بھارت آئین کی دفعہ 35اے کیوں ختم کرنا چاہتا ہے؟

بھارت کی ناگالینڈ، میزورم، سکم، ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش، گوا جیسی ریاستوں کو آئین کی دفعہ 371کی زیلی سیکشن اے، سی، جی کی مختلف شقوں کے تحت خصوصی پوزیشن حاصل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی وجہ سے آج تک بھارت آبادی کے تناسب کو تبدیل نہ کر سکا اور جموں و کشمیر کی سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے تحت شناخت قائم رہی۔ اب بھارت عدلیہ کی مدد سے ایسا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ جس میں عدالت سے بھارتی آئین کی دفعہ 35اے ختم کراناہے۔ اس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ہڑتالیں اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ احتجاج میں جموں خطے کے عوام بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جموں کی بار ایسو سی ایشنز بھی میدان میں آئی ہیں۔ عوام کو خدشہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اس بار بھی عوام کی تسکین کے لئے فیصلہ کشمیر کے بجائے بھارتی عوام کے مفاد میں کر سکتی ہے۔ ایسا اس نے پہلے بھی کیا ہے کہ جب بھارتی عوام کی خواہش کے مطابق انصاف کے تقاضوں کے برعکس فیصلہ کیا گیا۔ کشمیری حریت پسند محمد افضل گورو کو اسی فیصلے کی روشنی میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی آئینی پوزیشن کو کھوکھلا کر نے کی بد نیتی سے بھارت نے اس میں اتنی ترامیم کی ہیں کہ آئین ہند کا آرٹیکل 370 ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ سب سے پہلے غلام محمد صادق حکومت میں مقبوضہ کشمیر سے وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے چھین لئے گئے،اس سے پہلے مقبوضہ ریاست میں وزیراعلیٰ کے بجائے وزیراعظم اور گورنر کی جگہ صدر کے عہدے تھے۔ نواکدل کے حاجی بشیر احمد وانی کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر کے آئین کو بے پال وپر بنانے کے لئے کم و پیش 350 بھارتی ایکٹ ریاست پر لاگو کئے گئے۔ اس سے بھی جب کشمیر دشمنوں کا پیٹ نہ بھرا تو آرٹیکل35 A کو کالعدم قرار دیئے جانے کی عدالتی کارروائی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس کے لئے سپریم کورٹ کا سہارا لیا گیا۔ عدالت عظمی میں آئین ہند کی دفعہ 35Aکو چلنج کر کے ہندوتواپریوار والے چاہتے ہیں کہ جموں کشمیر کی بچی کچھی خصوصی پوزیشن جو اب لفظوں کی حدتک محفوظ ہے، کو تحلیل کیا جائے۔ اس آرٹیکل کو 14 مئی 1954ء کوبھارت کے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 370 کی بنیاد پر آئین ہند میں شامل کیا گیا۔ در اصل 1953ء میں حکومت ہند کی جانب سے مقبوضہ ریاست کے اُس وقت کے ریاستی وزیر اعظم شیخ عبداﷲ کو غیرآئینی طور پر معزول اور گرفتار کر نے کے نتیجہ میں کشمیری عوام اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج حائل ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں ریاست میں محاذ رائے شماری کا وجود عمل میں لایا گیا ۔ محاذ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر حل کے لئے سیاسی جدو جہد کا موقف رکھتاتھا۔ اس لئے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ریاستی عوام اور عالمی برادری کو یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ جموں کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن نہیں چھینی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے اس دفعہ کو لایا گیا۔ دفعہ 35A کے تحت جموں کشمیر کی ریاست کے پشتینی باشندوں کو خصوصی مراعات اور حقوق فراہم کرنے کا آئینی و قانونی سہارا دیا۔

