یہ مضمون پاکستان کے ممتاز ادیب و دانش ورجناب الطاف
حسن قریشی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کا ہے جو جنرل محمد ضیاء الحق کی
شہادت کے حوالے سے ان کے دلی جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ موجودہ نسل کے
لیے اس مضمون کی اہمیت بہت اہم ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے
*****************
وہ 16 اگست کی شب تھی‘ رات کے بارہ بجے تھے۔
فون کی گھنٹی بجی۔
میں سمجھا آرمی ہاؤس سے فون آیا ہے۔ رات کو دیر سے فون صدر صاحب ہی کیا
کرتے تھے…… مگر اس بار میرے دوست فضل سید ہیلو ہیلو کر رہے تھے۔ میں نے
پوچھا خیریت تو ہے۔ کہنے لگے نیند نہیں آ رہی تھی۔ کچھ عجب طرح کی بے کلی
سی تھی۔ میں نے بے اختیار آپ کو فون کر لیا۔ میں نے بتایا کل صبح سویرے
اسلام آباد جا رہا ہوں۔
’’کل جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کہاں ہوں گے؟‘‘ انہوں نے انتہائی غیرمتوقع
انداز میں پوچھا۔
’’وہ کل بہاولپور جا رہے ہیں۔ مجھے صدیق سالک نے آج شام ہی بتایا تھا۔‘‘
’’خدا کرے وہ سفر سے بخیریت واپس آ جائیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔
مجھے عجیب سا خوف محسوس ہوا‘ اور میرے اعصاب میں سنسناہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں
نے پوچھا کیا محسوس کر رہے ہو؟
وہ پھر خاموش رہے۔ میں سمجھا فون سے دور چلے گئے ہیں۔ پھر ان کی آواز کہیں
دور سے آتی سنائی دی۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’الطاف صاحب! میں نے آپ سے ایک دن پہلے بھی کہا تھا کہ 17 اگست جنرل صاحب
پر بہت بھاری ہے۔ مجھے اس کے بعد کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں‘ مجھے یاد آیا‘ تم نے پندرہ بیس دن پہلے ستاروں کا حساب لگاتے ہوئے
17 اور 18 اگست کا ذکر کیا تھا۔ لیکن ان ستاروں کا کیا؟ یہ تو اپنی چال
بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ میں نے قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے کہا۔
’’بات آپ کی درست ہے اور خدا کرے اس بار بالکل ہی درست ہو۔ آج رات پاکستان
کی سلامتی کے لئے خاص دعا کیجئے۔ آپ کل شام واپس آ رہے ہیں‘ انشاء اﷲ رات
کو آپ کی طرف آؤں گا۔‘‘ فضل سید نے میرا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔ وہ
پہلے ایسا نہیں کرتے تھے۔
میں نے اس کے بعد آرمی ہاؤس کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ آپریٹر حسب معمول خوش
خلقی سے ملا اور صرف اتنا کہا شریف الدین پیرزادہ آئے ہوئے ہیں۔ آج رات
شاید ہی صدر صاحب سے آپ کی بات ہو سکے۔ میں نے کہا ’’ایک ضروری بات ان تک
پہنچانی ہے‘ موقع ملے تو ان سے اتنا ضرور کہہ دیجئے۔‘‘
نیند آنکھوں سے غائب تھی۔
رات کے پون بجے ٹیلی فون کی گھنٹی نے ایک بار پھر جمائے ہوئے سکوت کو درہم
برہم کیا۔ میرے اور دوست خلاف معمول دیر سے فون کر رہے تھے۔ وہ ہمارے پہلے
دوست کے ستارہ شناسی میں استاد کا مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے کسی تمہیدکے
بغیر کہا:
’’کل شام تک کوئی بڑا واقعہ رونما ہو گا اور اسی میں سے بہتری کی شکل نکلے
گی۔‘‘ ان کی آواز میں بلا کا اعتماد تھا۔
’’الطاف صاحب حالات میں ایک تغیر آنے والا ہے۔‘‘
میرے دل کو قدرے سکون ملا اور میں آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
صبح چھ بجے ایئرپورٹ کی طرف جانے سے پہلے میں نے ایئرپورٹ پر فون کیا اور
