مدت ہوئی اسکی یاد میں قلم نہیں
اٹھایا، خودکلامی کرنا بھی بھول گیا ہوں- مدت سے اپنے من کی کال کوٹھری میں
بند اپنے اندر کے قلمکار کو دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا- ہم انسان ذاتی
حادثات کا شکار ہو کر کمزور اور مفلوج ہو جاتے ہیں.
ہوائیں چلتی ہیں تو اپنی سرسراھٹ میں اک عجیب سی بولی بولتی ہیں، رات ہوتی
ہے تو سناٹا دور دور کی آوازوں کو اپنے ساتھ ہمارے ذہنوں اور جسموں تک لے
آتا ہے– دن چڑھتا ہے تو چرند پرند بیدار ہوتے ہی ایک الگ انداز میں اپنا
حال دل بیان کرتے ہیں-
مسجدوں، مندروں، گردواروں اور گرجاؤں کے گرد سے مختلف سے پیغام آتے ہیں
ایسے لگتا ہے جیسے ان کمروں کے بند دروازوں کے پیچھے سے کوئی پکار رہا ہے-
ہر کوئی اپنی اپنی بولی میں اپنے اپنے جان جاناں کو پکارتا ہے ہر کوئی
بھگتی اور محبت سے اپنے ساجن کو منانے کی کوشش کرتا ہے- وہ گھر کے اندر
کمروں کی دیواروں پہ لگے پوسٹروں اور اونچی عمارتوں اور چوباروں سے نہیں
بولتا وہ تو ہمارے من میں بولتا ہے.
ہم دیکھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں دکھا کچھ اور رہا ہوتا ہے ہم سوچ کچھ
اور رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں کسی اور سوچ میں ڈال دیتا ہے. ہم چلتے ہیں تو
چلتے ہی رہتے ہیں وہ روکے تو ہماری ہر حرکت نا ممکن ہو جاتی ہے- ہم کہانیاں
لکھتے ہیں وہ کہانیاں لکھواتا ہے ہم گھروں والے ہیں وہ گھروں میں نہیں بستا،
ہم اپنے جیسوں کو چاہتے ہیں وہ سب کو چاہتا ہے–
وہ کون ہے؟ جسے عشق حقیقی کا معیار بنا کر ہم زندگی گزارتے ہیں–
ہمیں تو نقصان بھی ہوتا تو صبر ہمیں وہی دیتا ہے اور جب ہم خوش ہوتے ہیں تو
وہ بھی اسی کا کرم ہوتا ہے- اس وقت رات کا سناٹا ہے دور کے آوازے میرے قریب
ہیں مگر اتنے نہیں جتنا وہ ہے.
وہ؟................. وہ کون ہے ؟
آج میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ بولتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اسے سن کیوں
ہنی پاتے - اگر وہ ہے تو دکھتا کیوں نہیں ہے - وہ میرے وجود میں ہے یا میرا
وجود اس کے قبضے میں! یہ سوال کیوں میرے ذھن میں ابھر رہے ہیں؟
میں ایفل ٹاور کے نیچے بیٹھا خود سے یہ سوال کر رہا تھا اور سامنے کچھ بچے
کھیل رہے تھے- ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا اپنی ماں کے پاس آیا اور پنجابی میں
زور سے بولا ( یہ میرے رب کا جواب تھا )" رب بولتا ہے تم بہرے ہو کان صاف
کرو وہ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی" - اس کی ماں نے اسے پنجابی میں کہا کے
کیسی باتیں کر رہے ہو پاگل ہو گئے ہو کیا. یہ میرے رب کے ہونے کی دلیل میرے
لیے کافی تھی وہ سن رہا تھا اور اس بچے کی زبانی مجھ تک اپنے ہونے کی دلیل
دے ڈالی -----
وہ کشتی والا ہے بادبانوں کا مالک قادر ہے اور اس کی سب باتیں سمجھنے کے
لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے .وہ ہر حال میں بے حال لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے -
گاؤں کے کھیتوں کی پکڈندیوں اور شہر کی شاہراہوں پر جہاں کہیں میں نے اسے
ڈھونڈا وہ مجھے نا ملا اور آج ملا بھی تو اس بچے کی آواز میں .
شام سے صبح ہوتی ہے رات بیچ کا پڑاؤ ہے ایسے ہی جیسے میرے وجود کے آغاز سے
اختتام تک میری زندگی- کاش میں اس بچے کے الفاظ کو سمجھ پاؤں، کاش میرے دل
میں اس کا خوف نہیں اس کی محبت پیدا ہو اور میرے کانوں سے گناہوں کی میل
نکل جائے اور میں اسے کتابوں کے ڈھیر اور عالموں کے مباحثوں میں نا ڈھونڈوں
بلکہ اس کی قدرت میں اسے ڈھونڈوں - کیا ہی اچھا ہو کہ میں چلوں تو اس کی
جانب اور اس کے واسطے اور رک جاؤں تو اس کے حضور جھک جاؤں .
میرا پڑاؤ میرے وجود کی طرح بہت کمزور ہے بلکل ایسے ہی جیسے رات کا سناٹا!
