زَر کی تحریکِ انصاف کے پاس کمی نہیں کہ کبھی نہ ختم
ہونے والے 2 اے ٹی ایمز(جہانگیر ترین، علیم خاں) کپتان کی خدمت کے لیے ہمہ
وقت تیار۔ اگر کبھی ،مزیدضرورت محسوس ہو تو کپتان بیرونی ممالک کا رُخ کرتے
ہیں،جہاں اُن کے دیوانے اُن پر کروڑوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو نچھاور کر دیتے
ہیں۔ تحریکِ انصاف نے جو پچھلے5 سالوں میں جلسوں، دھرنوں کے نام پر میوزیکل
کنسرٹ کا اہتمام کرکے سونامیوں کو مسرتوں سے مالامال کیا، وہ اِنہی اے ٹی
ایمز اور بیرونی امداد کا مرہونِ مَنت ہی تو ہے ورنہ کپتان کے پاس تو
سوزوکی ایف ایکس بھی نہیں۔ اب تو سونومیوں کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے
کہ روٹی ملے نہ ملے، وہ میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام ضرور چاہتے ہیں۔ سونامیے
سوچتے ہیں کہ اب جب کہ اُنہیں پورے ملک میں شاندار کامیابی نصیب ہوئی تو
پھر جلسے جلوسوں کی ضرورت باقی بچتی ہے نہ دھرنوں کی۔ اگر دھرنے نہیں ہوں
گے تو پھر میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی نہیں ہوگا ، مدھر موسیقی کی دھنیں
نہیں ہوں گی، ڈی جے نہیں ہوگا، عطااﷲ عیسیٰ خیلوی کی گائیکی نہیں ہوگی
اورابرارالحق کا ’’نچنے نوں جی‘‘ نہیں کرے گا تو زندگی کا کیا خاک مزہ آئے
گا۔ ہماری اپنے کپتان سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اور کچھ کریں نہ کریں،
سونامیوں کے لیے موسیقی کا بندوبست ضرور کر دیں۔ اگر آئین میں اِس کی
گنجائش نہ ہو تو کوئی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ڈھونڈ لیں۔ کتنا مزہ آئے اگر قوم سے
اپنے پہلے خطاب کے دَوران بیک گراؤنڈ میں گانا’’اَج میرا نچنے نوں جی
کردہ‘‘ نہ سہی اِس کی دھنیں ہی بجتی رہیں۔یہ مطالبہ کچھ غلط بھی نہیں کہ
پچھلے پانچ سالوں میں سونامیوں کومیوزیکل کنسرٹ ہی کا تو عادی بنایا گیا
ہے۔ اب اگر یکلخت یہ سب کچھ بند کر دیا گیا تو زندگی کی ساری رنگینیاں ختم
ہو جائیں گی۔ تحقیق کہ اگر سونامیوں کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو
اُنہیں بھی یو ٹرن لیتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔ یوٹرن بھی تو اُن کی تربیت
کا حصّہ ہی ہے۔
’’زور‘‘ بھی بہت کہ سارے ’’زورآور‘‘ پُشت پر۔کپتان نے کرکٹ کا کھیل امپائر
کو ساتھ ملا کر کھیلا ہو یا نہ لیکن سیاست کا کھیل امپائر کو ساتھ ملا کر
ہی کھیلا جس کی واضح نشانیاں 2018ء کے انتخابات میں موجود۔ امپائر تو 2014ء
کے دھرنوں سے ہی کپتان کی پشت پر تھا، یہ الگ بات ہے کہ اُس کی انگلی کھڑی
ہوتے ہوتے اتنا عرصہ بیت گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ کہ کپتان کی جیت ’’پیرنی‘‘
کی کرامت سے ہوئی لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ جیت ’’پیرنی‘‘ نہیں
’’مہاپیروں‘‘ کی کرامات کا نتیجہ ہے جن کی انگلی کا ایک اشارہ سب کچھ
’’اُتھل پُتھل‘‘ کر دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی کشتی کے ’’پتوار‘‘
کِس کے ہاتھ میں ہوں گے، کپتان کے ہاتھ میں یا مہاپیروں کے ہاتھ میں؟۔
امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق کہتے ہیں ’’ہم دیکھیں گے حکومت کہاں سے
ڈِکٹیشن لیتی ہے اور کِن کے اشاروں پر چلتی ہے۔ اگر حکومت کا قبلہ مکّہ کی
بجائے کسی اور طرف ہوا تو اُسے درست کر دیں گے‘‘۔ ہمارے دِل میں محترم سراج