فلائٹ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ڈیوٹی آفیسر نے بتایا فلائٹ آج مقررہ
وقت سے دس منٹ پہلے جا رہی ہے کیونکہ صدر پاکستان آج صبح اسلام آباد
ایئرپورٹ سے ٹیک آف کر رہے ہیں اور اس فلائٹ کو ٹیک آف سے خاصا پہلے پہنچ
جانا چاہئے۔
کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر میں ایئرپورٹ روانہ ہو گیا۔
٭٭٭
اسلام آباد میں سارا دن بے حد مصروف گزرا۔ ایک صاحب سے ملنے ایوان صدر بھی
جانا ہوا۔ میں نے دوران گفتگو کہا کہ آج سے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی
رونما ہونے والی ہے۔ وہ میری بات سن کر چونکے مگر میری یہ وضاحت سن کر
مطمئن ہو گئے کہ تبدیلی میں بہتری ہو گی۔
مجھے صدیق سالک نے 16 اگست کی سہ پہر بتایا تھا کہ ہم شام کے چھ بجے تک
واپس آ جائیں گے اور رات کو آٹھ بجے کے بعد ملاقات ہو سکتی ہے۔ میں نے دل
میں سوچا تھا کہ صدر صاحب عام طور پر مقررہ وقت سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد
روانہ ہو ں گے اور طیارہ کہیں سات بجے کے بعد پہنچے گا اور میں سالک صاحب
سے رابطہ نو بجے کے قریب قائم کروں گا۔
اسلام آباد میں سات بجے کے قریب پولیس کی نفری میں یک دم خاصا اضافہ ہو
گیا۔ فضا میں کوئی بات پھیل رہی تھی‘ مگر میں اپنی مصروفیات میں اس طرح
الجھا ہوا تھا کہ ٹھہر کر فضا کو سونگھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس کے علاوہ
میں اس احساس کے نیچے بھی دب جانا چاہتا تھا جو مجھے گزشتہ شب فضل سید کی
باتوں سے ملا تھا۔ میں نے شاید جان بوجھ کر اپنے آپ کو مصروف رکھا تھا۔
رات کے آٹھ بجے میں اپنے محترم دوست میجر مصطفی شاہین کے ہاں گیا۔ ان سے
رابطہ ہوا تھا کہ اکٹھے ایلاف کلب کی میٹنگ میں چلیں گے۔ گھر پہنچا تو
انہیں ٹی وی کے سامنے بیٹھا پایا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اور ایک
گوشے میں لے جا کر بولے:
’’کیا آپ نے وہ خبر سن لی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے ان کے چہرے پر غم کی دبیز تہہ دیکھ لینے اور بات کو سمجھ
لینے کے باوجود کہا۔
’’صدر صاحب کا طیارہ تباہ ہو گیا ہے اور اس میں سے کوئی شخص بھی نہ بچ
سکا۔‘‘
مجھے اپنا وجود اور اپنے سامنے پھیلی ہوئی کائنات ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔
دل رک سا گیا۔ قائداعظمؒ کی وفات‘ خان لیاقت علی خان کی شہادت‘ 70ء کے
انتخابات کے نتائج‘ سقوط ڈھاکہ اور مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے سفر
آخرت کے مناظر یکے بعد دیگرے چشم تخیل کے سامنے آئے اور سینے کے پار ہو
گئے۔ درد کی ایک خاموش چیخ اٹھی۔ فضل سید کا اترا ہوا خیالی چہرہ تصور کے
آئینے میں ابھرا…… اور پھر ان کے استاد کا…… اس چہرے نے غم کو مردانگی سے
برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔ دل نے سوچا غم کی کیا بات ہے‘ اﷲ تعالیٰ نے
انہیں شہادت کا مرتبہ عطا کیا ہے اور ان کا خون جو پاکستان کی سرزمین میں
جذب ہو گیا ہے‘ وہ اس انقلاب کی آبیاری کرے گا جو انہیں اپنی زندگی سے کہیں
زیادہ عزیز تھا۔
٭٭٭
شہادت کی خبر سن کر پاکستان دم بخود تھا…… پاکستان پر سکتے کا عالم طاری
تھا۔
اسلام آباد کی دکانیں خودبخود بند ہونے لگیں۔ روشنیاں گل ہوتی چلی گئیں۔
نیون سائنز بھی بجھا دیئے گئے تھے۔ یہ وہ دکھ تھا جو لوگوں نے اپنے طور پر
محسوس کیا تھا۔ ہر شہر اور ہر قریہ ماتم کی تصویر بنا ہوا تھا۔ چیخیں اور
سسکیاں اندر سے اٹھ رہی تھیں۔ محبوب خدا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے
محبت کرنے والے ہر شخص نے یہ محسوس کیا تھا کہ ایک عاشق رسولؐ شہید کر دیا
گیا ہے…… پاکستان کا نگہبان شہید کر دیا گیا ہے‘ شرافت اور حسن اخلاق کا
مجسم پیکر شہید کر دیا گیا ہے‘ لوگ بچشم نم کہہ رہے تھے…… وہ سچا تھا‘ ہر
جگہ اور ہر مقام پر خدا کی اور اس کے نبیؐ کی بات کرتا تھا‘ اس کے سینے میں
اسلام کے لئے ایک ختم نہ ہونے والی تڑپ تھی۔ اس کے لہجے میں سوز وگداز تھا۔
وہ عشق رسولؐ سے سرشار تھا‘ اسے بلندیوں میں موت آئی۔ اس کا فرشتوں نے
استقبال کیا۔ وہ تو خدا کا خاص بندہ تھا۔ کچھ شہروں میں ایسے بدبخت بھی تھے
جو خوش ہوئے تھے کہ اب ہمارا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ اب ہم دوبارہ معاشرے میں
غلاظت پھیلا سکیں گے۔ انہوں نے مٹھائیاں تقسیم کرنے کا پروگرام بھی بنایا
مگر پاکستان کی محبت میں ڈوبے ہوئے عوام نے اس گروہ کی مذموم کوششیں ہر جگہ
ناکام بنا دیں اور ایسی قوت کا مظاہرہ کیا کہ بیمار ذہنیت کے افراد کو بلوں
میں گھسنے کے سوا اور کہیں جگہ نہ ملی۔
خاموش اکثریت اپنے وجود کا بھرپور احساس دلا رہی تھی۔
٭٭٭
17 اگست کی رات سے لے کر 20 اگست کی صبح تک پاکستان کے ہر دین دار گھرانے
میں قرآن کی تلاوت ہوتی رہی۔ درود وسلام کا ورد ہوتا رہا۔ نوافل ادا کئے
جاتے رہے۔ عورتیں یوں بلبلا بلبلا کر ماتم کر رہی تھیں جیسے ان کا باپ یا
ان کا بھائی ان سے جدا ہو گیا ہو۔ ضعیف عورتوں کی آہ وبکا میں درد کا ایک
نیا رنگ تھا۔ وہ روتی جاتیں اور ساتھ ساتھ قرآن حکیم کھول کر بیٹھ جاتیں
اور اﷲ کے کلام سے صبر کی قوت حاصل کرتیں۔ انہیں کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا
جیسے ان کا جگر گوشہ داغ مفارقت دے گیا ہو۔ یتیموں اور بیواؤں کا دکھ اور
بھی گہرا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور حکومت میں ان کا جتنا خیال رکھا
گیا تھا‘ اس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کی آنکھوں سے
آنسوؤں کی جھڑی رواں تھی اور ان کا کلیجہ شدید غم سے پھٹا جا رہا تھا کہ ان
کا محسن اس دنیا میں زندہ نہ رہا…… مگر پھر انہیں یہ خیال تسکین دیتا کہ جو
لوگ شہادت کے منصب پر فائز کر دیئے جاتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں…… ان کا کام
زندہ رہتا ہے…… ان کا فیض عام جاری رہتا ہے۔
اور کسی کے کہے بغیر مسجدوں میں نمازوں کے بعد قرآن خوانی کا دور چلنے لگا۔
ایک مسجد میں کچھ لوگوں نے اپنے چہروں پر سوال سجائے تو امام صاحب نے
فرمایا کہ اس شخص کے اعمال کا حساب کتاب لینے والے ہم کون۔ جسے اﷲ تعالیٰ
نے شہادت سے سرفراز فرمایا۔ یہ وہ امام تھے جو محمد ضیاء الحق کی زندگی میں
ان پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے اور بعض نمازیوں نے اسی تنقید کے حوالے سے
بات کی تھی…… امام صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ان کی گھگھی
بندھ گئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اس اﷲ والے کو
غلط سمجھا تھا۔ اس کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا تھا۔ اس کے زہد وتقویٰ کو
وزن نہیں دیا تھا…… اور آج یوں محسوس ہوتا ہے وہ خدا کے نزدیک تھا اور ہم
دور ہٹ گئے تھے۔ وہ بے نفس تھا اور ہم پر نفس کا غلبہ تھا‘ وہ ہمیں خدا کی
طرف بلاتا تھا اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارا مقام ہم سے چھین لینا
چاہتا ہے۔