دن چڑھتے ہی یہ سناٹا ختم ہو جاتا ہے - میرے اس پڑاؤ میں اگر وہ میرے ساتھ
رہا تو میں شائد اپنے پوچھے ہوئے سوالات کے جواب جان پاؤں ورنہ تاریخ کی
پرانی کتابوں بلکہ کسی پرانے ڈائجسٹ کی ردی کی طرح میں گم ہو جاؤں گا بلکہ
RECYCLE بھی نہ ہو پاؤں گا اور زمانے کے فقیر ہمیشہ یہی کہیں گے اپنے کان
صاف کرو وہ بول رہا ہے تم سن کیوں نہیں رہے. ہر دور کے فقیروں کا انداز
مختلف تھا مگر پیغام ایک جیسا تھا. آج کے دور میں ہم اپنی شناخت، اپنی
پہچان کا معیار جن چیزوں کو بناتے ہیں وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں. اگر کوئی
پڑھا لکھا ہے تو اسے علم پہ مان ہے اگر کوئی دولت مند ہے تو اسے اپنے مال
پہ غرور ہے اور اگر کسی کو کسی پہ کسی بھی انداز میں سبقت حاصل ہے تو وہ اس
سبقت کی بنا پر دوسرے کا استحصال کرتا ہے.
میرے محسن استاد بلکہ میرے استادوں کے استاد ایک صوفی درویش انسان تھے .
علم کسے کہتے ہیں یہ میں نے ان کی ذات اور اس ذات کی صفات میں دیکھا . حضرت
نور الدین اویسی صاحب ایبٹ آباد میں رہتے تھے . بڑے باکمال دوست تھے وہ تب
بھی دوست تھے جب کوئی دوست نہ تھا اور آج بھی دوست ہیں جب دوستی کے معیار
بدل گئے ہیں . ایک بار ان سے ایک بات سنی تھی جو پڑھنے والوں کی نظر کر رہا
ہوں . آپ نے فرمایا کہ کسی بزرگ نے ایک کتاب لکھی اور اسکی ایک ایک جلد
اپنے طلبا میں تقسیم کی تاکہ وہ پڑھ سکیں اور فیض حاصل کریں مگر ایک مدت اس
کتاب کو ان طلبہ نے گھر میں رکھا اور پڑھنے کی کوشش نہ کی . ایک روز صاحب
کتاب کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے ایک خاص طالب علم سے تمام
کتابیں واپس لانے کو کہا. طالب علم نے کتابیں اکھٹی کیں اور انھیں واپس اس
استاد کے مکتب تک لے جانے کے لیے جیسے ہی راستے میں پہنچا تو موسم کی شدت
نے اسے مجبور کیا کہ وہ کسی درخت کے سائے میں تھوڑا آرام کر لے. وہ اسی
تھیلے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھا تھا جسمیں کتابیں تھیں اس نے اس تھیلے سے
ایک کتاب نکالی اور پڑھنی شروع کی . اسے تب اندازہ ہوا کہ وہ اور اسکے
ساتھی علم کے کس خزانے سے محروم ہونے جارہے ہیں . اسنے وہ کتابیں اپنے گھر
پر رکھ دیں اور جا کے اپنے استاد کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ آتے ہوئے وہ
کتابیں پانی میں گر گئیں. استاد نے پوچھا جب کتابیں پانی میں گری تو کیسی
آواز آئی ؟ طالب علم بولا "ڈوم"! استاد ایک دم سیخ پا ہوگیا . اٹھا اور
بولا " کمبخت ! جھوٹ مت بولو جاؤ اور جاکہ انکو پانی میں ڈال کے آؤ".
طالب علم بھاگا بھاگا گیا اور اس نے ایسا ہی کیا . واپس آیا اور اسکی زبان
میں لکنت تھی اور وہ ہکا بکا تھا . استاد نے پھر پوچھا کہ جب کتابیں پانی
میں ڈالیں تو کیا دیکھا . اسنے لرزتی آواز میں کہا " حضور ! جیسے ہی میں نے
وہ تھیلا پانی میں ڈالا پانی سے نور کا ایک شعلہ بلند ہوا اور آسمان کو
چھوتے ہوئے غائب ہو گیا . یہ کہہ کہ طالب علم پہ رقت طاری ہو گئی . وہ بہت
رویا ..........
استاد اٹھا باہر آیا آسمان کو دیکھا اور بولا " الحمدللہ ! جہاں کا علم تھا
وہاں پہنچ گیا "
جی ہاں! استاد محترم قبلہ نور الدین اویسی کی زبان سے سنے اس واقعے میں سچ
کی ایسی دلیل موجود ہے جو سمجھنا ضروری ہے. میرے جیسے اس کی تلاش میں ہیں
جو ہمارا ہم سب کا پیارا ہے مگر اسکے دیے ہوئے نصاب سے ہم ہٹ جاتے ہیں .
پیرس والے اس بچے کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے. "وہ سن رہا ہے
اور بول بھی رہا ہے مگر ہم بہرے ہیں ہمارے کانوں میں مادیت کی میل ہے
"....... |