الحق کا بہت احترام ہے لیکن کہے دیتے ہیں کہ جو قوتیں کپتان کو مسندِ
اقتدار تک لے آئیں، وہی قوتیں اب اُن کے ’’قبلے‘‘ کی سمت کا تعین بھی کریں
گی۔
لال حویلی والے شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ عمران خاں کو فری ہینڈ دیا جائے،
اِسی میں ملک وقوم کی بہتری مضمر ہے، لیکن لیگیئے کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کِس
مُنہ سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ یہ وہی شیخ صاحب ہیں جو نوازلیگ کے پورے
دَورِحکومت میں جلاؤ، گھیراؤ، مارو اور مَر جاؤ کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ وہی
شیخ صاحب ہیں، جنہوں نے کپتان کو مشورہ دیا تھا کہ احتجاجی تحریک کی
کامیابی کے لیے ’’لاشوں‘‘ کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
اگر کوئی لاش دستیاب نہ ہو تو اُنہیں گولی مار کر اُن کی لاش اُٹھا دی
جائے۔ اب وہی شیخ صاحب ’’فری ہینڈ‘‘ کی باتیں کرتے ہیں لیکن مکافاتِ عمل
توقانونِ فطرت ہے۔ اِس لیے ’’جیسا کروگے ،ویسا بھروگے‘‘ کے مصداق تحریکِ
انصاف کورَدِ عمل کے لیے تیار رہنا چاہیے اور شیخ صاحب کو بھی جو یہ کہتے
ہیں کہ وہ کسی وزارت کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ اُنہیں اگر سمندر کی لہریں
گننے پر بھی لگا دیا گیا تو وہ بخوشی قبول کر لیں گے۔ شیخ صاحب کا یہ بیان
سُن کر ہمیں ایک حکایت یاد آگئی، آپ بھی سُن لیں۔ ’’نانِ جویں کے محتاج ایک
کُٹیا میں رہنے والے کی بیوی ہر روز جھگڑتی رہتی۔ جواباََ وہ شخص ہمیشہ
کہتاکہ بھلی مانس! حکومت میں ہاتھ ’’اَڑ‘‘ جانے دو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک روز کٹیا کے قریب سے گزرتے ہوئے بادشاہ نے بھی اُس نکمے شخص کی بات سُن
لی۔ اگلے دِن بادشاہ نے اُس شخص کو دربار میں بلایا اورمعمولی تنخواہ پر
سمندر کی لہریں گِننے کے لیے لگا دیا۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ اِس کام میں
اُس شخص کو کوئی بالائی آمدن تو ہو گی نہیں اِس لیے بھوکوں ہی مرے گا۔ کوئی
دو سال بعد بادشاہ کا گزر پھر اُسی جگہ سے ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ
گیا کہ اب کُٹیا کی جگہ محل ایستادہ تھا۔ اگلے دِن بادشاہ نے اُس شخص کو
دربار میں بلایا اور کہا کہ اُسے جان کی امان دی جاتی ہے لیکن وہ یہ بتا دے
کہ اُس کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ اُس شخص نے دست بستہ عرض کیا کہ جب بھی
کوئی بحری جہاز سمندر میں آتا تھا تو وہ اُسے ساحلِ سمندر سے دور ہی یہ کہہ
کر روک دیا کرتا کہ لہریں ڈسٹرب ہو جاتی ہیں۔ پھر وہ منت سماجت اور بھاری
رشوت کے بعد جہاز کو ساحل تک آنے کی اجازت دیتا‘‘۔کہیں شیخ صاحب کا بھی
کوئی ایسا منصوبہ تو نہیں؟۔
لیگیئے یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلے دَورِحکومت میں تحریکِ انصاف کے پاس صرف
26 سیٹیں تھیں جن کے بَل پر کپتان نے نوازلیگ کا پورے پانچ سال تک ناطقہ
بند کیے رکھا۔ اب تو پارلیمنٹ میں 160 سے زائد ارکانِ پارلیمنٹ کی مضبوط
ترین اپوزیشن ہوگی۔ مزہ تو تب آئے گا جب پارلیمنٹ کے اندر خواجہ آصف
سیالکوٹی کہہ رہے ہوں گے ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ غیرت
ہوتی ہے‘‘ اور پارلیمنٹ کے باہر مولانا فضل الرحمٰن فرما رہے ہوں گے کہ
کپتان نے تو پارلیمنٹ پر ہزاربار لعنت بھیجی تھی، اب اِس بیان کے ’’تناظر‘‘