اے اﷲ! میں آپ سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں۔ مجھے معاف کر دیجئے کہ میں
نے آپ کے مقرب بندے کا بہت دل دکھایا ہے۔
٭٭٭
بہاولپور سے چھ سات کلو میٹر دور جس بستی میں صدر پاکستان کا طیارہ گر کر
تباہ ہوا‘ اس کی طرف ہزاروں افراد بے اختیار نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی ریڈیو نے
خبر نشر کی تھی نہ ٹیلی ویژن نے۔ پھر یہ لوگ ازخود کہاں سے آ گئے تھے۔ ہر
عمر اور ہر طبقے کے تھے۔ ان کے اندر ایک عجیب سا جوش اور ایک عجیب سا تعلق
انہیں جائے حادثہ کی طرف لئے چلا جا رہا تھا۔ یہ رشتہ دل کا تھا‘ یہ رشتہ
عقیدت کا تھا‘ یہ رشتہ انسانیت کا تھا…… انسانی رشتہ ہر تعصب اور ہر تنگ
دلی سے ماورا ہوتا ہے…… آب زمزم کی طرح صاف اور شفاف ہوتا ہے۔ لوگوں نے
اپنے صدر کو گیارہ سال سنا‘ اسے بار بار دیکھا‘ اس کے الفاظ پرکھے اور اس
کے اعمال سے متاثر ہوئے۔ وہ سمجھے کہ یہ صدر ہم میں سے ہے۔ متوسط گھرانے سے
ہے اور اس تہذیب سے اٹھا ہے جس میں عشق رسول ؐ کی مہک ہے۔ وہ بے تابانہ
اپنے محبوب صدر کے طیارے کی طرف لپکے۔ اس مقام کی طرف لپکے جہاں انہیں
شہادت کا عظیم الشان مرتبہ حاصل ہوا تھا۔
یہی جذبہ اور یہی قوت محرکہ ہر جگہ کارفرما تھی۔
لاہور جو منچلوں اور زندہ دلوں کا شہر ہے۔ صدر پاکستان کی شہادت کا خبرنامہ
سنتے ہی آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گیا۔ بدقسمتی جس کا مقدر تھی‘ وہ اسے ملی
اور اس نے موت پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہی اظہار تھا جو بدبخت ہندہ
نے حضرت حمزہؓ کی شہادت پر کیا تھا۔ عہد جاہلیت کے سارے فتنے آج بھی بعض
ذہنوں اور دلوں میں زندہ ہیں۔ ان چند بدنصیبوں کے سوا پورا لاہور اپنے خدا
کے حضور سربسجود تھا۔ عورتیں قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں۔ پاکیزہ دلوں سے
پاکیزہ دعائیں اٹھ رہی تھیں۔ غم و اندوہ کا ایک عالم ہر سو چھایا ہوا تھا‘
مگر اس میں پژمردگی اور بے کسی نہیں تھی۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کا عزم بھی
شامل تھا جو ضیاء شہید لے کر چلے تھے اور پاکستان اور اسلام کے دشمنوں نے
انہیں بظاہر اپنے راستے سے ہٹا دیا تھا مگر انہیں شاید اس بات کا اندازہ
نہیں تھا کہ وہ انجمن میں تنہا نہیں تھے‘ اس کے ہم قدم لاکھوں نہیں کروڑوں
تھے اور عالم اسلام کے دل اس کے ساتھ دھڑکتے تھے۔
٭٭٭
پشاور میں عام آدمی کا صدر شہید سے اظہار محبت ا ور اظہار عقیدت دیدنی تھا۔
پورے شہر میں ایک کہرام مچ گیا تھا۔ لوگ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے
تھے۔ بہت گہرا تعلق تھا ان کے اور صدر مملکت کے درمیان…… وہ رشتہ اسلام کا
تھا۔ وہ رشتہ پاکستان کے ساتھ ناقابل تسخیر محبت کا تھا۔ یہ رشتہ افغانستان
کی جنگ آزادی سے اور مضبوط اور مستحکم ہوا تھا۔ صوبہ سرحد میں بیس تیس لاکھ
افغان مہاجرین پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے تمام کیمپ حزن وملال سے معمور تھے۔
مہاجرین کی آنکھوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ ان کی بہت بڑی قوت…… ان کا
بہت بڑا سہارا…… ان کے دکھ درد کا ساتھی‘ ان کے ساتھ مرنے اور جینے کا عہد
کرنے والا مجاہد ابدی نیند سو گیا تھا۔ اہل سرحد کے مجاہدوں نے عہد کیا تھا
کہ اپنے محسن کے خون کا انتقام لیں گے اور دشمنوں کو مزید سازشوں کا جال
پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مسجدوں سے بلندی درجات کی دعائیں بلند ہو
