الیکشن دوہزار اٹھارہ بمقابلہ دو ہزار تیرہ (حصہ سوم ) حکومت سازی اور کپتان کے دعوے

دھاندھلی کے الزامات اور جیتے ہوئے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ سپریم کورٹ سے نااہل جہانگیر ترین ہارس ٹریڈنگ کی اونچی اُڑانیں بھر رہے تھے ۔ ممکنہ وزیر اعظم عمران خان آپکی جان نے دویزار اٹھارہ کی الیکشن کمپین میں فرمایا تھا کہ آزاد امیدوار بکائو مال ہیں۔ ان کے ذریعے حکومت نہیں بنائیں گے ۔۔۔
ان سب کے خلاف آواز آپ نے اُٹھائی تھی ۔ اب آپ کے نمبر پورے نہ ہونے پر سب کے داغ دھُل گئے کیا۔۔؟ خان صاحب پاکستان میں حکومت بنانے کے لئے چور، لٹیرے،قاتل اور ڈاکووں کو ساتھ مِلا کر آپ پاکستان کا کونسا بھلہ کرنے جا رہے ہیں۔ آپ حلف اُٹھانے سے پہلے ہی اپنے دعووں اور ارادوں سے مُکر گئے ۔
یاد رکھئے گا آپ نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی نوجوان نسل کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں ۔ مگر نوجوان نسل نے بھی ارادہ کر رکھا ہے کہ وہ آپ کے غلط اقدام پر تنقید کرتے رہیں گے۔ ۔۔۔۔

اور پھر حکومت بنانے کے لئے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو سے ہاتھ ملایا

دھاندھلی کے الزامات اور جیتے ہوئے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ سپریم کورٹ سے نااہل جہانگیر ترین ہارس ٹریڈنگ کی اونچی اُڑانیں بھر رہے تھے ۔ ممکنہ وزیر اعظم عمران خان آپکی جان نے دویزار اٹھارہ کی الیکشن کمپین میں فرمایا تھا کہ آزاد امیدوار بکائو مال ہیں۔ ان کے ذریعے حکومت نہیں بنائیں گے ۔ نوجوان نسل نے ممکنہ وزیر اعظم کے اس نظرئے کو سراہا ،اسے زندگی کا مقصد سمجھا اور عہد بھی کیا کہ ہمارا کپتان اپنے دعووں ، باتوں یا ارادوں سے پھِرے گا تو ہم کپتان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائیں گے ۔ مگر یہاں ایک نا اہل شخص کا آذاد امیدواروں کی خرید و فروخت کا یہ عمل نوجوان نسل کے قریب مجرمانہ فعل نہ تھا کیوں کہ یہ عمل اُن کے کپتان کی نگرانی میں ہورہا تھا۔ کپتان کو کسی بھی طرح پنجاب اور وفاق میں کامیاب کروانا ہے ۔ یہ نوجوان نسل اور کپتان کے چیتوں کی خواہش تھی ۔ مگر سب کُچھ بائیس سالہ جدوجہد میں کئے گئے وعدوں اور دعووں کے بر عکس ہو رہا تھا ۔ کپتان کی پوری ٹیم کے قول و فعل میں تضاد کھُل کر سامنے آچُکا تھا ۔

نمبر گیم پورے ہوچُکے تھے ، ادھر اپوزیشن بھی متحد ہو چُکی تھی اور وکٹری سپیچ والی ٹیم کو ٹف ٹائم مِل رہا تھا۔ رفیقِ اول جہانگیر ترین انتھک محنت کر رہے تھے چیتے اُن پر ناز فرما رہے تھے مگر وقتاً فوقتاً دوبارہ گنتی میں تحریکِ انصاف کی ایک سیٹ کم ہوجاتی جو جہانگیر خان ترین کے جہاز کو پھر سے اُڑان بھرنے کے لئے تیار کردیتی۔ خیر جہانگیر ترین اور ان کے ذاتی جہاز کا نئے پاکستان کی تاریخ میں منفرد مقام ابھر کر سامنے آیا۔۔

افسوس صد افسوس ۔۔ میں ہمیشہ اپنی قوم سے سچ بولوں گا ۔۔ میرے کانوں میں یہ رس گھُلے جملے ایک امید کی طرح سے کھلتے تھے ۔ خان صاحب سے مخاطب ہونا چاہوں گا۔ خان صاحب آپ نے جدوجہد کی کرپشن کے لئے ، آپ نے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو جھوٹ اور آمدنی سے ذیادہ اثاثوں کے جرم میں نا اہل کروا کے اڈیالہ پہنچایا ۔ آپ نے کہا میں نے قوم کا مقدمہ لڑا۔ مگر یہاں دوہری پالیسی کیوں۔۔؟ اسی طرح کے کیس میں عدالتِ عظمیٰ سے نا اہل آپکا رفیق ترین کیوں۔ کیوں وہ آپ کی حکومت بنانے کے لئے جوڑ توڑ کر رہا ہے۔ نا اہل شخص کس طرح ملک و ملت کے مُفاد میں ہو سکتا ہے۔

محترم عمران خان صاحب اپنی زبان کے بڑے پکے ہیں۔ امید یہ ظاہر کی جا رہی تھی کہ آپ پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم مسلم لیگ ق یا کسی نا پسندیدہ جماعت سے الحاق نہیں کریں گے لیکن پنجاب میں حکومت سازی کے لئے آپکو کو سب سے پہلے چوہدری برادران سے ہاتھ مِلانا پڑا۔ یہ وہ ہی چوہدری پرویز الہی ہیں جنہیں آپ نے نے بھرے جلسے میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا۔ یہاں بھی ممکنہ وزیر اعظم اپنے قول و فعل سے مطابقت رکھتے نظر نہیں آئے۔ سونے پر سہاگہ کہ وفاق میں نمبر پورے کرنے کے لئے کراچی کی قاتل جماعت ایم کیو ایم سےپاکستانی عوام کے خون کا سودا کیا۔ ان سب کے خلاف آواز آپ نے اُٹھائی تھی ۔ اب آپ کے نمبر پورے نہ ہونے پر سب کے داغ دھُل گئے کیا۔۔؟ خان صاحب پاکستان میں حکومت بنانے کے لئے چور، لٹیرے،قاتل اور ڈاکووں کو ساتھ مِلا کر آپ پاکستان کا کونسا بھلہ کرنے جا رہے ہیں۔ آپ حلف اُٹھانے سے پہلے ہی اپنے دعووں اور ارادوں سے مُکر گئے ۔

یاد رکھئے گا آپ نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی نوجوان نسل کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں ۔ مگر نوجوان نسل نے بھی ارادہ کر رکھا ہے کہ وہ آپ کے غلط اقدام پر تنقید کرتے رہیں گے۔ ۔۔۔
جاری ہے۔۔