتی رہے گی۔ |