بدنیتی۔ہرگز ہرگز نہیں

جوں جوں وقت گزررہا ہے۔پاکستانی قوم میں شعور بڑھ رہاہے۔اب لوگ معقولیت کے قائل ہورہے ہیں۔بے ڈھنگی بات اور رنگ باز ی کو جگہ نہیں مل پارہی۔گئے وقتون میں جب میڈیا اتنا وسیع نہ تھاشعور کی یہ کیفیت نہ تھی۔تب سیاسی ڈرامے عروج پر ہوا کرتے تھے۔رنگ بازیاں مان لی جاتی تھیں۔ڈھونگ تماشے کرکے کچھ لوگ آگے آتے رہے۔حکمرانی کرتے رہے۔قوم کم شعوری کے سبب ان پر اعتماد کرتی رہی اور باربار لٹتی رہی۔اب شعور بڑھ رہا ہے۔یہ بڑھتا شعور ہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی پر مجبور ہوگئیں۔مسلم لیگ ن جو شجرہ ممنوعہ بنی ہوئی تھی۔اس بڑھتے عوامی شعور نے اس کے گرد کچن کیبنٹ کے تنے پردے اکھاڑپھینکے۔قیادت جو ملاقاتوں اور منظر عام پر آنے کو توہین سمجھ رہی تھی۔اس کی ساری اکڑ فوں جاتی رہی۔بڑھتے شعور کاسب سے زیادہ نقصا ن پی پی کو اٹھانا پڑا۔اس جماعت نے گفتارکی غازی بنے بڑا عرصہ اپنا الو سیدھا کیا۔کرنا کچھ نہیں۔ہیرا پھیریوں سے کام نکالنا۔اب یہ طریقہ واردات کام نہیں دے رہا۔ بلاول بھٹو اور زردار ی صاحب باتیں تو وہی کرتے ہیں جو بھٹو اور بے نظیر کیا کرتے تھے۔ان کا ندازہ سیاست بھی ویسا ہی ہے مگر دال نہیں گل رہی۔اب لوگ کردار دیکھ رہے ہیں۔عمل دیکھ رہے ہیں۔پی پی اپنے بلند وبانگ دعووں کے باوجود اگر ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ محدود ہورہی ہے تو یہ عوام میں بڑھتے شعور کی دلیل ہے۔

تحریک انصاف کی طرف سے متفقہ طور پر عمران خاں کو وزیراعظم کے لیے نامزد کردیا گیا ہے۔ان کا نام شاہ محمود قریشی نے پیش کیا۔عمران خاں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے کسی دوسرے شخص اپنے آپ کو نامز نہیں کیا۔اس موقع پر نامزد وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بائیس سا ل قبل جس تبدیلی کے لیے سفر کاآغاز کیا تھا وہ منزل کے قریب آن پہنچا۔وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بناکررہیں گے۔انہوں نے ایک بار پھر اپنے عزم کو دہرایا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے۔تحریک انصاف کی طرف سے وزیر اعظم کے لیے عمران خان کی متفقہ نامزدگی خوش آئیند ہے۔یہ پارٹی میں مضبوط اتحاد کی علامت ہے۔اتحاد کی مضبوطی ہی تھی کہ ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا فرد نہ آیا۔البتہ اس موقع پر ایک بار پھر صوبائی حکومتوں سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔ پنجاب اور کے پی میں وزارت اعلی ٰ کے ناموں کا اعلان نہیں ہوسکا۔اعلان نہ ہونا اس شبہ کو تقویت دے رہا ہے کہ پارٹی میں پنجاب اور کے پی سے متعلق امور پر اختلافات پائے جارہے ہیں۔پرویز خٹک اور ان کے حمایتیوں کی اب بھی ترجیح کے پی کی حکومت ہے۔عمران خاں انہیں مرکز میں لانا چاہ رہے ہیں۔جناب خٹک کی طرف سے ہچکچاہٹ پر مبنی رویہ کے پی میں حکومت سازی کے معاملہ کوطو ل دلوا رہا ہے۔اگر پرویز خٹک کوصوبے کی وزارت اعلیٰ دوبارہ سونپ دی جاتی تو شاید یہ معاملہ سمٹ جاتا۔کچھ لوگ پچھے خٹک دور میں ان کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔اگر پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جاتے تو مخالفین کے پاس چپ کرجانے کے سو ا کوئی چار ہ نہ ہوتا۔صوبے میں نئی حکومتی ٹیم لانے کا عمران خاں کا عزم خلفشا رکا باعث بن رہاہے۔یہی حال پنجاب کا ہے۔وہاں بھی ہر حا ل میں حکومت بنانے کی ضد نے پارٹی کو دھڑوں میں تقسیم کررکھا ہے۔شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین والے دو دھڑے تو تھے ہی۔اب چھوٹے موٹے دیگر دھڑے بھی اپنا پریشر گروپ بناکرصوبائی حکومت کی نامزدگیوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