رہی تھیں۔ کتنے ہی لوگ آہ سحرگاہی میں شہید حق کو آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر
رہے تھے۔
حیدرآباد جو پاکستان کا تیسرا یا چوتھا بڑا شہر تصور ہوتا ہے۔ اس میں دلوں
کا حال دید کے قابل تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ایک طاقتور جذبے نے پورے شہر
کو بیدار کر دیا ہو اور آنکھوں سے دریائے سندھ رواں ہو۔ ہر شخص کے دوست بھی
ہوتے ہیں اور مخالف بھی۔ شخصیت جس قدر جاندار ہو گی مخالفت بھی اتنی ہی تند
وتیز ہو گی۔ مگر شہادت کی خبر سنتے ہی اختلافات کے بند ٹوٹ گئے اور دلوں
میں محبت اور اپنائیت کی طغیانی آ گئی۔ کچھ لوگ فرط غم سے پتھر بن گئے تھے۔
وہ کچھ کہتے ہی نہیں تھے۔ الفاظ کو اظہار غم کا یارانہ تھا۔ یہ بھی سنا روح
نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ حیدرآباد کا رنگ بھی وہی تھا کہ غم گسار نماز اور
کلام اﷲ کی طرف رجوع کر رہے تھے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئی تھیں۔ اجتماعی
قرآن خوانی کا اہتمام خودبخود ہوتا جا رہا تھا۔ عام آدمی سب سے زیادہ غمزدہ
تھا کہ اس کا خیال رکھنے والا فرمانروا بلندیوں میں چلا گیا تھا۔
کراچی کے کچھ شوریدہ سر مٹھائی تقسیم کرنے نکلے تھے مگر عوام کی خشمگیں
تیور دیکھ کر سیاسی طالع آزماؤں کے حوصلے پست پڑ گئے۔ بڑی بڑی اور چھوٹی
چھوٹی مسجدوں میں بچوں‘ جوانوں اور ضعیفوں نے بارگاہ عزت میں گڑگڑا کر اپنے
گناہوں کی معافی مانگی اور پاکستان کی سلامتی اور صدر شہید کے درجات بلند
کرنے کی مسلسل کئی روز تک دعائیں کیں۔ ستر اسی لاکھ نفوس کا یہ شہر بالکل
منجمد ہو گیا۔ غم کی چادر چھا گئی اور اس چادر کے نیچے اسلامی حمیت کے جذبے
توانا ہوتے چلے گئے۔
٭٭٭
بلوچستان کا دارالحکومت…… کوئٹہ شہادت کی خبر سنتے ہی سناٹے میں آ گیا۔
پورے شہر پر ایک پراسرار سی خاموشی چھا گئی۔ لوگ اتنی بڑی خبر سننے کا شاید
حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ یہ خبر ان کے دلوں کو برما رہی تھی۔ جنرل موسیٰ حزن
وملال کی ایک سچی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ظفر اﷲ خان جمالی پر قیامت صغریٰ ٹوٹ
پڑی تھی مگر انہوں نے بڑی ہمت سے کام لیا۔
شہریوں کو غم برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔ افغان مہاجرین کی حالت دیکھی نہیں
جاتی تھی۔ وہ کہتے تھے ہمارا بھائی‘ ہمارا باپ‘ ہمارا دوست شہید کر دیا
گیا۔ وہ اپنی زندگی افغانستان پر نثار کر گیا۔ اس نے روس کا مردانگی سے
مقابلہ کیا تھا‘ اس نے ایک بڑی طاقت کو ہزیمت اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا تھا۔ اس نے اسلام کی لہر روسی ترکستان تک
پہنچا دی تھی۔ وہ عالم اسلام کا ایک عظیم قائد تھا…… اسے دیکھ کر خلافت
راشدہ کا عہد یاد آ جاتا تھا۔
اور آزاد کشمیر کی چوٹیوں پر ضیاء شہید کا نام گونجتا رہا۔ سینے اس کے ذکر
سے وا ہوتے گئے۔ رب العزت کے حضور لاکھوں افراد نے بلندی درجات کی دعائیں
مانگیں‘ غریبوں کو کھانے کھلائے اور صلوٰۃ وسلام کے نغموں سے وادیاں جاگ
اٹھیں‘ آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ نکلیں۔ کوئی کہہ رہا تھا…… زندگی ہو تو
ایسی ہو…… شہادت ہو تو ایسی ہو کہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے اہل ایمان
نے دعائیں مانگی تھیں اور ان کے اقتدار میں آنے پر سجدہ ہائے شکر ادا کئے
تھے…… اور ان کی شہادت پر پورا پاکستان…… پورا عالم اسلام اشکبار تھا…… اور
