(پی ایس 111 سے تحریک اﷲ اکبر امیدوار)
زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ عام انتخابات میں حصہ لوں گا۔ الیکشن
2018ء جیسے قریب آئے اور نامزدگی کے لیے کاغذات جمع ہونے لگے تو پارٹی
قیادت نے حکم دیا کہ ایک حلقے سے حصہ لینا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینا چاہیے
یا نہیں اس کشمکش میں تھا کہ ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ ان کے سامنے معاملہ
رکھا کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کیا میں حصہ لوں۔ مجھے اس سے امید تھی کہ وہ
مجھے سمجھائے گا اور منع کرے گا لیکن اس نے میری توقعات کے برعکس مجھے حصہ
لینے کا مشورہ دیا ساتھ میں کہا کہ پارٹی قیادت نے اعتماد کیا، قیادت کی
بات کو ٹالنا نہیں چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ الیکشن کا ایک ٹکٹ کتنے میں
بکتا ہے اور پارٹی نے تمہیں بلا معاوضہ یہ اعزاز اس لیے دیا ہے کہ تم پر
بھروسہ کرتے ہیں، ان کے اعتماد پر پورا اتریں۔ تمہیں اس کا اندازہ بعد میں
ہوگا کہ میں نے یہ مشورہ کیوں دیا؟ ابھی میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ
الیکشن لڑوں یا نہیں؟ مزید یہ اس دوست نے الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ تو
دے دیا لیکن ساتھ میں ایک سوال بھی چھوڑ دیا کہ اس فیصلے کے ثمرات کاتمہیں
بعد میں علم ہوگا۔ خیر اﷲ اﷲ کر کے کاغذات جمع کرائے اور جماعت نے الیکشن
مہم کا آغاز کردیا۔
عام انتخابات میں حصہ لینااوراس کے تمام معاملات،یہ میرے لیے سب کچھ نیا
تھا۔ لوگوں سے مل کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ پاکستان میں لوگ سیاست کے نام
پر صرف دو چہروں کو جانتے ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ ملک کے میدان سیاست
میں آنے والا ہر شخص صرف پیسے کمانے کے لیے آتا ہے نہ کہ لوگوں کی خدمت
کرنے کے لیے۔ جس جماعت نے مجھے ٹکٹ دیا ،وہ اﷲ اکبر تحریک ہے جو پہلی مرتبہ
سیاست کے میدان میں اتری ہے اورپہلی مرتبہ انتخابات میں میں حصہ لے رہی
تھی۔ جماعت سیاسی میدان میں اپنا حصہ ڈال کر یہ اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ
جولاکھوں لوگ اس کے ساتھ فلاحی کام میں مصروف اور شریک ہیں، کیا یہ لوگ
سیاست میں بھی ہمارے ساتھ ہم قدم ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جو شاید ہر
سیاسی جماعت کے ذہن میں تو ہوتا ہی ہے لیکن اعداد وشمارمیں واضح طورپر یہ
کہنے کی ہمت نہیں رکھتی کیوں کہ سیاست میں ہر سیاسی جماعت یہی دعویٰ کرتی
ہے کہ ان کے نظریے پر پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔
ہم نے یہ دیکھا بھی کہ الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت نے اپنی کامیابی کی
خبریں سنادی تھیں اور کہنا شروع کردیا تھا کہ الیکشن میں ہم بھاری اکثریت
سے جیت جائیں گے لیکن جب میں نے اپنی جماعت کے علاقائی ذمہ داران کے ساتھ
اپنے حلقوں میں ملاقاتیں شروع کیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ کس کی کتنی اکثریت
ہے اور کس جماعت کابیان سیاسی اور لفاظی ہے اور کس کا حقیقت پر مبنی ہے۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں اور اپنے منشور کو
اپنی الیکشن مہم کا حصہ بناتی ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے میں ملک اس کے بالکل
برعکس ہے۔ یہاں پر سیاست دان ایک دوسرے پر الزام درالزام اور ایک دوسرے میں
کیڑے نکالنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں جب کہ ان کے سپورٹرز ان سے بھی چار
ہاتھ آگے ہوتے ہیں اور لفاظی میں اپنے رہنماؤں سے کئی کئی ہاتھ آگے نکل
جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ میری انتخابی مہم کے دوران پیش آیا۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ایک دوست ڈیفنس فیز 2ایکسٹینشن کے علاقے
میں کچھ لوگوں سے ملاقات کے لیے لے گئے اور وہاں جاکر میرا تعارف کرایا،
ساتھ ہی مجھے اشارہ کردیا کہ آپ نے کچھ نہیں بولنا، دوسرے بھائی بولیں گے۔
میں نے اس پر رضامندی کااظہارکیا اور خاموشی اختیار کرنے کو بہتر جانا۔ یہ
ملاقات کم و بیش ایک گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہی، میں عادت سے مجبور ہوں اس
لیے رہا نہ گیااور ان کی گفتگو میں حصہ لیناشروع کردیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ
تھی کہ مجھے یہ کہہ کر لایا گیا تھا کہ اس بھائی سے ملاقات کرنی ہے اور
اپنے ساتھ الیکشن مہم کا حصہ بنانا ہے لیکن جب وہاں بات شروع ہوئی تو مجھے
ابتدائی لمحات میں ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ بھائی ہم سے محبت تو ضرور کرتا ہے
لیکن سیاسی اعتبار سے وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری
سیاسی کمزوری تھی یا یوں کہہ لیں ہم لوگوں نے کبھی سیاسی کام نہیں کیے۔
انتخابی مہم کے دوران ہماری ایک غلطی یہ بھی تھی کہ ہم نے صرف منتخب
اورمخصوص افراد سے ملاقاتیں رکھیں۔ سیاسی میدان میرے خیال سے بہترین دعوتی
میدان ہوتے ہیں جس میں آپ آسانی سے کسی کے بھی دروازے پر جا کر دعوت دے
سکتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو برا بھی نہیں جانا جاتا بلکہ لوگ انہیں خوش
آمدید کہتے ہیں اور ان کی بات بھی سنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا
بھرمیں لوگ اس بات پرمتفق ہیں کہ سیاست دان ہی ان کے مسائل حل کرسکتا ہے
لہٰذا ہمیں ایسے سیاست دانوں کو چننا چاہیے جو ملک اور قوم کے ساتھ مخلص
ہو۔ دنیا بھر میں لوگ سیاست میں سیکولر اور لبرل طبقے کوہی دیکھنا چاہتے
ہیں لیکن مذہبی طبقے کو چننے سے کتراتے ہیں۔ افسوس ہے ایسی سوچ پر کیوں کہ
اسلام مکمل دین ہے ،جوزندگی کے ہرشعبے کامکمل ناصرف احاطہ کرتاہے بلکہ اس
شعبے کے لیے رہنمااصول اور قواعد بھی بتاتا ہے، یہ کام ملک چلانے کا کام ہو
یا تجارت کا، سیاست میں حکمرانی ہویا اپوزیشن۔ دنیا میں لوگ مذہبی طبقے سے
دور رہنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ سیاست کرنا مذہب سے
وابستہ افراد کا کام نہیں۔ حکومت اوراپوزیشن کے لیے ہمیں سیاست دانوں کی
جانب ہی دیکھنا پڑے گا۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے لوگ اسی نظرئیے پر عمل پیرا
ہیں۔ آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ مواقع فراہم کررہے ہیں، ان کے جھوٹے
وعدوں پر یقین کر رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید اب کی بار سب کچھ بہتر
ہوگا۔ پاکستان میں اگر مذہبی طبقے کو اس مرتبہ اتنی زیادہ سیٹیں نہیں ملی
اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا یہی نظریہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ شاید مذہبی
تنظیموں سے وابستہ افراد نے خود کو عوام کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیا جس
طرح عوام انہیں دیکھنا چاہتی ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں سرگرم عمل مذہبی طبقے نے خود کو چار دیواری
میں بند کرلیا ہے اور اس کا فائدہ سیاست دانوں نے بھرپور اٹھایا۔ ملک میں
انتخابات یاسیاست سے جڑا مذہبی طبقہ موجود تو ہے لیکن اسے ہائی جیک کرلیا
گیا ہے یا وہ لوگ خود ہائی جیک ہوگئے ہیں۔ یقینا اس کے ذمے دارسیاست سے
جڑاوہ مذہبی حلقہ خود ہی ہے کیوں کہ اس حلقے نے پاکستان میں کام ایک محدود
سوچ کے ساتھ کیا اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح اپنے حلقہ احباب کو دنیا سمجھ
بیٹھا۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ لوگ اپنے مسائل لے کر سیاست دان کے پاس تو جانا پسند
کرتے ہیں لیکن کسی مذہبی جماعت کے پاس نہیں جاتے کیوں کہ اس کی نظر میں اس
کے مسائل کا حل سیاست دانوں کے پاس ہیں نہ کہ کسی مولوی اور عالم کے پاس۔
اس مرتبہ عام انتخابات سے قبل جو متحدہ مجلس عمل بھی بنی اس سے کئی حلقے
شدید اختلافات رکھتے تھے کیوں کہ یہ وہی اتحاد تھا جو مشرف دور میں بنا تھا
بعد ازاں اس اتحاد کو قاضی حسین احمد مرحوم نے ختم کردیا تھا اس کی وجہ
مولانافضل الرحمان کے حوالے سے تحفظات بتائے گئے جو کئی اخبارات کی زینت
بنے تھے لیکن پھر اس اتحاد کے مردے میں جان ڈالی گئی تو لوگوں کوبھی وہی ہی
تحفظات پیدا ہوگئے۔ مزید یہ کہ اس اتحاد کے زندہ ہوتے ہی روز اول سے اس کا
جھکاؤ مسلم لیگ ن کی جانب تھا، مسلم لیگ ن سے خائف حلقے جو ن لیگ سے پہلے
ہی پریشان تھے وہ اس اتحاد سے بھی دور ہوگئے۔
اس مرتبہ عام الیکشن میں لوگوں کے پاس ایک اور جو بڑا آپشن موجود تھا، وہ
تحریک انصاف کا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ پر
تاحال کسی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جاسکا ہے لیکن ان کے ساتھ جو ٹیم
ہے اس میں کافی ایسے لوگ ہیں جو پرانی پارٹیوں میں اپنی قسمت آزمانے کے
بعدپی ٹی آئی شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔
۔ اگر اس مرتبہ عوام نے عمران خان کو موقع دیا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ
عوام کے مسائل حل کریں ان کی داد رسی کریں۔
بطور ایک مذہبی جماعت کے امیدوار ہونے کے میں مذہبی جماعتوں سے کہوں گا کہ
واقعی میں منہج نبویﷺ کی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو خدارا، لوگوں کے مسائل ان
کے پاس ڈور ٹو ڈور جاکر سنیں اور انہیں حل کرنے کے لیے میدان عمل میں
اتریں۔ مذہبی جماعتوں کو ایسے فورمز قائم کرنے چاہئیں جہاں لوگ اپنے مسائل
لے کر ان سے رابطہ کریں، ان کے مسائل کا ادراک کریں اور انہیں حل کرنے کے
لیے اپنی عملی کاوشیں کریں۔ |