میں وہ کِس مُنہ سے ’’لعنتی پارلیمنٹ‘‘ میں بیٹھے ہیں۔ مولانا سے تھوڑی دور
تحریکِ لبّیک کے علّامہ خادم حسین رضوی المعروف ’’مُلّا گالی گلوچ‘‘ بھی
اپنا دھرنا جمائے بیٹھے ہوں گے۔ شنید ہے کہ وہ بھی 6 اگست کو دھرنا دینے جا
رہے ہیں۔ اب تحریکِ انصاف کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ’’گرینڈ اپوزیشن
الائنس‘‘ کا سامنا کرنا ہوگا۔ غالباََ یہ تاریخ کی مضبوط ترین اپوزیشن ہو
گی جو کپتان کو ’’وَخت‘‘ میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔یہی حال پنجاب میں
بھی ہے جہاں حکومت تو تحریکِ انصاف ہی کی بننے کا امکان ہے لیکن محض ایک دو
ووٹوں کے فرق کے ساتھ۔ یہاں بھی حکومت کو ’’زَچ‘‘ کرنے کا پورا پورا
بندوبست کیا جا چکا ہے۔ اپنے دَورِحکومت میں ایک دفعہ میاں نوازشریف نے کہا
تھا ’’سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں‘‘۔ موجودہ حالات کو مدّ ِ نظر رکھتے
ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عنقریب کپتان بھی ’’سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں‘‘
کہتے ہوئے نظر آئیں گے۔
متحدہ اپوزیشن کہتی ہے کہ کپتان کبھی اپنی بات پر قائم نہیں رہتے۔ 2018ء کے
انتخابات سے پہلے وہ جن لوگوں کے خلاف زہر اُگلتے رہے، اب اُنہی کی مدد سے
حکومتیں بنانے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی تقریروں میں بار بار کہا کہ وہ
کسی آزاد رُکنِ اسمبلی کو اپنی جماعت میں ہرگز جگہ نہیں دیں گے ۔جو آزاد
اُمیدوار یہ کہتے ہیں کہ وہ انتخاب جیت کر تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں
گے، اُنہیں یہ پیغام پہنچا دو کہ تحریکِ انصاف میں اُن کے لیے کوئی جگہ
نہیں۔ اب اُنہی آزاد ارکان کے زور پر وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے جا
رہے ہیں۔ آزاد ارکان کو تحریکِ انصاف میں شامل کرنے کے لیے جہانگیر ترین کا
’’اے ٹی ایم‘‘ بہت کام آیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے حفظ حسین احمد نے کیا
خوب کہا ’’پہلے غلام بِکا کرتے تھے، اب آزاد بِکتے ہیں‘‘۔ سچ تو یہی کہ
ہماری سیاست میں سب سے زیادہ ’’گَند‘‘ یہی آزاد اُمیدوار ہی ڈالتے ہیں۔ اُن
کا مطمح نظر انتخاب جیت کر سیاسی جماعتوں کو ’’بلیک میل‘‘ کرنا ہوتا ہے جس
میں وہ اکثر کامیاب بھی رہتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر آئین میں
یہ ترمیم لے آئیں کہ کوئی شخص آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصّہ
نہیں لے سکتا تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عمران خاں
نہیں،جہانگیر ترین وزیرِاعظم بننے جا رہے ہوں۔ یہ الگ بات کہ کچھ لوگ
اُنہیں ’’نااہل ترین‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ یہ جہانگیر ترین کی کرشماتی
شخصیت کا کرشمہ ہی تو ہے کہ جس ایم کیو ایم کو کپتان کی زبان دہشت گرد قرار
دیتے نہیں تھکتی تھی، آج وہی جماعت اُن کی دست وبازو بنی بیٹھی ہے۔ یہ
پاکستانی سیاست بھی عجیب ہے کہ ایک طرف تو ایم کیو ایم تحریکِ انصاف پر
دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اُس کی حکومت کا حصّہ بھی بننے
جا رہی ہے۔ یہی حال قاف لیگ کا ہے۔ ماضی قریب میں کپتان چودھری برادران کو
ڈاکو اور لٹیرے کہا کرتے تھے، آج وہی ڈاکو حکومت کا حصّہ بننے جا رہے ہیں۔
|