شعور بڑھ رہا ہے۔ڈھونگ ڈرامے ناکام ہورہے ہیں۔مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی راہبانیت ترک کرکے اپنے ورکرزاور نچلی قیادت سے رابطے کی طرف آچکی۔پی پی اس دفعہ بھی اپنے الیکشن نعروں اور دعووں سے کچھ نہ پاسکی۔اسے بھی اب کچھ کردکھانے کی ضرور ت کا احساس ہورہاہے۔شعور کی بڑھوتری ایسی تمام چوہدراہٹوں کو ہڑپ کرتی چلی جارہی ہے جو بھولے پن اور سادہ لوحی کے سبب قوم پر مسلط تھیں۔تحریک انصاف کی فتح پر ہزاروں سوالیہ نشان ہوسکتے ہیں۔مگر اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتاکہ لوگ دونوں بڑی جماعتوں کی من مانیوں سے غیر مطمئن ہیں۔دھاندلی کے ٹھوس شواہد اپنی جگہ مگر کیایہ حقیقت نہیں کہ نہ مسلم لیگ ن اپنے آ پ کو بدلنے پر آمادہ تھی۔نہ پی پی کسی قسم کی اصلاح پر آمادہ نظرآئی۔دھاندلی کے تمام تر الزامات کو درست تسلیم کر بھی لیاجائے تو بھی رائے عامہ کے تبدیلی کے حق میں ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔اگر پی ٹی آئی آگے آئی ہے تو اس میں عوام کی سوچ میں تبدیلی کا عمل دخل ہے۔قوم نے نیک نیتی سے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا۔قوم کی نیت ٹھیک ہے اب یہ تحریک انصاف پر ہے کہ آیا وہ ان کے زخموں کو مذید کریدتی ہے یا ان پر مرہم رکھے گی۔پنجاب اور کے پی کے میں جس طرح الیکشن کے کئی دن بعد تک بھی حکومت سازی کا فیصلہ نہیں ہوپارہا یہ تشویش ناک ہے۔تحریک انصاف سے متعلق مخالفین کی رائے ہے کہ یہ جماعت چوروں ٹھگوں اور بے ایمانوں کا ٹولہ ہے۔یہ پارٹی نہیں ہجوم ہے جو لوٹ مارکے لیے اکٹھا کروایا گیاہے۔جن کا اصل ٹاسک بڑے بے ایمانوں کا دفاع کرنا ہے۔پنجاب اور کے پی میں اب تک وزارت اعلیٰ اور وزارتوں کے لیے بندے نامز د نہیں کیے جاسکے۔اس خلفشار سے مخالفین کا تحریک انصاف کے ہجوم سے متعلق دعوی تقویت پارہاہے۔قوم نے ووٹ دے کر اپنی نیک نیتی کا ثبوت دیا۔اب جیتنے والے اگر بے ایمان نکل آئیں تو قوم کا کیا گناہ۔قوم کی تبدیلی کی خواہش اور کوشش کو ہرگز ہرگز بدنیتی قرارنہ دیا جائے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.