امتحان دنیا کا ہو ‘ یا آخرت کا ۔ بہت مشکل اور خوفناک
ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی عمران خان کاامتحان بھی شروع
ہوجائے گا ۔ جواد احمد ( گلوکار ) جو اب میدان سیاست میں بھی کود پڑے ہیں ۔
وہ فرماتے ہیں عمران خان صرف باتیں کرنا جانتے ہیں انہیں سیاست کی الف ب
بھی نہیں آتی ۔ ان کی کامیابی ان کے دو امیرترین ساتھی جہانگیر ترین اور
علیم خان کی مرہون منت ہے ۔ دوران الیکشن ووٹروں کوخریدنے اور جھنڈے بینروں
کی بھرمار کرنے کے لیے علیم خان نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔الیکشن کے بعد
جہانگیر ترین اس قدر متحرک ہوئے کہ منہ مانگی قیمت دے کر آزاد امیدواروں کو
عمران کی حمایت پر آمادہ کرلیا ۔ گنتی پھر بھی پوری نہ ہو ئی تو جہانگیر
ترین کراچی جا پہنچے اور ایم کیو ایم سے حمایت مانگ لی۔ایم کیو ایم نے اپنی
حمایت کے عوض مطالبات کی لمبی فہرست پکڑا دی ۔شنید ہے کہ تمام کے تمام
مطالبات مان لیے گئے جبھی تو ایم کیو ایم اپوزیشن جماعتوں کو سرخ جھنڈی
دکھادی۔ ٹی وی چینلز پر ایک سلائیڈ دیکھی ۔ لکھاتھا کہ ایک نااہل شخص نے
ایم کیو ایم کے تمام اہل افراد کو عمران خان کی جھولی میں لاکر ڈال دیا ۔
جہانگیر ترین کی پھرتیوں اور عمران سے وفاداری کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیاپر
ایک دوست نے سرخی لگائی کہ دوستوں کی فہرست میں ایک جہانگیر ترین جیسا دوست
بھی ہونا چاہیئے جو خود تو کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونہیں سکتا لیکن عمران
خان کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے میں سب سے زیادہ متحرک ہے ۔ اگر یہ
کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین کے بغیر عمران خان
واقعی کامیاب نہیں ہوسکتے تھے ۔ بہرکیف اب جبکہ وزارت عظمی بنی گالہ کی
دہلیز پر سجدہ ریز نظر آرہی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کا باہم مل بیٹھنا بھی
خطرے سے خالی نہیں ۔ ن لیگ کی جانب سے ناکامی کا رونا اپنی جگہ ‘ مولانا
فضل الرحمن ان سے دو ہاتھ آگے ہیں ۔شاید یہ ان کی زندگی کی پہلی اسمبلی
ہوگی جس میں وہ شامل نہیں۔ وہ اسمبلی میں جانے کے بھی خلاف تھے لیکن ن لیگ
اور پیپلز پارٹی نے انہیں یہ کہہ کر آمادہ کیا کہ اس طرح جمہوریت خطرے میں
پڑ سکتی اور مارشل لاء کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔ اس وقت طاقت کا منبع ایم
کیو ایم ہے جس کا ووٹ ہمیشہ برسراقتدار جماعت کے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ ان
حالات میں امید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان آسانی سے وزیر اعظم کا حلف
اٹھاسکتے ہیں ۔پی ٹی آئی کے نعیم الحق نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ
عمران خان سادگی کو ہر سطح پر پروان چڑھائیں گے اورعوام کوابتدائی دنوں میں
ہی زبردست ریلیف دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگر واقعی یہ سچ ہے تو چند
گزارشات ہم بھی پیش کردیتے ہیں۔ہماری قوم غریب لیکن حکمران اور سرکاری
افسران غریب نہیں بلکہ وہ آج بھی بادشاہوں جیسی زندگی بسر کررہے ہیں ۔کہاجاتا
ہے کہ لاہور کا گورنر ہاؤس 68 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے اور اس پر سالانہ 36
کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں وزیر ‘ مشیر اور گورنر
جیسے عہدیدار دو یا تین کمروں پر مشتمل فلیٹ میں رہتے ہیں ۔ ہمارا ایوان
صدر ‘ وزیر اعظم ہاؤس ‘وزرائے اعلی سیکرٹریٹ اور ہاؤسز سب کے سب نہ صرف
وسیع و عریض رقبے کے حامل ہیں بلکہ ان کی تزئین و آرائشیں پر ہر سال اربوں
روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ اسی تناظر میں چند حقائق مزید بیان کرنا ضروری سمجھتا
ہوں ۔کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104 کنال (ملازمین کی تعداد 33‘ ساہیوال