آئین ہند کے آرٹیکل 35A کی وجہ سے کوئی بھی غیر ریاستی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید نہیں سکتا، ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے پروفیشنل کا لجوں میں داخلہ نہیں پاسکتا، سکالر شپ حاصل کرنے کا حق دار نہیں ہوسکتا، سرکاری ملازمت نہیں پاسکتا،مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اور پنچایتی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔اگر کوئی ریاستی خاتون کسی غیر ریاستی سے شادی رچائے تو وہ پشتنی حقوق سے محروم ہو جائے گی۔اسی بنا پر سپریم کورٹ میں ایک ایسی ہی کشمیری خاتون نے اس قانون کو چیلنج کیا جس کی شادی غیر ریاستی سے ہوئی۔ یہ محض اس قانون کی دین ہے کہلفظی حد تک جموں و کشمیر کی اسپیشل پوزیشن آئین و قانو ن کا ناقابل تبدل حصہ بناہواہے۔اب61 سال گزرنے بعد بھارتی عدالت عظمی میں دفعہ 35A کو آر ایس ایس کے حمایت یافتہ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ دفعہ آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے سے میل نہیں کھاتا، ا س لئے اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اگر بالفرض عدالت عظمیٰ نے عوام کی تسکین کے لئے بھارتی حکومت کی ہدایت پر اس دفعہ کے خلاف فیصلہ سنایا تو ریاست میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی قانونی راہیں کھل جائیں گی ۔جس سے ریاستی عوام کے تمام قانونی حقوق پامال ہو کر رہ جائیں گے۔ اس میں دورائے نہیں کہ بی جے پی آئین ہند کی دفعہ 370 کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا کھل کر مطالبہ کر تی رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اب 35A کے دروازے کو استعمال کیا جارہاہے۔ایک رائے یہ ہے کہ اگر یہ دفعہ ختم ہو جاتی ہے تو بھارت کا کشمیر کے ساتھ نام نہاد الحاق بھی ختم ہو جائے گا۔ جو کہ مسلہ کشمیر کے لئے اچھا ہو گا۔ تا ہم اس بارے میں قانونی ماہرین کو غور کرنا ہے کہ قانون کا یہ پہلو کیسا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 370 کو بے دست وپا کر کے مقبوضہ جموں کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑ نے کا اوچھاحربہ ہے جس کا مقصد جموں کشمیر کی انفرادیت ہمیشہ کیلئے ختم کر نا ہے۔ بی جے پی نے2014ء میں پار لیمانی انتخابات کا میدان رام مندر کی تعمیر، یکساں سول کوڈ کے نفاذ، آئین ہند سے370 دفعہ حذف کئے جانے جیسے وعدوں پرفتح کیاتھا لیکن یہ چیزیں تشنہ تکمیل ر ہیں، اس لئے اب گؤ رکھشا کے نام پر ہجومی ہلاکتوں، این سی آر کی آڑ میں40 لاکھ آسامی مسلمانوں کی شہریت کا قضیہ کھڑا کرنے اورمقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر نے جیسے اقدمات سے یہ چند ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔کبھی بھارت اپنی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے اپنی اچھی شبیہ رکھتاتھا،اسی لئے 2010 میں جب اوباما ہندو ستان آئے تو انہوں نے جاتے جاتے وزیر اعظم ہند مودی کو فرمائش کی تھی کہ انہیں مذہبی انتہا پسندی سے اوُپر اُٹھ کر سوچنا ہوگا۔مودی کی پشت پناہی سے آج دفعہ35A کے خلاف لنگر لنگوٹے کسنے سے باور ہوتا ہیکہ مودی انتہا پسندی کو فروغ دے کر آئیندہ الیکشن بھی جیتنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے لئے کسی کو جوڑ توڑ،خرید و فرخت اور ہارس ٹریڈنگ سے فرصت ملے تو مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل طرز پر ہندو آبادی کو بسانے اور کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی مہم پر بھی توجہ دی جائے اور اس سنگین مسلہ کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ توقع ہے کہ عمران خان اور ان کے رفقاء اس جانب بھی فوری توجہ دیں گے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555738 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More