دعاؤں کا ازدہام ہے۔ اتنا خوش نصیب حکمران تو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
٭٭٭
اور میری آنکھوں کے سامنے 20 اگست کی صبح کا منظر ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی سے
اعلان ہو رہا ہے کہ آج دو بجے صدر شہید کی میت اپنا آخری سفر طے کر کے اپنی
آخری آرام گاہ تک پہنچے گی۔ جنازے کے وقت کی اطلاع ملتے ہی پاکستان کے
دوردراز علاقوں سے بڑی تعداد میں شہریوں نے رخت سفر باندھا اور اپنے طور پر
دن اور رات کا سفر طے کر کے مسجد فیصل شہید کی طرف صبح ہی بڑھنے لگے تھے۔
اس روز دھوپ میں بڑی تمازت تھی مگر عورتوں‘ مردوں اور ضعیفوں کے قافلے کشاں
کشاں چلے آ رہے تھے۔
17 اگست کی شام جناب غلام اسحق خان نے حکومت سنبھال لی تھی اور کابینہ کی
ہنگامی میٹنگ سے وہ رات کے گیارہ بجے فارغ ہوئے تھے اور انہوں نے ابتدائی
معلومات کی بنیاد پر قوم سے خطاب کیا تھا۔ طیارے کے حادثے نے ملک میں
ہنگامی صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اور جنرل مرزا اسلم بیگ نے بہاولپور سے
راولپنڈی آتے ہوئے مسلح افواج کو کسی فوری خطرے سے نمٹنے کے لئے الرٹ کر
دیا تھا۔ صدر کے جنازے میں غیرملکی شخصیتوں کو بھی شریک ہونا تھا اور ان کے
لئے غیرمعمولی حفاظتی اقدامات کی ضرورت تھی۔ نئی حکومت انہی مسائل میں
الجھی ہوئی تھی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں کتنی بڑی قوت ازخود
منظم ہو رہی ہے اور اسلام کے ساتھ محمد ضیاء الحق کی شیفتگی نے عوام کو
کتنے بڑے انقلاب سے آشنا کر دیا ہے۔
19 اگست کی شام صدر شہید کے جناز کے انتظامات کو آخری شکل دینے کے لئے ایک
اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اس میں اندازہ پیش کیا گیا کہ نماز جنازہ میں شریک
ہونے والے حاضرین کی تعداد اتنی ہو گی کہ شاید ہی مسجد کا صحن بھرا جائے۔
ان کا خیال تھا گرمی بہت ہے اور زیادہ سے زیادہ راولپنڈی کے لوگ آ سکیں گے۔
اسی اندازے کے مطابق لاؤڈسپیکر کا انتظام کیا گیا اور ٹی وی کے کیمرے نصب
کئے گئے۔ منتظمین کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس طرح کے اجتماعات میں لوگ
لائے جاتے ہیں اور صدر شہید کی کوئی سیاسی جماعت نہیں جو عامتہ الناس کے
لئے سہولتیں فراہم کر سکے گی‘ اس لئے حاضری ایک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہ ہو
گی۔
لیکن ڈیڑھ دو لاکھ افراد تو صبح دس بجے ہی مسجد فیصل شہید میں جمع ہو چکے
تھے۔ اور بارہ بجے تک فیصل مسجد سے لے کر زیرو پوائنٹ تک انسانوں کے سر ہی
سر دکھائی دے رہے تھے۔ ٹریفک گوجر خان تک جام ہو چکی تھی۔ لوگ سخت گرمی کے
باوجود مسجد کی چھت اور میناروں پر چڑھتے چلے گئے تھے۔ ایک دیوانگی اور
شیفتگی کا عالم تھا۔ لوگ جنازے میں عبادت سمجھ کر شامل ہونے آئے تھے۔ پوری
تیاری کے ساتھ اور کامل یکسوئی کے ساتھ۔ بیشتر لوگوں نے اپنے گلے میں پانی
کی بوتلیں ڈال رکھی تھیں مگر وہ پانی پی نہیں رہے تھے۔ اس سے وضو کر رہے
تھے۔
٭٭٭
محمد ضیاء الحق شہید کے جنازے میں شرکاء کی چند خصوصیات کا ذکر تاریخی
اعتبار سے نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ تاریخ نے
اتنا بڑا اجتماع پہلے نہیں دیکھا۔ اسلام کے دشمنوں کے سوا باقی تمام
رپورٹروں اور مبصرین کا اندازہ یہ تھا کہ لوگ پندرہ اور بیس لاکھ کے درمیان
تھے۔ ایک آسٹریلوی اخبار کے فوٹوگرافر نے کہا تھا میں نے دنیا کے بڑے بڑے
قائدین کے جنازے دیکھے ہیں مگر اتنا بڑا جنازہ آج سے پہلے نہیں دیکھا۔ صدر