کے ایس ایس پی کی کوٹھی 98 کنال ‘ ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی 95 کنا ل ‘
ڈی سی او فیصل آباد کی رہائش گاہ 92 کنال۔صرف پنجاب کے سات ڈی آئی جی اور
ایس ایس پی کے رہائش گاہیں 860 کنال رقبے پر مشتمل ہیں ۔گویا پورے پاکستان
میں تمام ضلعی اور ڈویژن سطح کے افسران کی رہائش گاہیں یورپ کے حکومتی
سربراہوں سے بھی کہیں زیادہ بڑی ہیں ۔ جن کی تزئین و آرائش پر ہر سال ایک
ارب سے زائد خرچ ہوتا ہے۔ 2ہزار 6 سو کنال پر مشتمل ان سرکاری رہائش گاہوں
کے نگہداشت اور حفاظت کے لیے 30 ہزار سرکاری ملازمین مامور ہیں جن کی
تنخواہیں قومی خزانے سے ادا ہوتی ہیں ۔ اگر یہ وسیع و عریض رہائش گاہیں
مارکیٹ ریٹ پر فروخت کردی جائیں تو 80 ارب سے زائد رقم وصول ہو سکتی ہے ۔جبکہ
سرکاری اداروں کے سربراہان کے بلٹ پروف سمیت ہزاروں قیمتی گاڑیاں بھی موجود
ہیں جن کی دیکھ بھال پر بھی کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے ۔اگر سادگی اختیار
کرتے ہوئے سوزوکی گاڑیوں پر اکتفا کیاجائے تو قیمتی گاڑیوں کی فروخت سے بھی
اربوں روپے مل سکتے ہیں۔میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ ان دو شعبوں میں
سادگی اختیار کرکے اتنی رقم مل سکتی ہے کہ 100سے زیادہ جدید ہسپتال اور
پشاور تک کراچی دو بڑی سڑکیں‘ بھاشا اور مہند جیسے کئی اورڈیم بھی تعمیر
ہوسکتے ہیں۔ان سرکاری افسروں کو بجلی ‘ گیس ‘ فون اور لامحدود گاڑیوں مع
پٹرول کے فری ملتا ہے ۔ اگر سرکاری گاڑیوں کو ہر پرائیویٹ کاموں کی انجام
دہی سے روک لیا جائے تو چالیس سے پچاس ارب بچ سکتے ہیں ۔یہاں سرکاری پٹرول
بھی بکتا ہے اورسرکاری گاڑیاں بھی کرایے پر چلتی ہیں۔عمران خان منی لانڈرنگ
کے سخت خلاف ہیں تو انگلینڈ ‘ دوبئی ‘امریکہ سمیت سوئزرلینڈ کے بنکوں میں
جمع شدہ 200 ڈالروں کو واپس لانے کی کوشش کیوں نہیں ہوسکتی ۔ پٹرول اور
بجلی کے بلوں میں آدھے سے زیادہ ٹیکس شامل ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے اور نہ
پاؤں ۔ اگر یہ ٹیکس ختم کردیئے جائیں تو مہنگائی کو بڑی حد تک لگام ڈالی
جاسکتی ہے ۔ واپڈا اور بجلی سپلائی محکموں کے ملازمین کو ہر سال اربوں روپے
مالیت کی بجلی فری دی جاتی ہے جس کی قیمت عوام ادا کرتے ہیں اگر یہ سہولت
ختم کرکے اس کی جگہ 500 یونٹ تک عوام کو رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کی
جائے تو غریب عوام کو سہولت میسر آسکتی ہے ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی
فیسوں اور دیگر اخراجات کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے ۔ پانی کی قلت کو دور
کرنے کے لیے پشاور سے کراچی تک ہر اس جگہ پر ڈیم بنائیں جہاں جہاں سیلابی
پانی موسم برسات میں تباہی پھیلاتا ہے ۔ بھارت سے کشمیر اور آبی جارحیت
روکنے کے بارے میں دو ٹوک بات کریں ۔اشیائے خورد نوش اور ادویات کی قیمتیں
مقرر کردیں اور مقررہ قیمت پر فروخت کو یقینی بنائیں۔وزارتوں اور کلیدی
سرکاری عہدوں پر میٹرک پاس اور من پسند افراد بٹھانے کی بجائے اہل لوگ
بٹھائیں جو آپ کا دست و بازو بنیں ۔سیاحتی مقامات کو انٹرنیشنل سطح پر
ڈویلپ کرکے بھی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے ۔یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ
خودبھی قانون پر عمل کرتے ہوئے سادگی اختیار کریں گے اور ایسی با صلاحیت
اور مختصر کابینہ بنانے میں کامیاب ہوں گے جو عہدوں کی شوقین نہ ہولیکن
عوام کو گوناگوں مسائل سے نکالنے اور پاکستانی قوم کا تشخص عالمی سطح پر
بڑھانے کا عزم رکھتی ہو۔ سفارش ‘ رشوت اور اقربا پروری کا ہر سطح پر خاتمہ
بہت ضروری ہے یہ وہ بلائیں ہیں جنوں نے ہمارے ملک کو آسیب کی طرح جکڑ
رکھاہے ۔ یاد رکھیئے اقتدار کانٹوں کی سیج ہے اس پر بیٹھنے کا شوق تو سبھی
رکھتے ہیں لیکن یہ اپنے منشور پر عمل نہ کرنے والوں کو اس طرح عبرت کا نشان
بنا دیتی ہے جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ بن چکی ہیں |