بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ جب سب راستے مسدود ہوجائیں
اور بندگلی سے نکلنے کی کوئی راہ نظرنہ آئیتو SOSزندگی بچانے کی اپیل کیا
جاتاہے ، ’’خاکم بدہن‘‘کم وبیش کچھ ایسی ہی حالت وطن عزیز میں بھی پائی
جارہی ہے ،قومی وصوبائی انتخابات بفضل تعالیٰ صحیح یا غلط ہوگئے ،عوامی
رائے جذباتی یا سنجیدہ سامنے آچکی ہے ،منتخب اکثریت حکومت بنائے گی، منتخب
عوامی نمائندے اپنی عقل سیاسی منشور پر عمل کرتے ہوئے اپنے ظرف کے مطابق
عوامی مسائل حل کرینگے ۔
ماضی میں ملکی سیاست میں 98فیصد عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ غریب عوام کو
دھوکہ دینے کی منافقانہ کوشش رہی جبکہ دو فیصد طبقہ 100فیصد ملکی وسائل پر
قابض ہوکر ملکی سالمیت کو تباہ کرنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش میں مصروف
رہا ہے۔ ملک اور اس کے جمہور کی قسمت 1170اراکین قومی و صوبائی اور سینیٹ
کے رحم و کرم سے وابستہ رہی جبکہ 20کروڑ عوام کے معیار زندگی بلند کرنے کا
نعرہ محض فیشن کے طور پر لگایا جاتا رہا۔ عوام کی خدمات اور ان کے انسانی
بنیادی مسائل حل کرکے اسمبلی میں جانے والے صرف اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے
کوشاں رہے جبکہ جمہور نان شبینہ کا محتاج رہا۔ حکمران طبقہ صدر اور
وزیراعظم کے الیکٹورل کالج کی بلیک میلنگ کے سامنے بے بس تھا۔ اسی طرح حزب
اختلاف کی سیاسی کارکردگی بھی پاکستان تحریک انصاف کی دلیرانہ اپوزیشن کے
علاوہ صفر ہی رہی ہے۔
میں نے پاکستان بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے ۔
پہلی بار جوش تھا،جذبہ تھاخوشی تھی کہ ہم ایسے اسلامی وطن کے مالک ہیں جہاں
اﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ آفاقی نظام نافذ ہوگا،حضور پاکﷺ کی سنت پر عمل
ہوگا،کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہوگی ،ماسواء تقویٰ
دوسری بار جمہور کا جمہوری فیصلہ ناماننے پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا
قتل عام، اقتدار کے بھوکوں کا دشمنان اسلام کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی
پیٹھ میں خنجر گھونپ کردولخت کردینا تھا جس پر آج بھی شرمندگی ہے ۔
آج پھر 37سال بعد لولی لنگڑی جمہوریت اپنی بقاء کی دہائی دے رہی ہے۔ یہ
وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ملک کا دو فیصد مراعت یافتہ جاگیر دار اور سرمایہ
دار طبقہ وطن عزیز کے تمام وسائل پر پیر تسمہ پابنکر قابض ہے
اور98فیصدجمہور کو گونگا بہرہ اور اپاہج بناکر مسائل کی بھٹی کا ایندھن
بنایا ہواہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ صورتحال کے پیش نظر فتح یاب جماعت انا کا
مسئلہ بنائے بغیر فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبان وطن صاحبان عقل
ودانش کو دعوت عام دی جاتی کہ جو حضرات ملک وقوم کو موجودہ بحران سے نکال
سکتے ہیں وہ سامنے آئیں انہیں قومی شخصیت کے طورپرباوقار مقام دیا جائے
گا۔محبان وطن اور صاحبان عقل ودانش کا کوئی پیمانہ نہیں ہونا چاہے۔ ترجیحات
کا تعین کرتے ہوئے مسائل کے بحرانی تالاب میں پہلا پتھر پھینکتے ہوئے فتح
یاب سیاسی سربراہ کے لیے پہلا مشورہ ہے کہ" کون کہہ رہاہے نہیں ،کیاکہہ
رہاہے "پر توجہ مرکوز کی جائے، جو بات ملک و قوم کے مفاد میں ہو اس پر توجہ
دی جائے نیز "ایڈیٹ ہے مگر اپنا ہے "کی روش ترک کرکے عوامی جذبات اور
احساسات کی روشنی میں قومی تعمیر وترقی ،معاشی واقتصادی پالیسی ،آئینی اور
جمہوری اداروں کا استحکام ،دہشت گردی ،بے روزگاری ،غربت ،فاقہ کشی کے خاتمے
خواندگی کی شرح و زرعی پیداوار میں اضافے، بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی و
مقامی قرضوں کی وصولی اور بلدیاتی اداروں کی افادیت کے مد نظر انسانی
بنیادی مسائل کے حل کے لیے پیش کئے گئے مشوروں پر سنجیدہ کوشش کی ضرورت کو
سنجیدگی سے محسوس کرکے "جمہوریت میں جمہور"کی شرکت کو یقینی بنانے کی جانب
پہلا قدم اٹھائیں ۔ یہ ہی مشاورت ،مفاہمت اور فہم وفراست کا تقاضا ہے جس سے
جمہوریت بانجھ ہونے کی بجائے گراس روٹ لیول پر ہی نشونماء پائے گی۔ایسے ہی
مشورے سابقہ حکمرانوں کو بھی دیئے گئے تھے لیکن یہ 98فیصد جمہورکی طرف سے
تھے اس لیے قابل قبول نہیں سمجھے گئے ،اب قومی عوامی جمہوری منتخب نمائندوں
حکومت کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر پیش کررہے ہیں مثبت رد عمل کی صورت میں
عوامی اور قومی مسائل کو حل کرنے کی عوامی جمہوری ضمانت دی جاتی ہے جس کے
ذریعے بلدیاتی اداروں کے تعاون سے ملک سے بیروزگاری، بھوک و افلاس نیز
سیاسی، مذہبی، صوبائی اور لسانی انتہا پسندی کی بیخ کنی، 100فیصد شرح
خواندگی، بیرونی قرضوں کی ادائیگی، قومی قرضوں کی وصولی، چھوٹے ڈیمز کی
تعمیر سے تقریباً ایک ارب ایکڑ زمین زیر کاشت لاکر سبز انقلاب لانا اور
1973ء کے آئین سے متنازع شقوں میں ترامیم کرکے صدر، وزیراعظم اور وزراء
اعلیٰ کے براہ راست انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے اپنی تمام تر قوت اور
صلاحیتیں بروئے کار لاکر وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل
کرکے اپنے اسلاف کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔
ختم شد |