جمال ناصر کا جنازہ اس کے قریب پہنچتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ کوئی انسان اور
کیمرے کی آنکھ پورے منظر کا احاطہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ ہیلی کاپٹر سے جو
تصویریں لی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمندر کی طرح موجیں امڈی چلی آ
رہی ہیں۔ راستے اس طرح بند ہو گئے تھے کہ ایک بڑی تعداد نماز جنازہ میں
شریک ہی نہ ہو سکی۔ رات گئے تک لاکھ ڈیڑھ لاکھ انسان فاتحہ پڑھتے اور آگے
بڑھتے رہے۔
اﷲ تعالیٰ نے جسے چاہا اپنے بندوں کے لئے پسندیدہ بنا دیا۔ اس پر جتنا فخر
کیا جائے کم ہے۔ بی بی سی نے اسلام دشمنی میں شرکائے جنازہ کی تعداد جان
بوجھ کر بہت کم دکھائی ہے اور یہی طرز عمل ٹائم اور نیوز ویک نے اختیار
کیا…… ہماری بدقسمتی کی یہ انتہا ہے کہ خود پاکستان میں بعض افراد یہ ثابت
کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ جنازے کا اجتماع بس مناسب ہی
تھا۔ عوامی قوت کا غلط اندازہ لگانے والے اپنے ہی ساتھ زیادتی کے مرتکب ہو
رہے ہیں۔
نماز جنازہ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ لوگ بڑے ذوق وشوق سے آئے تھے۔ کسی
قوت نے انہیں شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ ضمیر اور دل کی آواز پر
لبیک کہتے ہوئے آئے تھے اور نمود ونمائش کے ہر شائبے سے بالاتر تھے۔ کچھ
تجزیہ نگاروں نے اس عظیم الشان اجتماع کو ایک ٹی وی ڈراما قرار دیا اور یہ
بھی توضیح فرمائی کہ قوم تو فلموں میں المیہ مناظر دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتی
ہے۔ یہ ساری باتیں کسی نفسیاتی مرض کی طرف اشارہ کرتی ہیں ورنہ ایک صحت مند
ذہن اتنے بڑے جیتے جاگتے منظر کو اس رنگ میں نہیں دیکھ سکتا۔ قوم کو کرکٹ
فوبیا لاحق ہے مگر جب اسے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کھیل ٹی وی پر دکھایا
جائے گا تو سٹیڈیم خالی رہتے ہیں۔ جنازے کے آخری مناظر ہر گھر میں ٹی وی پر
دیکھے گئے اور لاکھوں افراد ایک جذبہ بے اختیار کے ساتھ مسجد فیصل شہید کی
طرف بھی آئے اور اس طرح آئے کہ آنے کا حق ادا کر دیا۔ بہت سے دیہاتی تیس
تیس چالیس چالیس میل پیدل چل کر آئے تھے۔ دس پندرہ میل کی پاپیادہ مسافت تو
لاکھوں آدمیوں نے طے کی تھی اور وہ اپنے ساتھ پنج سورے اور حمائل بھی لائے
تھے۔ یہ کسی ڈرامائی لمحے کے شکار نہیں ہوئے تھے بلکہ اس کا مکمل وجود پوری
آگہی کے ساتھ اس عبادت میں شریک تھا جس کی تلقین ان کے آقائے نامدار حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔
٭٭٭
شرکائے جنازہ کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ صلوٰۃ وسلام پڑھتے آئے تھے۔ وہ
اﷲ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی سورتیں پڑھ رہے تھے۔ وہ خود
گھنٹوں پیاسے رہے اور اپنے ہمراہ لایا ہوا پانی انہوں نے وضو کے لئے محفوظ
رکھا۔ اسلام آباد کے مکینوں نے بھی اپنے دروازے آنے والوں کے لئے وا کر
دیئے تھے۔ گھر گھر پانی کے پائپ بچھے ہوئے تھے اور ان کو دھوپ سے بچانے کے
لئے برآمدے اور کمرے کھلے ہوئے تھے۔ صدر شہید کی نماز جنازہ میں شریک ہونے
والے ایک اندازے کے مطابق بڑی حد تک باوضو تھے۔ اتنے بڑے اجتماع میں اتنا
بڑا اہتمام شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔
بی بی سی نے اس پاکیزہ فضا کو بھی کھیل تماشے کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔
اسے تو یہ کردار ادا ہی کرنا تھا۔ وہ تو اسلام کی اتنی عظیم الشان قوت دیکھ
کر سراسیمہ ہو گئے ہوں گے اور ان کی تو یہ خواہش ہو گی کہ اتنے بڑے اجتماع
کو ایک غیرسنجیدہ ایکسرسائز ثابت کر دیا جائے تاکہ غیراسلامی طاقتوں کو
اپنی کمتری کا احساس نہ ہونے پائے…… مگر ایسی مذموم کوششوں سے کیا ہوتا ہے؟
حقائق زندہ رہتے ہیں اور افسانے وقت کے بخارات میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭
محمد ضیاء الحق شہید کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد نے فقط دو حوالوں سے کامل
آمادگی کے ساتھ شرکت کی تھی۔ وہ یہ کہ شہید ایک سچے پاکستانی اور ایک سچے
مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شرکائے اجتماع کا تعلق متوسط اور عام
طبقے سے تھا۔ اونچا طبقہ جو مصنوعی زندگی بسر کرتا ہے وہ ان کی زندگی میں
بھی ان کا مخالف تھا اور ان کی شہادت کے بعد بھی ان کے دلوں پر عناد کے
پردے پڑے رہے۔ دراصل متوسط اور درمیانہ طبقہ ہی سچے شعور کی دولت سے بہرہ
ور ہے اور اسی کو اپنے وطن اور اپنے دشن سے والہانہ محبت ہے اور جونہی محمد
ضیاء الحق کی شہادت میں انہیں سچے مسلمان اور سچے پاکستانی کا حوالہ نظر
آیا‘ وہ کسی دعوت یا کسی اہتمام کا انتظار کئے بغیر اپنے محور کی طرف کھنچا
چلا آیا۔
٭٭٭
اور اﷲ اﷲ کیا عظمت ہوئی شہید حق محمد ضیاء الحق کی کہ حرم کعبہ میں امام
شافعی کے بعد ان کی نماز غائبانہ پڑھائی گئی۔ بارہ صدیوں بعد یہ اعزاز خاص
اسلام اور پاکستان کے سچے خادم کو نصیب ہوا۔ کیا یہ اعجاز بھی کسی ٹی وی
ڈرامے کا رہین منت تھا؟ مسجد نبوی میں ہزاروں اشکبار آنکھوں نے جس خشوع
وخضوع کے ساتھ صدر شہید کی نماز غائبانہ ادا کی‘ وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی
نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے۔ شرق اوسط کے مختلف بڑے بڑے شہروں میں لوگ
نماز جنازہ ادا کرنے جوق درجوق آئے اور لاکھوں پاکستانیوں نے امریکہ میں‘
برطانیہ میں‘ یورپ میں‘ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر غائبانہ نماز جنازہ ادا
کی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جن کے دل اور ذہن کھلے تھے اور جو ناقدری کے عذاب میں
مبتلا نہیں تھے۔ یہ پاکستان اور اسلام کے ساتھ وابستگی اور پیوستگی کا بے
ساختہ اور دیوانہ وار اظہار تھا۔ اہل دل اور اہل نظر کو اس ذیشان اظہار پر
خوش ہونا چاہئے کہ یہی تو زندگی اور توانائی کی علامت ہے اور یہی وہ قیمتی
سرمایہ ہے جس کے ذریعے قوموں کی تقدیریں بدلی جا سکتی ہیں۔
٭٭٭
محمد ضیاء الحق کی شہادت نے پاکستان اور عالم اسلام کو ایک نئی قوت فراہم
کی ہے…… عوام کی قوت اور شعور کی قوت…… بیدار مغز اور الوالعزم قیادت اسے
بنیاد بنا کر اور ابھرتے ہوئے عظیم لمحے کی گرفت میں لا کر ایک نئی تاریخ
اور ایک نیا جغرافیہ اور ایک نیا مستقبل تعمیر کر سکتی ہے اور یہ بھی ممکن
ہے کہ وقت گزرتا جائے اور ہم حقیقت کو سراب میں تبدیل کرنے میں لگے رہیں
اور اپنی انا کے بوجھ تلے دب کر ہی دم توڑ دیں…… مگر ہمیں قدرت کا فیصلہ
کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان کے گرد وپیش بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی
ہیں۔ افغانستان کی آزادی کے بعد سیاسی فوجی اور اقتصادی اعتبار سے ایک ایسا
طاقتور خطہ ابھرتا نظر آتا ہے جس میں پاکستان‘ ترکی‘ ایران اور افغانستان
ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو کر ایک زبردست قوت بن سکیں گے۔ |